... loading ...
گزشتہ ایک دو برس سے اسلامی ممالک کے درمیان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عالمی کھیل شروع ہوچکا ہے اور چونکہ اِس مقابلہ میں شرکت کرنے والے ممالک پر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے غیر معمولی معاشی انعامات کی بارش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔لہٰذابیش بہا معاشی فوائد کا لالچ آہستہ آہستہ اُن مسلم ممالک کے حکم رانوں کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پالیسی اختیار کرنے پر آمادہ کرتا جارہا ہے ، جو ایک مدت سے مظلوم فلسطینیوں کی محبت و الفت میں اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے صاف انکاری رہے ہیں۔ عموماً ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ جو گنتی چند ممالک اسرائیل کے ناپاک وجود کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کرتے وہ سب کے سب مسلم ممالک ہیں ۔حالانکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ایک ،دو ممالک ایسے بھی ہیں ،جن کا شمار کسی بھی لحاظ سے مسلمان ممالک کی فہرست میں نہیں کیا جاسکتامگر وہ پھر بھی اسرائیل کو صرف اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی مظلوم ہیں اور اسرائیلی ظالم۔
واضح رہے کہ دنیا میںاقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ کل ممالک کی تعداد 193 ہے ، جن میں بڑی مسلم آبادی والے ممالک کی تعداد تقریباً 56 بنتی ہے ۔گو کہ دنیا کی اکثریت نہ صرف اسرائیل کو بطور ایک ریاست تسلیم کرچکی ہے بلکہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ مضبوط سفارتی ،سیاسی و دفاعی تعلقات بھی رکھتی ہے ۔ مگر اسرائیل کی حکومت کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جو ممالک بطور ریاست اُسے تسلیم نہیں کرتے اُن کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بعض ممالک ماضی میں اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرچکے تھے لیکن بعد میں اُس کے سفارتی وجود سے انکاری ہوگئے ۔ نیز کچھ ممالک تجارتی و معاشی تعلقات تو اسرائیل کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن اُس کی سفارتی حیثیت کو نہیں مانتے ۔اسرائیل کو نہ ماننے والے کُل ممالک کی تعداد 22 ہے۔جن کی اجمالی سی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ نیزعرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔یاد رہے کہ الجزائر 1962 میں آزاد ہو اتھا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔جبکہ انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔نیزبرونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔جبکہ بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔حالانکہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔ دوسری جانب بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ نیزجمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔علاوہ ازیں ہمسایہ ملک شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہے اور دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ جبکہ شام کے اسرائیل دشمن قوتوں مثلاً ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک غیر مسلم ملک ہوتے ہوئے بھی شمالی کوریا نے کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔نیزافریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔جبکہ عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے لیکن ابھی تک وہ اس معاہدہ کا حصہ نہیں بنا ہے۔علاوہ ازیں قطر اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔جبکہ کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔
اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ اس کا پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔نیزلیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔جبکہ ملائیشیا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔علاوہ ازیں یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔جبکہ ہمارا ملک پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ اسرائیل اور امریکا کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اور پاکستان اسرائیل کی سفارتی حیثیت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو باقی ممالک شاید اگلے روز ہی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیں۔یہ ایک خواب ہے اور آج کل اِس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایک بہت بڑا عالمی کھیل جاری ہے ۔ اَب اِس کھیل کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا، پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔