وجود

... loading ...

وجود

بجلی کا بحران

پیر 06 جون 2022 بجلی کا بحران

اس وقت ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔ شہروں میں آٹھ سے بارہ گھنٹے بجلی بند رہتی ہے جبکہ دیہات میں سولہ سے بیس گھنٹے بجلی غائب ہوتی ہے۔ بعض دیہی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں دو دو دِن تک بجلی نہیں آتی۔ اِن گرمیوں میںجو بے تحاشا لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اس سے پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت (2008-13) کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس وقت بالکل ایسے ہی حالات تھے۔ خاص طور سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں۔ ان صوبوں میں پیپلزپارٹی کو جو سیاسی نقصان پہنچا اس کا ایک اہم سبب بجلی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ تھی۔بہرحال‘ لوڈ شیڈنگ ایک برسوں پرانا مسئلہ ہے، مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے آخری دنوں میں چند گھنٹے روزانہ کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی تھی۔سبب یہ تھا کہ جنرل ضیا ء نے اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں بجلی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں لگایا۔ نظام میں بجلی کے ایک یونٹ کا اضافہ نہیں کیا۔ اس وقت افغان جہاد کے نام پر امریکی ڈالر آرہے تھے۔ وہ چاہتے تو ایک بڑا ڈیم یاچین کی مدد سے تین چار ایٹمی بجلی گھر بنواسکتے تھے۔ مقامی کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ لگوالیتے۔ لیکن انہوں نے یہ کام نہیں کیا۔عارضی اقدامات اور ایڈہاک ازم ہمیشہ سے ہمارے حکمرانوں کی حکمت عملی رہی۔ آج ہم جس مصیبت سے گزر رہے ہیں اس کے بیج انیس سو اسّی کی دہائی میں مارشل لا حکومت نے کاشت کردیے تھے۔
اس وقت ملک میں گرمی کی وجہ سے بجلی کی ڈیمانڈکم و بیش اٹھائیس ہزار میگاواٹ ہے۔جولائی اور اگست مین حبس بڑھ جائے گا تو طلب تقریباًتیس ہزار میگاواٹ ہوجائے گی۔ جبکہ صرف بیس سے اکیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ سات ہزار کا فرق ہے ۔ تاہم جس حساب سے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اُس سے لگتا ہے کہ یہ گیپ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت نے صنعتی شعبہ یعنی کارخانوں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنی رکھا ہوا ہے۔ ان کو پُورا وقت بجلی میہا کی جارہی ہے۔تقریبا سات ہزار میگاواٹ صنعتی شعبہ کے لیے مختص ہے۔
دوسرے‘ کچھ ملک کے خاص خاص لوگ ہیں جیسے عدلیہ کے جج حضرات‘ اعلی افسران ‘ ڈیفنس ہاوسنگ ایسے امیر علاقے وہاںیا تو لوڈ شیڈنگ نہیں کی جاتی یا بہت کم لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ اس طرح باقی عوام کے لیے تیرہ سے چودہ ہزار میگاواٹ بجلی بچتی ہے۔ جب کہ ان لوگوں کی مجموعی ضرورت اکیس ہزار میگاواٹ ہے۔ یوں طلب سے نصف بجلی دستیاب ہے۔ بجلی کی جتنی قلت ہے وہ عام شہریوں کے لیے ہے۔ خاص طور سے گاؤں اور چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جتنی بجلی کی ڈیمانڈ ہے اتنی بجلی پیدا کیوں نہیں کی جارہی؟ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ضرورت کے مطابق بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے۔ لیکن اسکو پوری طرح استعمال نہیں کیا جارہا۔مثلاً ساہی وال کا کول پلانٹ پچیس فیصد استعداد پر چل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی بنانے کے لیے ڈیزل ‘ فرنس آئل‘ قدرتی گیس اور درآمدی کوئلہ درکارہے۔ یہ چیزیں بیرون ملک سے آتی ہیں۔ ہمارے ملک کے پاس اتنا زر مبادلہ یعنی ڈالرز نہیںہیںکہ ہم ضرورت کے مطابق ڈیزل یا گیس خرید سکیں۔ ڈیزل اور گیس عالمی منڈی میں بہت مہنگے ہوگئے ہیں۔ زیادہ ڈالرز درکار ہیں۔ اس لیے حکومت ضرورت کے مطابق بجلی نہیں بنوارہی۔ اگر ہمارے پاس فارن کرنسی ہوتی ‘ ڈالرز ہوتے تو ہم بجلی بنانے کے پلانٹ چلوالیتے۔ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اگلے روز ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں صاف صاف کہہ دیا کہ لوڈ شیڈنگ کرکے حکومت کروڑوں ڈالرز کا زرِ مبادلہ بچا رہی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت صرف سو اچار ہزار میگا واٹ بجلی پانی کے منصوبوں سے بنارہا ہے۔یعنی کُل بجلی کا بیس فیصد۔آٹھ نو فیصد بجلی ایٹمی بجلی گھروں سے ملتی ہے۔ باقی ستر فیصد بجلی تیل‘ گیس ‘ کوئلہ سے۔ یہی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تیل‘ گیس کی مہنگی بجلی نجی کمپنیاں بنا کر حکومت کو بیچتی ہیں۔ اسے خریدنے اور فروخت کرنے میں حکومت کو بہت نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔زرمبادلہ الگ سے خرچ ہوتا ہے۔
مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے سابقہ ادوار میں پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے نہیں لگائے گئے۔ ان دونوں جماعتوں نے انیس سو پچاسی سے لیکر سنہ دو ہزار اٹھارہ تک باری باری حکومت کی۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے فرنس آئل‘ ڈیزل اور قدرتی گیس سے بجلی بنانے کے پلانٹ لگوائے اور وہ بھی نجی شعبہ میں۔ بہت مہنگے داموں پر۔ پانی کی بجلی سب سے سستی ہوتی ہے۔ تیل‘ گیس سے بننے والی بجلی سے بارہ چودہ گنا سستی۔ اس کے منصوبے شروع نہیں کیے گئے کیونکہ وہ آٹھ سے دس برس میں مکمل ہوتے ہیں۔سیاستدان اپنے چار پانچ سال کے دور میں اُن کا کا کریڈٹ نہیں لے پاتے۔ شہباز شریف نے گزشتہ دور میں ساہیوال کے زرخیز زرعی علاقہ میں درآمدی کوئلہ سے بجلی بنانے کا پلانٹ لگوایا۔ حالانکہ وہ تھر کے مقامی کوئلہ سے سستی بجلی بنانے کا پلانٹ لگواسکتے تھے۔ وہ کوئلہ ملک کے اندر دستیاب ہے۔ اسے خریدنے پر زرمبادلہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ایک نجی کمپنی وہاں مقامی کوئلہ سے پاور پلانٹ چلا رہی ہے۔ درآمدی کوئلہ مقامی کوئلہ سے چار گنا مہنگا ہے۔انڈیا ساٹھ سے پینسٹھ فیصد پاوَرمقامی کوئلہ سے بناتا ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ چند برس سے پن بجلی کے سات آٹھ بڑے منصوبے بنانے کا کام شروع ہوا ہے لیکن ان کی تکمیل چند برس ہوگی۔بعض تو دو ہزار تیس تک مکمل ہوں گے۔
ایک اور مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی بہت زیادہ چوری ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ جو بجلی استعمال کرتے ہیں وہ اس کا بل ادا نہیں کرتے۔ بجلی خرید کر بیچنے کا کام اب واپڈا نہیں کرتا۔ اس کے لیے ایک الگ کمپنی ہے۔ اس کا نام ہے سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی۔ سنہ دو ہزار اکیس میں بجلی کمپنی نے دو ہزار ارب روپے کی بجلی صارفین کو دیکر اس کے بل جاری کیے۔لیکن اس میں سے ڈھائی سو ارب روپے وصول نہیں ہوئے۔ حکومت نے بجلی کمپنی سے کہا کہ غریب لوگوں کو ڈیڑھ سو ارب روپے کی رعایتی بجلی دے دو۔ لیکن حکومت نے بھی وہ رقم ادا نہیں کی۔ اس طرح بجلی کمپنی کو چار سو ارب روپے کا صرف ایک سال میں نقصان ہوا۔ گزشتہ برسوں کے نقصانات ملا لیں تو اس وقت بجلی کمپنی نے لوگوں اور اداروں سے ایک ہزار چھ سو ارب روپے وصول کرنے ہیں۔یہ تو ڈیفالٹ ‘ نادہندگی ہے۔ اسی طرح حکومت نے بجلی کمپنیوں کوادائیگی کرنی ہے۔ وہ بھی ایک ہزار ارب روپے کا قرض ہے۔ اس طرح ملا کر بجلی کا گردشی قرض دو ہزار چھ سو ارب روپے بنتا ہے۔لہٰذا حکومت سمجھتی ہے کہ جتنی زیادہ بجلی بیچو گے اتنا نقصان بھی زیادہ ہوگا۔ بیس فیصد بجلی کی رقم پلّے سے دینی پڑے گی۔ تو اس کا علاج حکومت نے یہ نکالا ہوا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کرو اور ضرورت سے کم بجلی بیچو۔ یعنی معاملہ اتنا ساد ہ نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ خاصاپیچیدہ ہے۔ حکمران سیاسی وجوہ کی بنا پر عوام کو سچ بات نہیں بتاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر