وجود

... loading ...

وجود

پاک ترک تعلقات کا جائزہ

هفته 04 جون 2022 پاک ترک تعلقات کا جائزہ

ترکی سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے دلوں میں تقسیمِ ہند سے قبل بھی خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے عقیدت رہی خلافت کے خاتمے اور مصطفی کمال پاشا کی لبرل پالیسی کے باوجود عقیدت و احترام میں کمی نہ آئی قیامِ پاکستان کے بعد کہنے کی حدتک پاک ترک تعلقات انتہائی قریبی اور گرم جوشی پر مبنی ہیں رواں برس پاک ترک سفارتی تعلقات کی75 ویں ساگرہ بھی منائی جارہی ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے لیکن دونوں ممالک میں دوستی اور قریبی تعاون کے جتنے دعوے کیے جاتے ہیں عملی طور پر صورتحال انتہائی مایوس کُن ہے حالانکہ باہمی تجارت کے وسیع مواقع ہیں زمینی ،فضائی اور سمندری تینوں زرائع سے تجارت ممکن ہے پاکستان ،ترکی اور ایران تینوں ممالک نے سامان لانے اور لے جانے کے لیے ریل سروس بھی بحال کر دی ہے لیکن تمام تر مواقع کے باوجود ترکی کوپاکستانی برآمدات کم ہو رہی ہیں دوستی و تعاون کا یہ نتیجہ ہے کہ ترکی کے سامان کاپاکستان گودام بن رہا ہے تجارتی حجم کیوں مکمل طور پرترکی کے حق میں ہے؟ سے خدشات و سوالات جنم لیتے ہیں کہ یا تو پاک ترک تعلقات محض حکومتی سطح تک ہیں یا پھر دوستی کی باتیں مصنوعی ہیں اور چین کی طرح ترکی بھی پاکستان کو صرف اپنے مال کی منڈی سمجھ کر اہمیت دیتا اور منافع حاصل کر نے کاایک ذریعہ تصورکرتا ہے۔
پاکستان کا ہر حکمران اقتدار ملتے ہی چین ،سعودی عرب،عرب امارات ،ایران ،ترکی ، امریکہ اور برطانیہ کا دورہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کچھ عرصہ سے ایران ،امریکہ اور برطانیہ کی اہمیت کم ہوچکی ہے لیکن چین ،سعودی عرب ،عرب امارات کی اہمیت بڑھی ہے کیونکہ اِن ممالک سے پاکستان کو مالی مدد ملتی ہے وزیرِ اعظم شہبازشریف نے 31 جولائی سے ترکی کے سہ روزہ دورے کے دوران ترکی کوفطری شراکت دارقرار دیتے ہوئے کئی معاہدوںاوریادداشتوں پر دستخط کیے ہیں سعودی عرب،برطانیااور عرب امارات کے بعد اُن کا یہ چوتھا غیر ملکی دورہ ہے معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کے باوجود ترکی کے دورے کے دوران دیگر ممالک کی طرح تعاون کے امکانات بہت کم ہیں پہلے بھی معاہدوں پر عملدرآمدکے حوالے سے ماضی کوئی درخشاں نہیں اب تو زوال پذیر معیشت کی بناپر تجارتی تعاون اوربھی کم ہو سکتاہے ترکی سے دفاعی تعاون کے علاوہ کچھ مالی تعاون حاصل ہونا یا برآمدی سامان کے لیے سہولتیں ملنے کازیادہ امکان نہیں امریکہ سے تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے تو ترکی نے ہمیںایف سولہ کے انجن اوراضافی پرزے دینے سے صاف انکار کر دیاحالانکہ ترکی کے کہنے پر ہی او آئی سی کے متبادل کے طورپر ملائشیا کے دارلحکومت کوالالمپور میں ایران کی ہمراہی میں نئی تنظیم بنانے کے لیے چارملکی سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا گیا چاہے سعودیہ کے ڈر سے عمران خان نے عین وقت پراجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی لیکن اِس غلطی کے نقصان کا ابھی تک ازالا نہیں ہوسکا قبرص کا مسلہ ہو،روسی طیارہ گرانے پر سفارتی تنائو یا فتح اللہ گولن تحریک ،پاکستان نے طیب اردگان کے ہر کہے پر من و عن عمل کیا ہے مگرجواب میں ترکی نے پاکستان کے تجارتی سامان کے لیے اضافی سہولتیں دینے سے اجتناب کی پالیسی تبدیل نہیں کی۔
زیادہ ماضی میں جانے کی بجائے صر ف گزشتہ دہائی کے شماریات پر ہی نظر ڈال لیں آپ کو تجارتی توازن مکمل طور پر ترکی کے حق میں نظر آئے گا 2009میں پاکستانی برآمدات 407ملین ڈالر رہیںجو 2011میں بڑھ کر 756ملین ڈالر ہوگئیںلیکن اگلے برس13۔2012میں برآمدات کم ہو کرمحض 400ملین ڈالر رہ گئیں پھر بھی خوش آئند بات یہ رہی کہ ترکی سے درآمدات لگ بھگ ایک سو پچاس ملین ڈالر سے زائد نہ ہونے کی بناپرکسی حدتک تجارتی توازن پاکستان کے حق میں رہا پھر چین کی طرح ہماراترکی سے عشق بڑھنے لگا جس کے بعد ہر سال پاکستانی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا صرف چھ برس کی مدت 2018تک برآمدی سامان نصف سے بھی کم ہو گیالیکن ترکی سے درآمدات میں دو گنا ہوگئیں 2020کے شماریات سے یہ حیران کن فرق اور نمایا ں نظرآتا ہے اِس برس پاکستان نے ترکی کو صرف394ملین ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ ترکی نے 630ملین ڈالر کا سامان پاکستان کو فروخت کیا جبکہ دفاعی اعداد و شمار الگ پریشان کُن ہیں یہ تجارتی عدمِ توازن قریبی تعلقات کی نفی کرتے ہیں شہبازشریف نے سرمایہ کاروں، تاجروں اورصنعت کاروں سے ملاقاتوں اور پاکستان ترکی بزنس کونسل سے خطاب کے دوران یہ دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ تین برس کے دوران دونوں ممالک کا تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھائیں گے دوطرفہ تجارت بڑھانے کے لیے دونوںملک ٹاسک فورس بنانے پر بھی اتفاق کر چکے ہیں لیکن اِس دعوے کے مطابق پاکستان کے لیے تجارتی حوالے سے امکانات تاریک ہیں یہ دورہ تبھی کامیاب اور ثمر آور کہلا سکتا ہے اگرانقرہ سامان بیچنے کے ساتھ پاکستان سے خرید بھی کرے دفاع اور سرمایہ کاری کے وعدوں پر لُٹنا مناسب نہیں جب تک فوری طورپر برآمدات کے فروغ کے لیے کچھ سنجیدہ اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک دعویٰ محض دعویٰ ہی رہے گا ۔
کوئی ملک دنیا سے کٹ کرترقی نہیں کر سکتا تکنیکی تعاون بڑھانے ا ور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھاکر کم وقت میں ترقی کی منازل طے کی جاسکتی ہیں لیکن چند برسوں سے پاکستان دوست ممالک کو نفع دینے والی منڈی بن کر رہ گیا ہے اور دوستی کی وجہ سے چین ہو یا ترکی،کے تجارتی سامان کا گودام بنتا جارہا ہے یہ دوستی پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ظاہر ہے اِس میں کسی اورکا نہیں ہماری اپنی کوتاہیوں کا عمل دخل ہے زرعی اور صنعتی پالیسی نہ ہونے کی بنا پر پیداوار میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر اِس حد تک دبائو کا شکار ہیں کہ قرضوں کی اقساط اور سود کی رقم اداکرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اگر شہریوں کی ضروریات کے مطابق فصلوں کی کاشت ہو اور معیاری وسستاصنعتی سامان تیار کیا جائے تو تجارتی خسارے پر قابو پانا اور زرِ مبادلہ پر دبائو کم کرنا زیادہ مشکل نہیں لیکن ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور حکمرانوں کی زیادہ توجہ ملکی نہیں انفرادی فائدے پر ہوتی ہے علاوہ ازیں بجلی و گیس جیسی توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیداواری لاگت میں ہوشرُبا اضافہ ہوگیاہے جب تک صنعتی ترقی اور برآمدات کے حوالے سے جامع پالیسی نہیں اپنائی جاتی تب تک متعین اہداف کا حصول ممکن نہیں اور نہ بے روزگاری میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔
حکومت کو قرض لیکر امورِ مملکت چلانے اور پاکستان کودوست ممالک کے سامان کی منڈی بنانے کی بجائے ملکی پیدواربڑھانے کے ساتھ خود کفالت پر توجہ دینی چاہیے اور ایسی اشیا درآمدکرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس سے ملکی ساختہ اشیاکی کھپت میں مشکل پیش آئے اسی طرح تجارتی خسارہ کم کرنا ہے تو بجلی وغیرہ کے نرخ بڑھانے کی بجائے کمی لانا ہوگی تاکہ پیدواری لاگت میں کمی آئے اور عالمی منڈی میں پاکستانی اشیاسستی اور معیاری ہونے کی بناپر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں علاوہ ازیں سامان درآمد کرنے کے ساتھ ٹیکنالوجی حاصل کرنے توجہ دی جائے ملک کو تجارتی حوالے سے پیدواری مرکز بنانے سے ہی تجارتی توازن اپنے حق میں کر سکتے ہیں دوستی اپنی جگہ مگر قومی مفاد کو سب سے مقدم رکھنا ہی حب الوطنی ہے کسی ملک سے دوستی پر قومی مفاد قربان کر نا دانشمندی نہیں ترکی اگر مسلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کرتا ہے تو پاکستان نے بھی مسلہ قبرص پرہمیشہ ترکی کاساتھ دیا ہے اس حمایت کی پاداش میں ہی یونان بطورممبر یورپی یونین ہرجگہ ہماری مخالفت کرتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ترکی سے دوستی ہے تو تجارتی فائدہ بھی لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوستی مضبوط بناتے بناتے مستقبل میں ہمارا ملک غیر ملکی سامان کا گودام بن کر رہ جائے موجودہ پالیسی سے تو ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ حکمرانوں کو ملکی مفاد سے زیادہ دوست ممالک کا مفادعزیز تر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر