... loading ...
روس اور یوکرین جنگ کا پیغام یہ ہے کہ چیلنجز میں کسی دوسرے پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے زورِ بازو اور حکمت وتدبر پر انحصار ہی سود مند ہے جو اپنے زورِ بازوپر بھروسہ کرنے کی بجائے اِس آس و امید میں رہتے ہیں کہ دوست آکر مصیبت سے نجات دلائیں گے وہ اکثر خسارے میں رہتے ہیں یوکرین بحران میں امریکہ ہو یا مغرب ،دونوں نے ہمیشہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ نہ صرف اُن کی عسکری طاقت کا کسی کے پاس توڑ نہیں بلکہ معاشی اور تجارتی حوالے سے بھی دنیا پر گرفت ہے اوراپنی طاقت اور گرفت سے صورتحال یکسر تبدیل کرنے پر قادر ہیں لیکن حالیہ کئی واقعات اِس تاثر کی نفی کرتے ہیں جس کی وجہ سے دعوے یا اِرادے درست نہیں محض اداکاری معلوم ہوتے ہیں حقائق یہ ہیں کہ طاقت اور گرفت میں گراوٹ آچکی ہے اسی لیے طاقت کے اظہار کی بجائے چھوٹی موٹی پابندیاں ہی اُن کے پاس واحد ہتھیارہے لیکن معمولی پابندیوں سے کسی کو گرانا یا دھول چٹاناممکن نہیں جب کافی کچھ متبادل ہوشاید اسی لیے اب یوکرین جنگ ختم کرنے کی بجائے زیادہ دیر اُلجھاکر روسی طاقت کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگراِس طرزِ عمل سے سارا جانی و مالی نقصان اکیلے یوکرین کا ہو رہا ہے اب تو امن پسند حلقوں کی طرف سے بھی کہا جانے لگا ہے کہ روس کو گرانے یا نقصان سے دوچار کرنے کے لاحاصل مقصد پرنظرثانی کرتے ہوئے امریکہ و مغرب جنگ کوانسانی المیہ نہ بنائیں اورلڑائی کو طویل دینے سے گریز کریں کیونکہ اگریہ جنگ پھیلتی ہے تو پھر امریکہ ہو یا مغرب ،کسی کے لیے بھی قابو پانا دشوار ہو سکتا ہے ۔
کمزور مسلم ممالک پر چڑھائی کسی حد تک طاقت کا اظہارتو ہے جس کا افغانستان ،عراق اور لیبیا میں مظاہر ہ کیا گیا لیکن یہ پالیسی ہر جگہ قابلِ عمل نہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ اِس وقت امریکہ دنیا کی واحد سُپر طاقت کے منصب پرعملی طورپر فائز نہیں اُسے اب معاشی و دفاعی حوالے سے کئی چیلنجز درپیش ہیں نیٹو جیسی دفاعی تنظیم کا حصہ بننے کے باوجودیورپ کے محفوظ ہونے کا تاثر زائل ہو رہاہے بظاہر اِس وقت نیٹو دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم ضرور ہے لیکن یہ تنظیم فیصلے کرتے ہوئے مشاورت کرنے یا اعتماد میں لینے سے اجتناب کرتی ہے اگر کسی طرف سے تجویز آئے تو پائے حقارت سے ٹھکرادیتی ہے جو اُسے ناقابلِ اعتباربنا رہی ہے ہنگری جیسے روسی تیل پر انحصار کرنے والے ممالک تیل کی درآمدپر پابندیوں کے مخالف ہیں لیکن یورپی یونین کے چند بڑے ممالک بائیکاٹ پر بضد ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین میں شامل ستائیس ممالک کی سوچ روس کے متعلق ایک نہیںسوویت یونین کی سابق ریاستوں پر مشتمل تنظیم کامن ویلتھ کی آزاد حثیت میں شامل یوکرین اور جارجیا نے جب نیٹو کے پارٹنر شپ فارپیس کے پروگرام میں شرکت کی تو روس نے سخت مخالفت کی اور اِس فیصلے کو اپنے مفادات کے منافی قرار دیا مگر امریکہ اور مغرب نے روسی تحفظات کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ یوکرین کوتھپکی دینے سمیت مزید ایسے کئی فیصلے کیے جس سے روس کی ناک مٹی میں رگڑنے کا تاثربنے یوکرین نے حماقت یہ کی کہ دوسرے ممالک پراعتبار کرتے ہوئے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے محرومی قبول کرلی بلکہ اُن کی شہ پر روس کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں جس پر روس نے مشتعل ہو کر حملہ کر دیاحالانکہ اپنے زورِ بازوپر بھروسے کا کوئی نعم البدل نہیں اب ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکہ اور مغربی ممالک جنگ ختم کرنے کی صدقِ دل سے کوشش کرتے اُلٹا انھوںنے یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بڑھا دی ہے جس سے فوری طور پر جنگ کے خاتمے کاامکان معدوم ہو رہا ہے اگر یوکرین روسی خطرے کا درست ادراک کرتا اور دوسروں پر تکیہ کرنے کی بجائے معامالات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرتا تو اِس وقت تباہی کا مرکز بننے کی بجائے پُرسکون خطہ ہوتا۔
روس اور یوکرین جنگ میں امریکہ اور مغرب ایسے پُرجوش تماشائی ہیں جنھیں امن سے کوئی سروکار نہیں وہ امن سے زیادہ لڑائی کو طول دینے میں مشغول ہیں لیکن لڑائی کو طول دینے کی بناپر یوکرینی عوام مر رہی ہے جن پر تکیہ کرتے ہوئے صدر زیلنسکی نے روس مخالف اور مغرب نواز اقدامات کیے اب اُن دوستوں کو پکار تے پھر رہے ہیں لیکن ہتھیار سپلائی کرنے کے سوا کوئی اُن کی پکار پر کان دھرنے کو تیار نہیں اِس میں بھارت کے لیے بھی سبق ہے وہ جو ہر وقت چین کاہم پلہ ہونے کا تاثر دیتا ہے اور مقابلے کادعویٰ کرتا ہے اگر کل کو دوبدو لڑائی کی نوبت آتی ہے تو امریکہ یا مغرب پر انحصار کرنے کی بجائے اُسے اپنے زورِ بازوپربھروسہ کرنا پڑے گا کیونکہ کسی اورپر تکیہ یا بھروسہ کرنا دانشمندی نہیں کوئی بھی دوست ملک اُس کے حصے کی لڑائی لڑنے نہیں آئے گا ویسے بھی امریکہ اور مغربی ممالک مل کربھی چین کے خلاف صف آرا نہیں ہوسکتے کیونکہ دونوں کی تجارت اور معیشت اِس کی متحمل نہیں ہو سکتیںچین نہ صرف امریکی معیشت کا اہم حصہ ہے بلکہ یورپی معیشت کا بھی اُس سے الگ نہیں پنپ سکتی چین دنیا میں اِس وقت مینو فیکچرنگ انجن ہے اُس کی پیداوار دنیا میں ہرجگہ موجود ہے اور منافع کے مارجن میں کوئی ملک اُس سے مقابلہ کرنے یا نظرانداز کرنے کی سکت نہیں رکھتا اِن حالات کا بھارت کی جنونی قیادت کو احساس کرنا چاہیے جب یوکرین جیسے ملک کی مدد کے لیے کسی ملک نے عملی طور پر حصہ نہیں لیا تو بھارت کے لیے کوئی اپنامالی و جانی نقصان کرانے میدانِ جنگ میں اُترنے کی بھی کوئی حماقت نہیں کرے گا ۔
یوکرین جنگ میں صرف بھارت ہی نہیں پاکستان کے لیے بھی پیغام ہے کہ اپنے زورِ بازو کو بہتر بنانے پر توجہ دے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کی بجائے خود اپنے بحران حل کرے کئی دہائیوں سے پاکستان کی پالیسی آزاد اور متوازن نہیں بلکہ طاقتور ممالک کا طرفدار بنناہے یہ پالیسی وقتی طورپر تو درست ہو سکتی ہے لیکن اِس کے نتائج دیرپا نہیں ہوتے پاک بھارت تعلقات کئی برسوں سے ناہموار ہیں بلکہ 5 اگست 2019کے بعدتاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں یہ تعلقات سفارتی حوالے سے بھی سخت تنائو کا شکار ہیں کمزور معیشت کے ایام میں بھارت کی آبی جارحیت جاری ہے لیکن سندھ طاس کے گارنٹر عالمی بینک نے بھی عملاََ عدم ِ تعاون کا رویہ اپنا رکھا ہے چین سے دوستی کی بنا پر پاکستان بھی بھارت کے مقابلے کی بات کرتا ہے اور اُسے شکست دینے کے دعوے کرتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ کمزور معیشت اور مسلسل صنعتی وزرعی کم ہوتی پیدوار سے غربت بڑھتی جارہی ہے رواں برس 9 مارچ کو مشرقی پنجاب میں انبالا کی ائرفورس بیس سے براہموس میزائل چلتاہے اور پاکستانی شہر میاں چنوں کے رہائشی علاقے میں آگرتا ہے جس سے چند ایک مکانات کوجزوی نقصان پہنچتا ہے مگر کوئی انسانی ہلاکت نہیں ہوتی پاکستان نے اِس پر احتجاج کیا زرائع کہتے ہیں جوابی میزائل داغنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس پربعدمیں چند وجوہات کی بنا پر عمل نہ کیا گیابھارت نے میزائل چلنے کودیکھ بھال کے دوران ہونے والی تکنیکی غلطی قرار دیا مگر ماہرین تکنیکی غلطی کا جوازماننے کو تیار نہیں بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیتے ہیں ایک میزائل داغ کر بھارت نے وہ سب کچھ جان لیا ہے جو پاکستان کے متعلق وہ جاننا چاہتا تھا جب ایک کم تر صلاحیت کا میزائل نہیں گرایا جا سکا تو مزید تباہ کن اور خطرناک میزائلوں کا توڑ ممکن نہیںہو سکتاوجہ کروز میزائلوں کی ہدف طے شدہ ہوتا ہے اسی لیے تکنیکی غلطی سے چلنے کی کہانی کو ماہرین تسلیم کرنے سے انکار ی ہیں دلیل کے طورپر پاکستانی ہم منصب کوبھارتی کمانڈر کی طرف سے اِس غلطی کی اطلاع دینے کی بجائے ائیر فورس حکام کا میزائل سسٹم ہی فوری طور پر بند کر ناپیش کرتے ہیں لہذا زورِ بازو پر بھروسہ کیے بغیر آزادی و خود مختاری کا تحفظ ممکن نہیں یوکرین جنگ کا یہی سبق ہے اگر کوئی پڑھ لے تومستقبل میںنقصان سے بچ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔