... loading ...
امریکی صدر جو بائیڈن نے حالیہ دورہ جاپان کے موقع پر چین کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ’’ امریکا تائیوان کے دفاع کے لیے طاقت کا راستہ اور اختیار استعمال کر سکتاہے‘‘۔جو بائیڈن کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ اپنے پہلے دورہ پر جاپان میں ہیں ۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جاپانی وزیراعظم کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران جب ایک رپورٹر نے امریکی صدر جوبائیڈن سے سوال کیا کہ کیا تائیوان پر حملہ ہونے کی صورت میں امریکا اس کا دفاع کرے گا؟ تو اس سوال کے جواب میںامریکی صدر نے کہا،’’ہاں۔ ہم ون چین پالیسی کے تاثر سے اتفاق کرتے ہیں، ہم نے اس پر دستخط کیے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چین بزور طاقت تائیوان پر قبضہ کرنا چاہے گا تو ہم اُس کا جواب نہیں دیں گے‘‘ ۔خیال رہے کہ چین جمہوری طرز حکمرانی رکھنے والے جزیرے تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتے ہوئے’’ ون چائنا‘‘ پالیسی کا اہم ترین حصہ سمجھتا ہے اور اُس کا برسوں پرانا موقف ہے کہ تائیوان کا معاملہ امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات کا سب سے حساس اور اہم تنازع ہے۔لہٰذا چین ماضی میںبھی کئی بار امریکی انتظامیہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ون چائنا‘‘ پالیسی کو چیلنج کرنے کی کوشش سے آبنائے تائیوان میں امن متاثر کرنے کے مترادف ہو گا۔
واضح رہے کہ امریکا نے 1979 میں چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی قیمت کے عوض تائیوان سے اپنے تمام سفارتی تعلقات توڑ دیے تھے، اور اس کے بعد سے امریکا چین کے اس دیرینہ موقف کا احترام کرتا چلا آیا ہے کہ تائیوان چین کا الگ ہو جانے والا صوبہ ہے۔تاہم امریکا کے صدر جوبائیڈن میں جوبیان دیا ہے ، اُس سے تاثر ملتاہے کہ شاید امریکا بہت جلد اپنی ون چائنا پالیسی پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتاہے۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ جو بائیڈن کا بیان عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ’’ تائیوان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور امریکی صدر کا بیان ایک غیر ارادی غلطی بھی ہوسکتاہے‘‘۔لیکن بعض سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جوبائیڈن کے بیان کے بعد وائٹ ہاؤس کی طرف سے دی جانے والی وضاحت غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے گزشتہ برس اکتوبر میں بھی تائیوان کے دفاع کے حوالے سے ایسے ہی بیان دیا تھا۔ نیز اس کے علاوہ بھی جوبائیڈن بے شمار مواقع پر چین کے خلاف جارحانہ بیانات دے چکے ہیں جیسے یوکرین جنگ پر اپنا تنقیدی تبصرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’’بہت جلد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین پر حملے کی قیمت ادا کریں گے تاکہ چین کو یہ دکھایا جا سکے کہ اگر وہ تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو اسے کس طرح کے نتائج و حالات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
چین کے لیے تائیوان کا معاملہ آخر سرخ لکیر کی حیثیت کیوں رکھتا ہے؟، اس مخمصہ کو جاننے کے لیے ’’ون چائنا‘‘ پالیسی کا تاریخ پس منظر سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ دراصل تائیوان کا سرکاری نام ’’ریپبلک آف چائنا‘‘ یعنی جمہوریہ چین ہے۔ 1949 سے تائیوان چین سے الگ آزاد حیثیت میں ہے لیکن چین اسے اپنا علیحدہ ہونے والا حصہ قرار دیتا ہے اور دوبارہ اپنی ریاست کے ماتحت لانا اس کی قومی پالیسی کے اہداف میں شامل ہے۔انسائیکلو آف برٹینیکا کے مطابق 1894 میں چین سے ہونے والی جنگ میں جاپان نے تائیوان پر قبضہ کر لیا اور شمونوسکی معاہدے کے تحت تائیوان اور پینگ ہو جزیرے کو ہمیشہ کے لیے جاپان کا حصہ قرار دے دیا۔اس وقت دنیا کی عالمی قوتوں نے اس معاہدے کو تسلیم کر لیا لیکن چین کا مؤقف تھا کہ یہ معاہدہ اس پر تھوپا گیا۔ اس معاہدے کے بعد تائیوان میں مقامی رہنماؤں نے ایک جمہوریہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔دوسری عالمی جنگ میں جاپان نے تائیوان سے فلپائن پر حملے کیے۔ اس جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی تو تائیوان چین کے زیرِ انتظام دے دیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد چین میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ تحریک کی چین میں چیانگ کائی شیک کے نیشنل چائنا پارٹی کے ساتھ خانہ جنگ میں تیزی آ چکی تھی۔ 1949 میں کائی شیک اور ان کی قیادت میں لڑنے والوں کو ماؤ زے تنگ سے شکست ہو گئی۔ کائی شیک فرار ہو کر تائیوان آ گئے اور یہاں اپنی حکومت قائم کر لی اور تائیوان’ ’ریپبلک آف چائنا‘‘ قرار دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کائی شیک سمجھتے تھے کہ چین کی ساری سر زمین، منگولیا اور جنوبی بحیرہ چین کا پورا علاقہ اس ری پبلک کا حصہ ہے۔ اس لیے تائیوان میں حکومت کے قیام کے بعد کائی شیگ کی افواج نے چین پر حملوں اور کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔اس وجہ سے ماؤزے تنگ نے آبنائے تائیوان پر منڈلانے والے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے تائیوان کے خلاف جنگ کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ماؤزے تنگ تائیوان کو چین میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہونے ہی والے تھے کہ جون 1950 میں کمیونسٹ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔یوں تائیوان کو چین کا اٹوٹ حصہ بنانے کا ماؤزے تنگ کا خواب پورا نہ ہوسکا ہے ۔
اپنے عظیم رہنما ،ماؤزے تنگ کے ادھورے خواب کو پورا کرنے کے لیے چین کی حالیہ قیادت پوری طرح سے یکسو ہے اور تائیوان کو چین میں شامل کرنے کے لیے چین کی پیپلز لبریشن آرمی ایک طویل عرصہ سے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔لیکن اس منصوبے کی تفصیلات کیا ہیں ،کوئی نہیں جانتا،بلکہ چند برس قبل تک اکثر ماہرین عسکریات ، تائیوان پر چین کی کسی بھی فوری فوجی کاروائی کے امکانات خارج ازامکان قرار دیتے تھے ۔کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ چین اگر کبھی تائیوان پر عسکری کارروائی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نہ صرف اس اقدام کی معاشی بلکہ بڑی سفارتی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ بلکہ چین کے حملے کی صورت میں تائیوان کو عالمی سطح پر زبردست ہمدردی حاصل ہو جائے گی اور تمام مغربی ممالک چین کے خلاف ہوجائیں گے۔ لیکن یوکرین جنگ میں جس طرح مغرب نے روس پر صرف معاشی پابندیوں عائد کرنے پر اکتفا ہے اور یہ معاشی پابندیاں بھی چونکہ روس پر کچھ خاص اثر نہیں ڈال سکیں ۔ لہٰذا چین کے حوصلے بلند اور یقینا تائیوان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ رواں برس مارچ میں انڈو پیسیفک میں امریکا کے عسکری کمانڈرز نے خبردار کیا تھا کہ’’ چین آئندہ دہائی میں کسی بھی وقت تائیوان پر بڑا جنگی حملہ کر سکتا ہے‘‘۔امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے حالیہ دورہ جاپان میں اپنے دھمکی آمیز بیان سے چین کو تائیوان پر کسی بھی عسکری کارروائی سے باز رکھنے کی کوشش ہے ۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ چین جوبائیڈن کی دھمکی سے متاثر ہوکر ’’ون چائنا‘‘پالیسی سے دست بردار ہوتا ہے یا پھر تائیوان کا چین کا حصہ بنانے کے لیے عن قریب بڑی عسکری کارروائی کا جوکھم اُٹھاتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔