... loading ...
امریکہ چین کے خلاف تائیوان کو تھپکی دے رہا ہے۔ وہی کھیل کھیل رہا ہے جو اُس نے رُوس کے خلاف اس کے ہمسایہ ملک یوکرین میں کھیلا۔ یوکرین نے نیٹو فوجی اتحادمیں شمولیت پر اصرارکیا جس سے رُوس کی سلامتی کوخطرہ لاحق ہوگیا۔ماسکو نے مشتعل ہو کر یوکرین پر حملہ کردیا۔ اس کو جواز بنا کر امریکہ اور یورپ نے رُوس پر سخت ترین معاشی اور سفارتی پابندیاں لگا دیں۔ یوکرین کی بھرپور فوجی امداد شروع کردی۔ماسکو جنگ میں اُلجھ گیا ۔دنیا میں ایک نیا نظریہ وجود میں آگیا کہ اگر جدید ترین ہتھیار میسر ہوں اور کوئی قوم جذبہ سے مقابلہ کرے تو ایک چھوٹا سا ملک بہت بڑے ملک سے جنگ میں کامیابی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح امریکی سامراج چین کو مشتعل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ اپنے باغی صوبہ جزیرۂ تائیوان پر حملہ کرے اور ایک طویل جنگ میں پھنس کر نڈھال ہوجائے۔امریکہ نے تائیوان کو ایک نقطہ ٔاشتعال‘ فلیش پوائنٹ میں تبدیل کردیا ہے۔
تائیوان چین کا باغی صوبہ ہے جو خود کو الگ ملک قرار دیتا ہے لیکن اقوام متحدہ کا رکن نہیں ہے۔چین کا موقف ہے کہ ایک دن تائیوان کو چین میں شامل ہونا پڑے گا۔ خود امریکہ نے اسے الگ ملک تسلیم نہیں کیا لیکن کمال منافقت سے اس کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔تائیوان چین کے مشرق اور جنوب میں واقع ایک جزیرہ ہے جو دو کروڑ پینتیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ چین کے صوبہ فوجیان کے ساحل سے تائیوان کا ساحل ڈیڑھ سو کلومیٹر کی دُوری پر ہے۔تائیوان اور چین کے درمیان سمندر کو آبنائے تائیوان کہتے ہیں۔ یہ ایک اہم تجارتی گزرگارہ ہے۔امریکہ کے لیے اسکی زبردست فوجی اہمیت ہے۔ امریکی ماہرین اسے کبھی نہ ڈوبنے والا بحری بیڑہ اور آبدوز قرار دیتے ہیں۔ یہ معاشی طور پر بہت ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔اسکی ایک کمپنی ’تائیوان سیمی کنڈکٹر مینیوفیکچرنگ‘ کمپیوٹر چپ بناتی ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والی چالیس فیصدسے زیادہ کمپیوٹر چپس تائیوان تیار کرتا ہے۔
کچھ عرصہ سے امریکہ نے جان بوجھ کر چین کو تائیوان کے معاملہ پر اشتعال دلانے کی حکمت ِعملی اختیار کی ہوئی ہے۔ سنہ دو ہزار پانچ تک امریکہ بحری جہاز کبھی کبھار آبنائے تائیوان سے گزرتے تھے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ راستہ سب ملکوں کے لیے کھلا ہے۔ لیکن گزشتہ سترہ برسوں سے امریکی جنگی بحری جہاز بار بار آبنائے تائیوان سے گزرنا شروع ہوگئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے تاکہ چین کو پیغام دیا جائے کہ وہ بزور طاقت تائیوان کو اپنے اندر ضم نہیں کرسکتا۔ امریکہ اس علاقہ کا تھانیدار ہے۔ امریکی میڈیا پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ چین اگلے چند برسوں میں فوجی حملہ کرکے تائیوان کو زبردستی اپنے ملک میں شامل کرلے گا۔امریکی فوجی ادارہ پینٹاگون کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں امریکہ کے تیس جنگی بحری جہاز آبنائے تائیوان سے گزرے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے اتحادی ملکوں برطانیہ۔ فرانس۔ آسٹریلیا۔ کینیڈا نے یہاں سے اپنے جنگی بحری جہاز گزارنے شروع کردیے ۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتہ ٹوکیو‘ جاپان کا دورہ کیا تو جزیرۂ تائیوان کے بارے میں چین کو سخت تنبیہ کی۔ صدر بائیڈن نے کہاکہ امریکہ کا عہد ہے کہ وہ تائیوان کے دفاع کے لیے فوجی طور پراس ملک کی مددکرے گا یعنی چین اورتائیوان میں جنگ ہوئی تو امریکی فوجیںاس کے ساتھ مل کر لڑیں گی۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے تیسری بار کھل کر یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے واضح کیاکہ امریکہ تائیوان کی یوکرین سے زیادہ مدد کرے گا۔واشنگٹن سے بیجنگ کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر چین نے تائیوان میں فوجی مداخلت کی تو اس پر اسی طرح معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گی جیسے رُوس پر لگائی گئی ہیں۔اور اُسے باقی دنیا سے تنہا کردیا جائے گا۔ تائیوان کو اپنے ملک میں ضم کرنے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
واشنگٹن نے تائیوان کی فوجی صلاحیتوں کو بہت تیزی سے بڑھانے کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ امریکہ تائیوان میں اپنی افواج کی تعداد کو بھی بڑھا رہا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو امریکہ نے یوکرین میں کیا ۔وہ برسوں سے روس کے اس ہمسایہ ملک کو جدید ترین ہتھیاروں سے اس طرح لیس کرتا جارہا تھا کہ روس اگر فوجی مداخلت کرے تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔مقصد چین کو دھمکانا ہے کہ یہ بحری راستہ امریکہ سامراج کے کنٹرول میں ہے۔ اور بیجنگ کے حکمران تائیوان میں فوجی مداخلت کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں ورنہ چین کیلیے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ امریکہ کی یہ حکمت عملی ہوگئی ہے کہ براہ راست اپنے دشمنوں سے جنگ نہ کرو بلکہ اپنی طفیلی ریاستوں کے ذریعے لڑائی کرو۔ امریکی اپنے لوگ مروانا نہیں چاہتے۔ ملک میں شور مچ جاتا ہے جیسے ویت نام اور افغانستان کی جنگ میں ہوا۔ بے عزتی الگ برداشت کرنا پڑتی ہے۔ لہذا تائیوان کے بارے میں امریکی پالیسی یہ ہے کہ اپنے فوجی وہاں نہ بھیجے جائیں بلکہ جنگ کی صورت میںتائیوان کو بھرپور جنگی انٹیلی جنس مہیا کی جائے۔ انکل سام تائیوان کو ایسے چھوٹے سائز کے موبائل جنگی ہتھیارفراہم کرنے جارہا ہے جو ایک چھوٹا ملک بڑے ملک کے خلاف جنگ میں استعمال کرسکتا ہے اور زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔تائیوان کو امریکہ جدید اسلحہ دیتا رہتا ہے۔ اس کے پاس پہلے ہی امریکہ کے دیے ہوئے ایسے میزائیل ہیں جو چین کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ حال میں واشنگٹن نے اسے راکٹ چلانے کے موبائل پلیٹ فارمز مہیا کیے ہیں۔ ایف سولہ جنگی طیارے بیچے ہیں۔ اور بحری جہازوں کو ہدف بنانے والے کروز میزائیل۔ اب تائیوان سمندر میں بچھانے کے لیے بارودی سرنگیں اورمسلح ڈرونز خریدرہا ہے۔واشنگٹن تائیوان کو سائبر سیکیورٹی کے نظام اور اسپیشل فورسز کی تربیت بھی دینے جارہاہے تاکہ چینی حملہ کی صور ت میں وہ اس کے ائیر ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بناسکے۔سنہ دو ہزار بیس میں امریکہ نے تائیوان کو پانچ ارب ڈالر کا اسلحہ بیچنے کی منظوری دی۔ تائیوان فوج کی تربیت اور اسکو مشقیںکروانے کی غرض سے اسرائیل۔ فن لینڈ۔ سویڈن۔ اور سنگا پور سے تعاون بڑھا رہا ہے۔
چینی قیادت تائیوان کے معاملہ پر اپنے اصولی موقف کو دُہراتی رہتی ہے کہ یہ جزیرہ چین کا لازمی حصہ ہے۔ صدر ژی جنگ پنگ بار بار کہتے ہیں کہ اگر تائیوان نے باقاعدہ خودمختار ملک ہونے کا اعلان کیا تو اس صورت میں چین اس کے خلاف جنگ کرے گا۔ بیجنگ امریکہ کی اشتعال انگیزی کے جواب میں تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔البتہ چین کے سمندری بحری بیڑے آبنائے تائیوان میں جنگی مشقیں کرتے رہتے ہیں۔اس کے جنگی جہاز تائیوان کے قریب پروازیں کرتے ہیں تاکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں لیکن چین مشتعل ہو کر جنگ چھیڑ دے اس بات کا امکان نہیں۔ حادثاتی طور پر جنگ شروع ہوجائے تو الگ بات ہے۔ امریکہ اور یورپ کا مفاد ہے کہ چین جنگ میں پھنسے اور اسکی معاشی ترقی کو بریکیں لگ جائیں۔دنیا میں جنگیں ہوتی رہیں۔ یا جنگی ماحول بنا رہے۔ امریکی‘ یورپی کمپنیوں کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ سامراجی ملکوں کا پرانا کاروبار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔