وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان پر نااہلوں کا تسلط

منگل 24 مئی 2022 بلوچستان پر نااہلوں کا تسلط

 

موجودہ دستوری اور قانونی الجھنیں اور سیاسی بحران در حقیقت ملک کی ترقی اور جمہوریت کے دوام و استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ عوام اس پوری صورتحال میں مضطرب ہیں۔ آغاز پہلے کی مانند اس بار بھی بلوچستان سے ہوا ہے،کہ جب نواب جام کمال خان عالیانی کے خلاف خفی و جلی مکروہ بازی کے تحت عدم اعتماد کا پتہ استعمال کیا۔ بالآخر جام کمال خان کو25اکتوبر2021ء میں مستعفی ہونا پڑا۔ ایک پڑھے لکھے ، ذہین اور با صلاحیت وزیراعلیٰ کی جگہ عبدالقدوس بزنجو جیسے سطحی اور اس بڑے منصب کے لیے قطعی نا اہل شخص نے لے لی۔ بد قسمتی ہے کہ جنوری2018ء میں صوبے میں نواز لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی حکومت گرا کر چھ ماہ کے لیے عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے۔اس مختصر عرصہ میں رقم ہونے والی طرح طرح کی داستانوں سے سبق کی بجائے انہیں دوبارہ اس قدر بڑے اور معزز آئینی عہدے پر بٹھایا گیا۔
پچھلے چھ ماہ کی حکومت کی تقلید میںاس عرصہ میں بھی انہونیاں ہوئی ہیں، نئی کہانیاں رقم ہوئی ہیں۔ غرض کہ بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی دائو پیچ کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم اس بار اسے منفی چشمک کی بجائے احسن قدم کہنا چاہیے کہ یہ صوبہ گو نا گوں مشکلات و مسائل میں الجھا ہوا تو ہے ہی، مستزاد یہ کہ زمام حکومت بھی قطعی نا موزوں افراد کے ہاتھوں میں ہے۔جس سے عوام کے جذبات و استحقاق مزید مجروح ہوئے ہیں۔ اب 18مئی2022ء کو جام کمال خان عالیانی ،سردار یار محمد رند اور اصغر اچکزئی کی معیت میں عبدالقدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی سیکریٹری کے پاس جمع کرائی گئی جس پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سات ارکان جام کمال خان، میر ظہور بلیدی ، نوابزادہ طارق مگسی، میر عارف جان محمد حسنی، میر سلیم کھوسہ ، مٹھا خان کاکڑ، سردار سرفراز ڈومکی، پاکستان تحریک انصاف کے چار اراکین سردار یار محمد رند، مبین خان ، میر نعمت اللہ زہری، بی بی فریدہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے تین ارکان اصغر خان اچکزئی، ملک نعیم بازئی، شاہینہ کاکڑ کے دستخط موجود ہیں۔ گویا14ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کیے ہیں۔جام کمال خان چونکہ بی اے پی کے صدر ہیں، اس حیثیت سے اس نے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کر تے ہوئے پارٹی ارکان اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں،خلاف ورزی کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عبدالقدوس بزنجو اینڈ کمپنی میں کھلبلی تو پہلے ہی مچی رہی ،تحریک کے جمع ہونے کے بعد اب ان کی دوڑیں لگ گئیں۔ پیش ازیں و بعد جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالواسع، مولانا عبدالغفور حیدری و اراکین بلوچستان اسمبلی اور دوسرے ذرائع جو موثر سمجھے جاتے ہیں کے
در پر حاضری دینا شروع کردی۔چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی شانہ بشانہ ہیں ، کیوں کہ سنجرانی کو اپنے منصب کے چھن جانے کا خوف لاحق ہے۔ جام کمال خان اور ان کے ساتھی پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وفاق میں تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ دینے کے بدلے بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ جس کے تحت بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان قومی اسمبلی میر خالد مگسی، سردار اسرار ترین،احسان اللہ ریکی اور روبینہ عرفان نے صوبے میں تبدیلی کی شرط پر پی ڈی ایم کا ساتھ نبھایا۔ کچھ ایسا لگتا بھی ہے، وگرنہ یہ لوگ کسی صورت عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے میں پہل نہ کرتے۔ اور اس ذیل میں سردست جمعیت علماء اسلام بارے یہ لوگ پرامید ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل البتہ لا علمی کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں تبدیلی سے متعلق کئے گئے کسی بھی عہدکا انہیں علم نہیں ،اور تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔
بہر حال قومی اسمبلی کے اندر نازک صورتحال میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ان چار ارکان قومی اسمبلی کی ضرورت بد ستور اہمیت کی حامل ہے۔ ویسے وفاق کی ضرورت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو صوبے کی خراب حکمرانی اور بنی درگت پر کوئی ملال و پریشانی نہیں ہے۔ یہ جماعتیں اس قحط الرجال میں راحت سے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی تو جیسے صوبے کی حکمرانی میں پوری طرح حصہ دار ہو۔ حمل کلمتی جیسے کارندے اور اپنے ایک دو مزید ارکان کے توسط سے منہ مانگے فوائد حاصل کیے ہوئے ہے ۔ عبدالقدوس بزنجو عدم اعتماد کی تحریک کے جمع ہونے کے بعد حمایت بٹورنے پارٹیوں اور اراکین اسمبلی کو مزید بڑی بڑی پیشکش کر چکے ہیں۔سرکاری فنڈز کا غلط استعمال ویسے ہو رہا ہے۔اہل اور سینئر افسران پس منظر میں دھکیلے گئے ہیں۔ٹھیکیدار، کمیشن خور اور ملازمتیں فروخت کرنیوالے چھائے ہوئے ہیں ۔درگئی شبوزئی تا تونسہ شریف قومی شاہراہ (این ستر) منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ، رفیق احمد بلوچ کا تبادلہ اس بنا کیا گیا ہے کہ اس نے سست اور غیر معیاری کام اور با اثر ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ حالاں کہ اس آفیسر کی اچھی شہرت ہے ،جو پیش ازیں تربت میں ترقیاتی منصوبوں کی عمدہ تکمیل کرکے نام کما چکے ہیں۔نیز مالی سال 2021-22کے ایک کھرب 72ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں اب تک صرف84ارب روپے جاری ہوسکے ہیں ، اس میں سے بھی صرف38ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ وجہ فنڈ کے اجراء میں تساہل ،غفلت اور دوسری وجہ حزب اختلاف کو قریب لانا ہے۔بجٹ کے لئے فنڈز کی کمی اور87ارب روپے کے خسارے کے باوجود عبدالقدوس بزنجو نے28ارب روپے کی لاگت کی 861اضافی ترقیاتی اسکیمات کی منظور ی دیدی۔ جن کے لئے رواں مالی سال 12ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ جبکہ فنڈز کی کمی کے باوجود اسکیمات کو بجٹ میں شامل کیا گیا ۔گویا بد انتظامی کا دور دوراں ہے ۔ عیاں ہے کہ محض چند کے سوا کسی کو صوبے کی بہبود و نفع سے غرض نہیں ہے۔ اغراض، ذاتی اور گروہی مفادات مقدم سمجھے جاتے ہیں۔وگرنہ آج صوبہ بے پناہ مسائل ، غربت و پسماندگی کی علامت نہ ہوتا۔ شدت پسندانہ رویے پروان نہ چڑھتے، نہ نوبت خواتین کی موت کے راستے کے انتخاب کی آتی۔ اس سب کے لیے اگر کوئی دوسرا تیسرا ذمے دار ہے، تو قصور وار صوبے کے عوامی نمائندے اور اہل سیاست بھی برابر ہیں۔ جہاں پوری حکومت دو تین جونیئر افسران چلا تے ہوں تو صوبہ اتھاہ پستی کا شکار کیسے نہ ہوگا۔ ایسے ماحول میں دوہرا قوم دوستی کا لبادہ اوڑھے دوہرے سیاسی معیار کے وزراء و اراکین اسمبلی البتہ فائدے میں رہتے ہیں۔ چناں چہ صوبے میں حکومت کی تبدیلی نا گزیر ہے۔ ضروری ہے کہ گہری سوچ بچار اور باہمی مشاورت سے ایسے شخص کو وزارت اعلیٰ کا یہ اہم اوربھاری منصب دیا جائے ،جو منصب سے انصاف کرتے ہوئے صوبے اور عوام کے حق کا تحفظ یقینی بنائے۔ صوبے کے اندر سیاسی ماحول خوشگوار بنانے کی خاطر ذات، خاندان اور گروہی مفاد سے ہٹ کر کام کرے۔ وہ تمام لوگ و حلقے اپنے گریبانوں میں ضرور جھانک کر دیکھیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے اس صوبے پر نا شائستہ لوگوں کو مسلط کرکے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یقینی طور یہ سب ان مسلسل ناکامیوں اور بربادیوں کے لئے جوابدہ ہیں۔ قدوس بزنجو نے ردعمل میںتحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والوں کو کابینہ اور عہدوں سے سے ہٹانے کا نو ٹیفکیشن جاری کیا ،حالانکہ کابینہ سے علیحدگی اور عہدے چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پہلے ہی اپنے استعفے بھیج چکے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر