... loading ...
عمران خان کے حق میں خلقت امڈ کیوں آئی ہے، ایک سوال ہے جس نے طاقت کے ستونوں سے اقتدار کے ایوانوں تک سب کو پریشان کررکھا ہے!
تاریخ عالم کا عظیم جنگجو امیر تیمور یاد آتا ہے، جسے بعض مورخین حقارت سے تمر لین( تیمور لنگ) پکارتے ہیں۔دنیا کے تین بڑے سپہ سالاروں میں سے وہ ایک تھا، سکندر اعظم اور چنگیز خان کے بعد جسے فاتحین کی فہرست میں شمار کیا گیا۔ بیالیس ملکوں کو فتح کرنے والے تیمور لنگ کے پاؤں میں لنگراہٹ تھی، مگر چنگیز خان کے برعکس وہ اپنی تمام جنگوں میں خود شریک رہا، فتوحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ اُسی نے عثمانیہ سلطنت کے چوتھے فرمانروا کو شکست دی ۔ مراد اول کے بیٹے بایزید کی داستان بھی ہکا بکا کردینے والی ہے۔ یلدرم سے ملقب تھے، جسے ترکی میں بجلی کہتے ہیں۔امیر تیمور کا وہ عظیم معرکہ 20 جولائی 1402ء میں بایزید یلدرم کے ساتھ ہی برپا ہوا، جسے جنگ انقرہ سے تاریخ میں محفوظ رکھا گیا۔ تیمور نے تیموری سلطنت کی بنیاد رکھی ، مگر بایزید عظیم عثمانیہ سلطنت کے چوتھے سلطان تھے۔ عثمانی ترکوں کی وہ عظیم او ر بہادر فوج ”ینگ چری”جسے تاریخ میں ہمیشہ ایک لہکتے استعارے کے طور پر یاد رکھا جانا تھا، ایک پہاڑی پر پھنس گئی، جن کے ساتھ سلطان بایزید خود بھی تیمور لنگ کی فوج کے ساتھ معرکہ آرا تھے۔ سلطان کے دلاور شام تک لڑتے مرتے رہے، مگر نہ تلوار چھوڑی اور نہ جگہ۔سلطان بایزید شام کے وقت اُس معرکے سے دامن بچاتے ہوئے نکل رہے تھے، جہاں سلطان کے دلاوروں نے آخری دم تک مزاحمت جاری رکھی، دشمن کی فوج نے اُنہیں پیچھا کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ سلطان کی مشکیں کسیں اور تیمور کے خیمے میں لے گئے۔ جہاں تیمور لنگ شطرنج کھیل رہا تھا۔ ابھی وہ جشن فتح برپا ہونا تھا، جو سلطان بایزید کی شکست کی خوشی میں منایا جانا تھا۔ جہاں سلطان کی یکتائے وقت کنیزوں کو تِھرکنا تھا، جس میں یورپ کی عورتیں یورپ کی شرابوں کے ساتھ انڈیلیں جانی تھیں۔ تیمور لنگ اُس جشنِ فتح میں شکست خوردہ سلطان بایزید کو لباسِ قیصری میں ہی اپنے پہلو میں بٹھانے والے تھے۔ مہوشان ارمن کی سیاہ زلفیں اور حسینانِ چرکس کے بالِ زر تارکے گچھے رقص کی حرکت میں کھلنے تھے۔ یونان کی آہو چشم پریاں بھی وہیں تھیں۔ جنہیں سلطان کے حرم سے باہر کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ مگر یہ اس جشنِ فتح سے ذرا پہلے کا واقعہ ہے۔ تیمور لنگ ، سلطان بایزید کے سامنے کھڑا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا چوتھا فرمانروا، جس کی ایک آنکھ سے بینائی جاتی رہی تھی۔ تیمور لنگ بے ساختہ ہنس رہا تھا۔ شکست خوردہ سلطان بایزید کے چہرے سے ابھی تمکنت رخصت نہ ہوئی تھی، چلا اُٹھا: خدا کے مارے ہوئے پر ہنسنا اچھا نہیں”۔ تب ، تب ہی تیمور لنگ کی زبان سے وہ فقرہ ادا ہوا، جسے حکمرانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے:میں اس پر ہنس رہا تھاکہ اُس کارساز ِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، جس نے اس دنیا کی حکومت کس کو دی؟ایک مجھ جیسے لنگڑے کو اور دوسرے تم جیسے اندھے کو”۔ عمران خان کے حق میں خلقت کیوں اُمڈ آئی، یہ سوال سب کو پریشان کیے رکھتا ہے۔ مگر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ اُس کارسازِ بے ہمتا کی کارسازی ہی کچھ اسی نوع کی ہے۔
عمران خان ردِ عمل کی نفسیات سے اُبھرا ہے۔ طاقت کے مراکز جسے نظرانداز کرتے ہیں۔ کہنہ سیاست کے گھناؤنے پن میں جس پہلو کو کبھی قابلِ غور ہی نہیں سمجھا گیا۔ عوام اُوبھ چکے۔ محلاتی سازشوں کی ایک تاریخ ہے، جس نے عوامی نفسیات کے اندر ایک بھونچال پیدا کیے رکھا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ عمران خان اُسی کے شکار ہوئے۔ طاقت کے مراکز ابھی تک خبر دار نہیں ہوئے کہ امریکا کے خلاف عوام میں جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ طاقت کے یہ مراکز جن کے اصل حلیف ہیں۔ حلیف بھی کہاں؟ نوکر! امریکا سے سامنے آنے والی دستاویزات میں سابق صدرجنرل ایوب خان کے وہ الفاظ ملتے ہیں، جس میں وہ خطے میں کرائے کا ایک دائمی کردار ادا کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔ امریکا کے مطالبات پاکستان میں عوامی جذبات کی مخالف لہر پر پورے کیے جاتے رہے۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے تک بہت سے سربستہ راز امریکا کے خلاف عوامی حقارت پیدا کرتے ہیں۔ یہ حقارت کبھی موضوع نہیں بنائی گئی۔ بدعنوان اشرافیہ ، امریکا سے نفرت اور محلاتی سازشوں کی مثلث عوامی نفسیات میں ایک نقطۂ ارتکاز پیدا کرچکی ہے، جس پر آج تک کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ افسوس استعمار دشمنی میں زندگیاں کھپانے والے دانشور” مراسلے” پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ مگر نظرانداز کرتے ہیں کہ امریکا کی مداخلت اور سازشوں کی کہانی اتنی عریاں ہے کہ عوامی نفسیات میں ایسے کسی دعوے کے لیے ثبوت کی بھی ضرورت نہیں۔ عوامی نفسیات کی اس تہہ داری میں جھانکنے کی ضرورت ہے جو طاقت کے مراکز کو محلاتی سازشوں کا ذمہ دار ،سیاست دانوں کو اس کھیل کا آلۂ کار اور بدعنوانی کو اس کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ اس مثلث سے پیدا ہونے والی نفسیات کو عمران خان نے ایک بیانیہ دیا ہے جو اُن کی جذباتی ، نفسیاتی اور سیاسی تسکین کرتا ہے۔ کوئی اندازا ہی نہیں لگا رہا کہ یہ نفسیات اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ اس کی تسلی کے لیے گالیاں بھی کفایت نہیں کررہیں۔ ایسا سیاست دان جو اس نفسیات کی مخالف سمت میں کھڑا ہے ، وہ عوامی سطح پر گالیوں کے طوفان میں رہتا ہے۔ ابھی عمران خان کی زبان کو ایک طرف رکھیں۔ عمران خان اُنہیں عوامی سطح پر یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ کوئی غلام نہیں۔ یہ بیانیہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نفسیاتی سطح پر اس غلامی کی ذلت کو مسلسل محسوس کررہے ہیں او راس ذلت کے باعث طاقت کے مراکز اور روایتی سیاست دان ہیں۔ یہ دونوں قوتیں ہی غور کرنے کو تیار نہیں کہ عمران خان کے حق میں خلقت امڈ کیوں آئی ہیں؟
طاقت کے مراکز نے تیرہ جماعتی اتحاد کو حکومتی ایوانوں میں پہنچا کر نفسیاتی سطح پر عوام کی یہ تسلی کرائی کہ یہ سب ایک ہیں۔ دوسری طرف اکیلا عمران خان کھڑا نظر آیا۔ جسے اب تک تیرہ جماعتی اتحاد ”سلیکٹڈ” کا طعنہ دیتا آیا تھا۔ اب سلیکٹرز ، اُن کے لیے نیوٹرلز ہوگئے، جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ عمران خان کے مخالف اور اُن کے حامی ہیں۔عوامی نفسیات میں حالیہ کاریگری کی یہی تشریح ہے۔ اب اس پر جوابی وضاحتیں کوئی اثر نہیں دکھا رہیں۔ اس کا واحد مطلب یہ ہے کہ عوام محلاتی سازشوں کے لیے ان سیاسی قوتوں کو طاقت کے مراکز کے فطری حلیف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس نفسیاتی اُتھل پتھل میں یہ زرداری کی ہی ”ذہانت” ہے کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کو عوامی سطح پر اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف طاقت کے مراکز ان قوتوں کے ساتھ منسلک بھی دکھائی دیتے ہیں۔ طاقت کے مراکز، بدعنوان اشرافیہ اور محلاتی سازشوں کے خوگر اس کھیل میں ایک صفحے پر جلوہ افروز ہو گئے ۔ چنانچہ یہ کھیل عوامی نفسیات میں عمران خان کے بیانئے کی بالواسطہ تصدیق بنتا جارہا ہے۔ جو بدترین ردِ عمل کی ایک ایسی تحریک پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ تیمور کوئی مختلف نہیں تھا، بایزید بھی نہیں۔ ایک لنگڑا تھا، اور دوسرا ایک آنکھ سے اندھا۔ عمران خان کا نقص اُن کی زبان میں ہے، جس سے مریم نواز کے لیے وہ الفاظ نکلے ، کہ اگر ان الفاظ کو میٹھے سمندر میں تھوک دیا جاتا تو وہ بھی زہریلا ہو جاتا۔ مگر حادثاتی طور پر یہ زبان ایک ایسے موقع پر دراز ہے جہاں عوامی نفسیات میں ”مخالفین” کے خلاف تسکین اسی سے ہو رہی ہے۔ امیر تیمور کا جملہ تاریخ میں جگمگاتا رہے گا: اُس کارساز ِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، جس نے اس دنیا کی حکومت کس کو دی؟ایک مجھ جیسے لنگڑے کو اور دوسرے تم جیسے اندھے کو ”۔ عمران خان کا نقص اُن کی زبان میں ہے، مگر پھر بھی اُس کارسازِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، اُس کے حق میں ایک خلقت اُمڈ آئی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔