... loading ...
نیو یارک ٹائمز میں اگلے روز رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ امریکہ ایسا قانون منظور کرنے جارہا ہے جس کے تحت وہ ان ممالک پر پابندیاں عائد کردے گا جو رُوس سے تیل ‘ گیس خریدتے ہیں۔ مقصد ہے کہ اُس کی تیل کی صنعت اورمعیشت کو مکمل طور پر مفلوج کردیا جائے۔ رُوس کی قومی آمدن کا چالیس فیصد حصہ تیل اور گیس کی برآمدات پر مشتمل ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہوگیا تو چین اور انڈیا خاص طور سے اس کی زَد میں آئیں گے کیونکہ وہ واشنگٹن کے دباؤ کے باوجود رُوس سے پیٹرولیم خرید رہے ہیں۔عالمی منڈی میں تیل کی قلّت ہونے کے باعث ان کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ امریکہ اور یورپ کی تیل کمپنیوں کے منافع میں مزید اضافہ ہوگا۔ دنیا میں تناؤ‘ کشیدگی‘ جنگ رہے تو امریکی کمپنیاںکھربوں ڈالر کماتی ہیں۔
امریکی سامراج چین اور رُوس کو اپنے دو بڑے حریف سمجھتا ہے۔ چین اور رُوس نے طویل مدتی ‘تزویراتی اتحاد بنایا ہوا ہے تاکہ امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کیا جائے اور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔انکل سام کی پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے دشمن ملک کو چاروں طرف سے محصور کرتا ہے۔ اس کے ہمسائے میں واقع ممالک کو اپنا اتحادی بنالیتا ہے ۔ وہاں اپنے فوجی اڈے قائم کرتا ہے۔ اپنے بحری بیڑے قریبی ساحلوں پر کھڑے کردیتا ہے۔ تاکہ دشمن کو ہلنے کا موقع نہ دے۔ رُوس کے جنوب میں بحیرۂ اسود (بلیک سی) ہے۔ اس کے پارواقع ترکی واشنگٹن کاخاص اتحادی ملک ہے۔انکل سام کی سربراہی میں قائم نیٹو کے فوجی اتحاد کا رُکن ہے۔ رُوس کے جنوب مغرب میں یوکرین امریکہ کا بغل بچّہ ہے۔یوکرین سے متصل پولینڈ اس کا اہم فوجی اڈّہ ہے۔اسی طرح یورپ کے دیگر ممالک امریکہ کے سیاسی اور عسکری اتحادی ہیں اور مغربی سامراج تشکیل دیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لوگ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ایک طرح سے جڑواں بھائی ہیں۔ان کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات اپنی جگہ لیکن بنیادی مفادات مشترک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سامراجی ممالک جیسے برطانیہ‘ فرانس‘ بیلجیم وغیرہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزاد ی دے دی لیکن اُنہیں امریکہ کی بالواسطہ ماتحتی ‘ تحویل میں دے دیا۔ایک ’نیا نوآبادیاتی ‘نظام قائم کردیا۔
مغربی سامراج رُوس کو اس کے شمال مغرب سے گھیرنے کی تیاری کررہا ہے۔ رُوس کے شمال مغرب میں واقع دو ہمسایہ ملک فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کے اتحاد میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں نے اس کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ واشنگٹن نے نیٹو کا اتحاد انیس سو اننچاس میںبنایا تھا۔ اسوقت تیس ممالک اس کے ارکان ہیں۔ نیٹو بحراُوقیانوس میں امریکہ کی چودھراہٹ قائم رکھتا ہے۔ جو ملک نیٹو کا رُکن بنتا ہے وہاں فوجی اڈّے قائم کیے جاتے ہیں۔ کسی ایک رُکن پرفوجی حملہ تمام ارکان پر حملہ تصّور کیا جاتا ہے۔ تمام رُکن ممالک اس کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے ہیں۔ نیٹو کے ذریعے انکل سام پُورے یورپ اور رُوس کو کنٹرول کرتا ہے۔
چند برس پہلے بننے والا رُوس اور چین کا اتحاد امریکی سامراج کے لیے سَوہان رُوح بن گیا ہے۔ چین کے عروج کے بعد انکل سام کو فکر لاحق ہے کہ دنیا میں اسکا اثر و رسوخ کم ہوتا جارہا ہے۔ وہ اب دنیا کی واحد سپر پاور کا رتبہ کھونے لگا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے حکومت سنبھالتے ہی سر توڑ کوششیں شروع کردی تھیں کہ امریکہ کی دنیا میں برتری کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھا جائے۔ خاصے عرصہ سے پینٹاگون نے رُوس کے قریب واقع ملک پولینڈ میں اپنے فوجی اڈّے بنائے ہوئے ہیں۔ اِس ملک کو جدید ترین ہتھیاروں سے لَیس کیا ہے۔امریکہ نے رُوس کی سرحد پر واقع یوکرین کو جدید ہتھیار فراہم کیے۔ فوجی تربیت دی۔وہاں خاصے عرصہ سے سی آئی اے کے مراکز قائم ہیں۔ماسکو کا دعویٰ ہے کہ وہاں جراثیمی ہتھیاروں کی لیبارٹریاں کام کررہی تھیں۔ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ اس پر ماسکو کے حکمران مشتعل ہوگئے کہ اس کی سرحد پربیلسٹک میزائل لگائے جائیں گے اورجنگی طیارے کھڑے کردیے جائیں گے۔اِن سے رُوس کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ ماسکو نے یوکرین سے ضمانت مانگی کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا لیکن یوکرین نے یہ گارنٹی دینے سے انکار کردیا۔مغربی سامراج اُس کو شہ دے رہا تھا اور اُس کی مدد کررہا تھا۔بالآخر ماسکو کے حکمرانوں نے تین ماہ پہلے فروری میں یوکرین میںاپنی فوجیں داخل کردیں۔روسی فوجوں نے گزشتہ ہفتہ یوکرین کے اہم ساحلی علاقہ ماریوپول پر قبضہ کیا تو وہاں سے ایک ریٹائرڈامریکی بحری کے نامور ایڈمرل ایرک اولسن کو گرفتار کیا۔ یہ ایڈمرل رُوس کے خلاف جنگ میں یوکرینی افواج کی قیادت کررہے تھے۔ اولسن امریکہ کے اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ امریکہ کے پٹھُو برطانیہ نے جنگ کے غرض سے یوکرین کوبڑی مقدار میںجدید اسلحہ فراہم کیا ۔ پولینڈ نے اب تک یوکرین کی فوج کو ڈیڑھ ارب یورو کا اسلحہ اور ہتھیار عطیہ کیے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ رُوس طویل عرصہ تک یوکرین کی جنگ میں پھنسا رہے تاکہ اس کی معیشت کمزور ہوجائے۔روسی عوام صدر پیوٹن سے باغی ہوجائیں۔ یوکرین کا تو صرف نام ہے۔ اصل میں امریکہ اور یورپ اُس کے ذریعے رُوس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
میڈیا کے ذریعے رُوس کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ماسکو صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک میں امریکہ اپنے فوجی اڈّے قائم نہ کرے۔ امریکی سامراج نے رُوس کو ایک ہّوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ یورپ کوکھربوں ڈالر کا اسلحہ بیچ سکے۔ اور ساتھ ہی ساتھ چین اور رُوس کے اتحاد کو محدود کردے۔ امریکہ اور یورپ نے رُوس پر سخت ترین معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ ماسکو سے ہر قسم کا تعاون ختم کردیا۔بیرونی سرمایہ کاری روک دی ہے۔ رُوس کو ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر قدغن لگا دی ہے۔ دنیا کے بین الاقوامی بینکنگ نظام پر امریکہ کی اُجارہ داری ہے۔ وہ کسی ملک پر پابندیاں لگا کر اُس کی عالمی تجارت مفلوج کردیتا ہے۔اب روسی بینک عالمی بینکنگ نظام استعمال نہیں کرسکتے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ ماسکو بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ (نادہندہ) کرجائے۔
انکل سام نے صرف یوکرین کی جنگ پر اکتفا نہیں کیا۔اس نے رُوس کے شمال مغرب میںواقع ہمسایہ ممالک فن لینڈ اور سویڈن کو بھی تھپکی دے دی ہے۔فن لینڈ کی رُوس کے ساتھ تیرہ سو کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے۔امریکہ فن لینڈ کوایف پنیتیس جنگی جہاز فراہم کررہا ہے۔ یہ جدیدترین جنگی طیارے ہیں جنہیں ریڈارپکڑ نہیں سکتا۔ رُوس کے صدرولادی میر پیوٹن نے بار بارفن لینڈ اور سویڈن کو خبردار کیا کہ وہ نیٹومیں شامل نہ ہوں۔ یہ رُوس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔جوابی کاروائی کرتے ہوئے ماسکو نے فن لینڈ کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کردی ہے۔ دوسری طرف ترکی سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرنے کا سخت مخالف ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ممالک ترکی میں علیحدگی پسند کُردمسلح تنظیموں کی مدد کرتے ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ ماسکو پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور چین سے فاصلہ اختیارکرلے۔امریکی کیمپ میں شامل ہوجائے۔ تاہم رُوس کے صدرولادی میر پیوٹن قوم پرست ہیں ۔ وہ اپنے ملک کومغربی سامراج کی طفیلی ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے۔بھرپور مزاحمت کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔