... loading ...
کوئی مانے یا نہ مانے، عمران خان سیاست کا اولین محرک اور موضوع بن چکے ۔ حالات کے تیور عمران خان کے اقدامات سے بننے بگڑنے لگے ہیں۔ طاقت کے رائج مراکز میں اس نئے رجحان نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ وقت ایک اور سمت میں بہتا ہے۔ مگر طاقت کے مراکز حالات پر پرانی روش سے گرفت رکھنے کو کوشاں ہیں۔ طاقت کی نفسیات ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ روشِ کہنہ پر اڑی رہتی ہے اور وقت آگے نکل جاتا ہے۔ کیا وہ لمحۂ مسعود آن پہنچا، جب رائج فارمولے ٹوٹنے لگتے ہیں، اور نئے رجحانات تشکیل پاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ایسے ہی نئے دور کی چاپ سن رہی ہے۔ نئے تشکیلی دور کے محرکات، پرانے رجحانات سے تصادم آشنا ہوتے ہیں۔ اس کی کوئی تہذیب نہیں ہوتی، یہ اپنی ہی نفسیات کے ساتھ ایک ہڑبونگ مچاتے ہیں۔ یہ نئے رجحانات کی تشکیل سے پہلے کا عبوری دور ہوتا ہے۔ پاکستان اُسی عبوری دور سے گزررہا ہے۔ جہاں طاقت رکھنے والے گروہ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ دوست ، دشمن بن رہے ہیںا ور دشمن دوست ۔
طاقت کے مراکز پہاڑ ایسی غلطیاں کرچکے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں حریف اور حلیف وقت کے ساتھ بدلے، جسے حب الوطنی اور قومی مفاد کے مقدس الفاظ سے ملفوف کیا گیا۔ اب سچ تو یہ ہے کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔شیخ سعد ی سے کسی نے کہا: میرا کوئی دوست نہیں؟ شیخ سعدی نے جواب نہیں سوال کیا: یہ بتاؤ تم کسی کے دوست ہو؟شیخ سعدی کے اس سوال کے آئینے میں ہم سب اپنے چہرے دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں کوئی کسی کے ساتھ نہیں، سب سیاست کررہے ہیں۔ عمران حکومت کے خاتمے نے طاقت کے مراکز کے لیے غیر متوقع نتائج پیدا کردیے۔ یہ سوچا نہیں گیا تھا کہ مقبولیت کی غیر متوقع لہر ایسے شخص کے لیے اُٹھے گی جو ساڑھے تین برس کی نامقبول حکومت کے بعد نکالا گیا ہو۔ طاقت کے مراکز عمران خان کے متعلق غلط اندازے رکھتے تھے۔ ایک غلطی تو یہ ہوئی کہ عمران خان کے متعلق یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ وہ دباؤ میں زیادہ بھرپور طریقے سے بروئے کار آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کا درست ادراک امریکی غلاموں کو آج تک ہوا ہی نہیں۔ اگر امریکا مخالف جذبات کو حقیقی اور غیر سیاسی طور پر منظم کردیا جائے تو پاکستان میں انقلاب کو، کوئی طاقت بھی اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود بھی نہیں روک سکتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس حقیقی صورتِ حال کے باوجود طاقت کے مراکز امریکا کے محور سے نکلنے کو تیار نہیں۔ امریکا کے ساتھ ان کے روابط کی” گہرائی”اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ یہ مقامی انداز وتیورتک بھول چکے ہیں۔ ان کے انداز وتیور بھی مقامی سیاست میں”امریکی” ہوچکے ہیں۔ امریکی ناقابل یقین ہوتے ہیں،وعدوں اور انسانی قدروں کا لحاظ نہیں کرتے۔ اپنا الّوسیدھا کرنے کے لیے کسی بھی حد کو پھلانگ لیتے ہیں۔ اپنے مکروہ اہداف حاصل کرنے کے لیے مذہب سمیت ہر چیز کا استعمال کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو استعمال کرنا تھا تو اُن کے لیے مذہبی لٹریچر تیار کرایا، اُنہیں امریکا کی جنگ آزادی کے ہیروز کے ہم پلہ قرار دیا۔ جب نوگیا رہ کے بعد اُنہیں ایک دوسری جنگ درکار تھی تو مذہب کے خلاف دہشت گردی کا بیانیہ استعمال کیا۔ اُنہیں انتہاپسند، وحشی اور گنوار قرار دیا ۔ روشن خیالی اور جدیدیت کی پھُلجڑیاں چھوڑیں۔ پاکستان کے امریکی محور میں پالیسیاں رکھنے کے مظاہر بھی اسی طرح سامنے آئے۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق تھے۔ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مذہب کے ساتھ افغانستان کو نشانے پرلیا گیا تو یہاں فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے۔ ایک کے لیے مردِ مومن مردِ حق کے نعرے لگتے، اور دوسرا سر پر گلاس رکھ کر رقص کرتے ہوئے ویڈیو بنواتااور شرم کا کوئی احساس تک کہیں نظر نہ آتا۔ دونوں ادوار میں طاقت کے مراکز میں پاکستانی دانشور بھی الگ الگ قسم کے گھومتے گھامتے دکھائی دیتے۔ پہلے کے ہاں ایسے لوگ مدعو ہوتے جو مذہب کے قریب دکھائی دیتے اور دائیں بازو کے نظریات کے حامل سمجھے جاتے۔ دوسرے کے ہاں ایسے دانشورپسند کیے گئے جن کی راتیں مدہوش ہوتیں اور جن کے دن خمار آلود گزرتے۔ ستم ظریفی دیکھیے ! جنرل ضیاء کے دور میں ان پر پاکستان مخالف اور بھارت سے تال میل رکھنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے اور یہی جنرل پرویز مشرف کے دور میںپسندیدہ قرار دیے گئے اور پہلے والے حب الوطنی کے چیلنج سے گزرے۔ یہ سب کچھ اتنی بار ہو چکا ہے کہ اب کسی کو بھی، کسی چیز کا اعتبار نہیں رہا۔پاکستان میں طاقت کے مراکز میں پالیسی سطح پر افراد اور نظریات کے یہ گہرے اور متضاد دائرے دراصل امریکی محور میں ہونے اور رہنے کے باعث پیدا ہوئے۔ امریکا تو ایک الگ ملک تھا، مگر ہم یہاں ایک قوم تھے اور ہماری ایک خاص بودوباش ہے۔ امریکا بطور ریاست ایک ریاست سے معاملہ کرتے ہوئے الگ الگ کھیل کھیلنے سے کیوں ہچکچائے گا؟ مگر ہم اس گندے اور گھناؤنے کھیل میں امریکی پیروی کے اندر دوست ، دشمن بنالیتے ہیں اور دشمن دوست۔ چنانچہ چند برسوں میںیہ دائرہ پھر گھومتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب سب ذات اور اعتبارِ ذات کے درمیان ہچکولے کھارہے ہیں۔ کوئی کسی پر بھروسا نہیں کرتا اور کسی کے پاس بھی کسی پر بھروسا کرنے کا کوئی جواز باقی بھی نہیں رہا۔
اس تناظر میں اب پاکستانی سیاست کے حالیہ اُتار چڑھاؤ کا ایک جائزہ لیںتو نہایت بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ڈارلنگ کے طور پر اُبھرے۔ اُنہیں ایک ”پراجیکٹ” قرار دیاگیا جس کی ایک ”شیلف لائف” بھی متعین کرلی گئی۔ انسان، روبوٹ تو نہیں ہوتے، اُن کی حرکت مشینی نہیں ہوتی۔ وہ سوئچ آن اور سوئچ آف کی طرح کھل بند نہیں ہوتے۔ انسانی حرکت کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ اُن کے اندر ایک جذباتی تحریک ہوتی ہے۔ اُنہیںہاں اور ناں کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ مگر طاقت کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی تحویل میں رکھ کر اور اُس پر اپنی قدرتِ کاملہ جتلا کر رہتا ہے۔ یہی کچھ عمران خان کے معاملے میں بھی ہوا۔ عمران خان اس اعتبار سے نوازشریف یا زرداری قسم کے آدمی واقع نہیںہوئے۔ مگر پھر بھی طاقت کے مراکز عمران خان کو اُن کی ہی طریقوں سے قابو کرنا چاہتے ہیں جن سے زرداری اور نوازشریف قابو کیے گئے۔ بدعنوانی کے مقدمات، نیب کا دباؤ ، ایف آئی اے کی تنبیہ اور اس نوع کی دیگر حرکتیں نوازشریف اور زرداری کے معاملے میں موثر رہیں ، مگر عمران خان ایک مختلف قسم کا چیلنج ثابت ہوئے۔وہ پاکستان کے اندر عوامی پزیرائی کی ایک ایسی لہر پر سوار ہے جو ماضی میں کبھی کسی کو حاصل نہیں رہی۔ بھٹو کی پزیرائی بھی طبقاتی تھی، عمران خان اس باب میں حمایت کی تمام گروہی شکلوں سے اوپر اُٹھ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ خود طاقت کے مراکز میں بھی عمران خان کی حمایت واضح طور پر سامنے آرہی ہے۔ طاقت کا مسئلہ یہ ہے کہ عورت جس طرح پورا دمی مانگتی ہے اور وہ اس میں کسی کو شریک نہیں دیکھنا چاہتی ، طاقت بھی کسی نوع کی تقسیم گوارا نہیں کرتی۔مگر عمران خان کی ہمہ گیر حمایت کا چیلنج اتنا بڑا بن کر سامنے آیا ہے کہ طاقت تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ قومی سیاست کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ عمران خان اس کا اولین محرک ہے۔ پاکستان کی پوری سیاست اُن کے گرد گھوم رہی ہے۔ تمام فریق عمران خان کے اقدامات کے جبر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ عمران خان نے حکومت ملنے سے پہلے تک ردِ عمل اور حزب اختلاف کی سیاست کی تھی۔ حکومت سے نکالے جانے کے بعد اب وہ اقدامی اور ریاستی سیاست کررہے ہیں۔ جبکہ باقی تمام قوتیں اُن کی اقدامی سیاست کے ردِ عمل میں اپنی جوابی سیاست کررہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، عمران خان سیاست کا اولین محرک اور موضوع بن چکے ۔ حالات کے تیور عمران خان کے اقدامات سے بننے بگڑنے لگے ہیں۔ طاقت کے رائج مراکز میں اس نئے رجحان نے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔
٭٭٭٭٭