... loading ...
فلپائن اور پاکستان کی سیاست خاصی ملتی جلتی ہے۔جُوںجُوں آپ یہ مضمون پڑھتے جائیں گے آپ میری رائے سے اتفاق کریں گے۔ ایشیا کے ملکوں میں خاندانی‘ موروثی سیاست مضبوط اور گہر ی جڑوں کی حامل ہے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ فلپائن کے نو مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔سابق آمرفرڈیننڈ مارکوس کے بڑے بیٹے مارکوس جونئیرالمعروف بونگ بونگ نے کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا ساٹھ فیصد حاصل کرکے معرکہ جیت لیا۔ اپنی قریب ترین حریف خاتون امیدواراور انسانی حقوق کی وکیل’ لینی روبریڈو‘کوزبردست شکست سے دو چار کیا۔ انہیں اٹھائیس فیصد ووٹ ملے۔ بونگ بونگ مارکوس اُسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں جسے چھتیس برس پہلے زبردست ‘ خونی عوامی احتجاج کے نتیجہ میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ انیس سو چھیاسی میں’ کوری اکینو ‘نامی خاتون سیاستدان نے ان کے والد فرڈیننڈ مارکوس کے اِکیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا تھا۔مارکوس نے پہلے سات سال منتخب صدر کی حیثیت سے اوربعد میں چودہ برس مارشل لا لگاکر حکومت کی تھی۔معزول ہونے پر امریکا کے جزائر ہوائی چلے گئے تھے اور تین سال بعد وفات پاگئے تھے۔ مارکوس خاندان اُنیس سو بانوے میں جلاوطنی ختم کرکے فلپائن واپس آگیا اورفوراً فلپائن کی سیاست میں داخل ہوگیا ۔مارکوس جونئیر پہلے اپنے آبائی صوبہ میں گورنر منتخب ہوئے۔ پھر سنیٹر بنے۔ اب جون میںوہ ملک کے سترھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ خاندانی سیاست دیہی علاقوں میں موثر ہوتی ہے۔فلپائن کی تقریباً نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے لیکن اس کے باوجودموروثی سیاست قائم ہے۔
سات ہزار جزائر پر مشتمل ملک فلپائن ایشیا کے بالکل مشرق میں قدرے جنوب کی طرف واقع ہے۔ سوا کروڑ آبادی ہے۔ منیلا اس کا دارلحکومت ہے لیکن سب سے بڑا شہر’ کویزون سٹی ‘ہے۔سولھویں صدی میں اسپین نے ان جزائر پر قبضہ کرکے اسے اپنی نوآبادی بنالیا تھا۔اس وقت اسپین کے بادشاہ کا نام فلپ دوم تھا۔ ان کے نام کی مناسبت سے ان جزائر کو فلپائن کا نام دیا گیا۔اٹھارہ سو اٹھانوے میں امریکا نے اسپین کو شکست دے کر ان پر قبضہ کیا۔جولائی انیس سو چھیالیس میں فلپائن امریکا سے مکمل طور پر آزادہوا۔ آبادی کی غالب اکثریت (اسیّ فیصد)کیتھولک مسیحی ہے۔ چھ فیصد مسلمان۔اس سال مجموعی داخلی پیداوار پونے چار سو ارب ڈالر ہے۔اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں فلپائن کی دولت چین‘ جنوبی کوریا‘ تھائی لینڈ اور انڈونیشیا ایسے ملکوں سے زیادہ تھی لیکن اب اُن سے پیچھے ہے۔ بالکل جیسے پاکستان۔ اس کے شہروں میں کچی بستیاں اور غربت عام ہیں۔ تقریباً بیس فیصد آبادی بہت غریب ہے۔ البتہ خواندگی اور تعلیم کی شرح بہت اُونچی ہے۔پندرہ سال اور اس زیادہ عمر کے لوگوں میںشرحِ خواندگی اٹھانوے فیصد ہے۔
فلپائن میں صدارتی نظامِ حکومت رائج ہے ۔ صدر اور نائب صدر کوعلیحدہ علیحدہ ووٹوں سے لیکن ایک ہی وقت میں چھ سال کے لیے منتخب کیاجاتا ہے۔ صدر اور نائب صدر کا تعلق دو الگ الگ پارٹیوں سے ہوسکتا ہے۔ الیکشن سے پہلے چھ سال فلپائن کے صدر’ رُوڈرِیگو ڈُوٹَرٹے‘ تھے۔ نائب صدر خاتون ’لینی روبریڈو‘ تھیں۔ دونوںمختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ فلپائن کے آئین کے تحت کوئی شخص ایک مدّت سے زیادہ صدر نہیں ہوسکتا۔ دو ہزار سولہ میں لینی روبریڈو نے مارکوس جونئیر کونائب صدر کے الیکشن میں شکست دی تھی۔لیکن اس بار صدارتی الیکشن اُن سے ہار گئیں۔مدّت پوری کرنے والے صدر ڈُو ٹرٹے کے مارکوس خاندان سے قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے مارکوس کی میّت کو ہوائی جزائر سے فلپائن لاکر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا تھا۔ ان کی بیٹی ساراڈُوٹرٹے اس بار نائب صدر کی امیدوار تھیں اور مارکوس جونئیر کی حامی۔ اِن کے ووٹرزمتحدہوگئے ۔دونوں کامیاب ہوگئے۔
مارکوس جونئیر کی کامیابی میں ایک اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ فلپائن میں فیس بک‘ ٹک ٹاک اور یوٹیوب کا استعمال کثرت سے ہوتاہے۔ اِن پلیٹ فارموں پر مارکوس کا پروپیگنڈہ چھایا ہوا تھا۔ ان کے والد پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ ان کے دور میں شہری آزادیاں سلب کی گئیں تھیںلیکن ان کے دور میں انفراسٹرکچر میں خاصی ترقی ہوئی تھی۔سیاسی استحکام تھا۔مارکوس کے معزول ہونے کے بعد اُنیس سو چھیاسی میں فلپائن میں جمہوری دور شروع ہوا لیکن اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا۔ عوام کی اکثریت کو معاشی فوائد حاصل نہیں ہوئے۔اس دوران میں بارہ مرتبہ فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی لیکن نا کام ہوئی ۔ملک میں درجنوں کرپشن سکینڈل زبان زدِ عام ہیں۔تین بار صدر کے احتساب کی کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ فلپائن کی جمہوریت لڑکھڑاتا ہوا سیاسی نظام ہے جومعاشرہ میں سیاسی تقسیم ختم کرکے استحکام پیدا نہیں کرسکا۔ دو سال پہلے شروع ہونے والی کورونا وبا نے پوری دنیا کی طرح فلپائن کی معاشی حالات کو بُری طرح متاثر کیا۔بے روزگاری بے تحاشابڑھ گئی۔ صدارتی انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کے ذریعے مارکوس کے بیس سالہ اقتدار کو ایک سنہری دور کے طور پر پیش کیا گیا۔ نئی نسل نے اس بیانیہ کو قبول کرلیا۔جمہوری اور انسانی حقوق کے علمبردارتشویش میں مبتلا ہیں کہ مارکوس جونئیر کہیں اپنے والد کے زمانہ کا جبر وتشدد‘ کرپشن اور اقربا پروری کا دور واپس نہ لے آئیں۔ ان سے یہ توقع بھی نہیں کہ پیش رو صدرڈُوٹرٹے کے کرپشن اور ظلم و ستم پر ان کا احتساب کریں گے۔
بحرالکاہل کے اہم سمندری راستے میںواقع ہونے کے باعث فلپائن تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے مغرب اور شمال میں جنوبی بحیرہ چین(ساؤتھ چائنہ سی ) واقع ہے جو اہم تجارتی راستہ ہے۔ذرا شمال کی طرف چین کا باغی صوبہ تائیوان واقع ہے۔اس اعتبار سے امریکا اور چین دونوں بڑے ملکوں کے لیے فلپائن کا خاص رتبہ ہے۔ اُنیس سو سینتالیس میں فلپائن نے امریکا سے دفاعی معاہدے کیے جن کے تحت امریکا نے فلپائن میں اپنے فوجی اڈّے بنائے۔انیس سو اکیانوے میں یہ معاہدے اور اڈّے ختم ہوگئے۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اتحاد اور تعاون قائم ر ہا۔ دو ہزار چودہ میں فلپائن نے ایک بار پھر امریکا سے دس سالہ عسکری معاہدہ کیا جس کے تحت امریکا نے یہاں دوبارہ اڈّے قائم کرلیے۔مغربی فلپائنی سمندر کو چین ساؤتھ چائنا سمندرکا حصہ قرار دے چکا ہے جس سے ا مریکہ اور جاپان کوخاصی تکلیف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فلپائن اس معاملہ پر چین کا موقف تسلیم نہ کرے۔ مدّت پوری کرنے والے صدر ڈُوٹرٹے نے چین سے مصالحانہ روّیہ اختیار کیا۔دوستی کو فروغ دیا۔ چین سے تجارت اور سرمایہ کاری کے حصول پر توجہ مرکوز کی۔تاہم ساتھ ساتھ امریکا سے تعلقات بنائے رکھے۔ مارکوس جونئیر بھی چین سے قربت رکھتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چین کی مدد سے معاشی ترقی کو تیز کریں گے۔چین اور امریکا کی بڑھتی مسابقت میں مارکوس جونئیر کے لیے ان دو طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھنا اہم چیلنج ہوگا۔انہیںطویل عرصہ سے جاری کمیونسٹ اور مسلمان مسلح گروپوں کی بغاوت سے بھی نپٹنا ہوگا۔ کئی اعتبار سے فلپائن کی سیاست میں پاکستان کا چہرہ نظر آتا ہے۔جیسے سیاسی طور پر منقسم ملک‘ موروثی سیاست‘ کرپشن کا زور‘ احتساب کی ناکامی‘ امیر اور غریب میں وسیع خلیج‘ سوشل میڈیا کی مقبولیت‘ ریاست کے خلاف مختلف گروہوں کی مسلح بغاوت‘چین اور امریکا کی کشمکش میں متوازن خارجہ پالیسی کا چیلنج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔