... loading ...
افغانستان میں امن کے تسلسل، اس کی جغرافیائی سلامتی اور وحدت کے خلاف ایک بار پھر مسلح جتھہ بندی کے جال بنے جارہے ہیں۔ افغانستان کا استقلال عوام کی 20 سال کی طویل جدوجہد کا حاصل ہے۔ امریکا کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ یوں 29 فروری 2021ء کو دوحا معاہدے پر ملا عبدالغنی برادر اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دستخط کر دیے۔ یہ دن افغان حریت پسند عوام کیلئے انتہائی خوشی و مسرت کا تھا۔ یہ منظر پوری دنیا نے بڑے انہماک سے دیکھا۔
دوسری جانب معاہدے سے پہلے اور بعد میں بھی امریکی اور نیٹو کے تحفظ اور کفالت میں مسلط شمال کے حلقوں، سیاسی و جنگی شخصیات اور بعض پشتون بڑے اسے ناکام بنانے پر جتے رہے، اقتدار سے چمٹے رہے۔ معاہدے کی وہ شرائط جیسے قیدیوں کی رہائی میں تاخیری حربوں کا سہارا لے کر معاہدے پر اثر انداز ہوئے، یہاں واشنگٹن نے بھی مزید کردار ادا کیے بغیر فوجیں نکال کر افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھور دیا۔
صدر اشرف غنی نے انتقال اقتدار کی بجائے فرار کی ذلت آمیز راہ کا انتخاب کیا۔ چناں چہ دوحا معاہدے کے افغان فریق کو مجبوراً کابل یعنی ملک کا زمام کار ہاتھ میں لینا پڑا۔ معاہدہ پر بلا پس وپیش عمل درآمد کیا جاتا تو یقیناً عبوری حکومت کی شکل آج سے مختلف ہوتی۔ بہر حال نئی حکومت نے کسی گروہ، سیاسی بڑے اور فوجی افسران کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔ طورن اسماعیل کو عزت اور اکرام کے ساتھ ایران جانے کی اجازت دی۔ جنرل رشید دوستم پہلے ہی ترکی جا پہنچے تھے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ وطن میں رہے جن پر کسی قسم کی قدغن نہ ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد ضیاء مسعود اور سی آئی کے پروردہ امر اللہ صالح نے نئی حکومت سے جنگ کی ٹھان لی، مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ وطن میں رہتے تو ان کیلئے کسی قسم کے مسائل نہ ہوتے۔ چناں چہ ان کی زور آزمائی برداشت نہ کی گئی۔ نئی حکومت نے پورا پنجشیر کابل کے قلمرو میں شامل کرلیا۔ جبکہ ان دونوں نے دوسرے ملک میں پناہ لے لی۔
رشید دوستم بھی امریکی و برطانوی فوجی حمایت اور فوجی کمک کی کوششوں میں ہے اور افغان حکومت کے خلاف سرگرم داعش گروہ کے کمانڈروں سے رابطے اور ملاقاتیں کررہا ہے۔ دوستم نے تعاون کے بدلے امریکا کو یوکرین میں روس کے خلاف اپنے جنگجو بھیجنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ یہ مشق امریکا کی تشکیل کردہ سابقہ حکومتوں میں ہوتی رہی۔ ملیشیائیں بنا کر شمال کے لوگوں کوخاص کر افغان شیعہ نوجوان ایران کے راستے عراق، شام وغیرہ لڑنے بھیجے جاتے۔
ادھر افغانستان کے شمال اور دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی نمایاں لوگ ایران منتقل ہوئے ہیں، گویا احمد ضیاء مسعود، رشید دوستم، امر اللہ صالح اور ایران میں مقیم یہ لوگ قومی مزاحمتی محاذ کے نام سے قومی اور علاقائی بنیادوں پر افغانسان پر ایک اور جنگل مسلط کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
سابق حکومت کے ایک فوجی جنرل سمیع سادات نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ان ارادوں کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں مسلح کارروائیاں شروع کردی جائیں گی۔ محاذ نے جنگ چھیڑنے اور پنجشیر میں علاقے قبضہ کرنے کی ابلاغی جنگ کا بھی آغاز کردیا ہے۔ ایران کے اندر ہرات سے تعلق رکھنے والے کمانڈر طور اسماعیل سمیت نمروز کے سابق گورنر عبدالکریم، سابق افغان صدر کے مشیر ابراہیم، مولوی حسام الدین تاجک، صوبہ فاریاب کے سابق پولیس سربراہ نظام الدین قیصری، سابق این ڈی ایس اہلکار گل حاجی فرید، صوبہ فرح کے سابق پولیس چیف عبدالولی مبارز، قومی مزاحمتی محاذ کے کمانڈر عبدالغنی علی پور، این آر ایف کمانڈر عبدالحکیم شجائی، بادغیس کے سابق گورنر حسام الدین شمس اور بادغیس کے سابق پولیس آفیسر شیر اکا الکوزئی مقیم ہے۔
یہ وہی حربے ہیں جو سابق کمیونسٹ دور حکومت میں ہوتے رہے، تب روس کی حمایت سے اقتدار کی کنجیاں ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ آخر میں خراسان کے نام سے افغانستان کی تقسیم کی منصوبہ بندی پر کام شروع کیا۔ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو انہوں نے بے دست و پا بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر نجیب، گلبدین حکمتیار اور دوسرے جہادی رہنما?ں کے درمیان امن منصوبے پر پیشرفت ہوئی تھی۔ جسے کمیونسٹ پرچم پارٹی کے جنرل نبی عظیمی وغیرہ نے بھنک پڑنے پر احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر سبوتاڑ کیا، ڈاکٹر نجیب شمال کی ملیشائیں کابل میں داخل کرنے کی اجازت پر مجبور کئے گئے، جس کے بعد حالات نے ایک اور خوفناک کروٹ لے لی، پھر مجددی اور ربانی کی حکومتیں ان کی اپنی حکومتیں تھیں، جو در حقیقت شمال کی زیر دست تھیں۔ چناں چہ ملا محمد عمر کی تحریک کے اٹھنے اور کابل پر قبضے سے ان کے خواب بکھر گئے۔
شمال کے گروہ اس عرصہ مختلف تخریبی منصوبوں میں مگن رہے۔ ایران ان کا اہم مستقر رہا۔ 8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی و نیٹو حملے کے بعد یہ پھر سیاہ و سفید کے مالک ٹھہرائے گئے۔ افغانستان کی اکثریتی آبادی صدارت اور چند دیگر عہدے دے کر محض علامتی حصہ دار تھی۔ امریکی چھتری تلے نومبر 2001ء میں منعقد ہونے والی بون کانفرنس میں عبوری حکومت قومی بنیادوں پر تشکیل دی گئی۔ کانفرنس میں طالبان اور حزب اسلامی کو دعوت نہ دی گئی تھی۔ باقی پشاور گروپ جو حامد گیلانی کی سربراہی میں تھا۔ ہمایوں جریر کی نمائندگی میں قبرص گروپ، روم گروپ، عبدالستار سیرت اور متحدہ جبہ، ربانی کی سربراہی میں شریک ہوا۔ متحدہ جبہ، ربانی کی حکومت کو تسلیم کرانے کی جستجو میں لگا رہا اور مسلسل عبوری حکومت کے قیام میں خلل کی تاک میں رہا۔ مذاکرات میں غیر شریک عبداللہ عبداللہ برہان الدین ربانی کوفون پر ہدایات دیتے۔
بہرحال شمال کو حکومت میں اہم اور مؤثر حصہ دیا گیا، پھر حامد کرزئی کہا کرتے تھے کہ اقلیتی اقوام امریکا اور نیٹو افواج کی موجودگی سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور پشتون ان سے تکلیف میں ہیں۔ یقیناً ایسا ہی تھا، جنرل فہیم اور جنرل دوستم کا مارشل بنانا زور زبردستی والا معاملہ تھا۔ عبداللہ عبداللہ بزور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ اشرف غنی کے مقابل متوازی طور بطور ملک کے صدر حلف اٹھایا۔ امریکی تسلط کے پورا عرصہ شمال کا خطہ علی الخصوص پنجشیر کابل کی عملداری سے باہر تھا۔ کابل کی حکومت کی رٹ اپنے علاقوں میں تسلیم نہیں کی جاتی تھی۔ اور افغانستان کی تقسیم کی تخریب کو عملی صورت دینے کی تاک میں تھے۔
امروز تاجکستان سے افغان سرزمین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، تاجکستان ان علاقائی و نسلی گروہوں کی مدد کررہا ہے۔ حتیٰ کہ تاجکستان سے امریکی ڈرون افغان سرزمین میں پرواز کرتے ہیں، ازبکستان سمیت ترکی کی سرزمین افغانستان کی وحدت اور سلامتی کیخلاف استعمال ہورہی ہے، یہ دو ممالک رشید دوستم اور ان کے لوگوں کے مسکن ہیں، امریکا یوکرین کا بھاری مالی و اسلحہ امداد کرچکا ہے مزید بھی کررہا ہے۔مگر افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے کی بجائے اسے معاشی مسائل میں دھکیلنے کی مکروہ پالیسی اپنا رکھی ہے اور افغانستان بارے منفی عزائم کے اشارے دے رہا ہے۔
افغان حکومت داعش گروہ کے صفایا میں لگی ہے۔ اپریل سے اب تک افغانستان کے صوبہ ہرات، قندوز، بلخ ، ننگرہار اور کابل میں داعش خودکش حملے کراچکا ہے جس میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا اگر افغانستان میں شرارت پہل کی جاتی ہے تو یہ خطے اور دنیا کے لیے ایک اور امتحان کا پیش خیمہ بنے گا۔ پاکستان کے اندر دینی اور سیاسی جماعتوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو چاہیے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی شمال کے جتھوں کے عزائم کے خلاف سیاسی دباؤ ڈالے۔