... loading ...
پاکستان میں بزنس مین ، سیاستدان ، تاجر اور نہ جانے کون کون سے طبقات باقاعدہ مافیاز کا روپ دھارچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی بیوروکریسی،فوجی اسٹیبلشمنٹ، ججز،اوراشرافیہ سے رشتہ داریاں ہیں ملک میں جس کی بھی حکومت ہو یہ سب کے ساتھ اس حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پیش ِ نظرفقط اپنے ہی مفادات کا تحفظ ہوتاہے یقین نہیں آتا تو خود گذشتہ پون سال کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی تقدیر کے مالک نظر آئیں گے یہ لوگ ہرسال کوئی نہ کوئی بحران ارینج کرکے کھربوں روپے کمالیتے ہیں اور غریب عوام اپنی قسمت کو کوس کر ہمیشہ جلتے کڑھتے رہتے ہیں کبھی آٹامافیاسراٹھاتاہے تو کبھی شوگرمافیا،کبھی لینڈمافیا سرکاری زمین اپنی ہائوسنگ سوسائٹیوںمیں شامل کرلیتاہے ا اور حکمران نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے آٹا، اور چینی چونکہ عام استعمال کی پراڈکٹس ہیں جس کی کھپت ہمیشہ زیادہ ہے اس لیے یہ ان کا خاص ٹارکٹ ہیں ا س لیے شوگر ملز مالکان اور آٹا مافیاحکومت سے اربوں روپے کی سبسڈی بٹورنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں۔
شوگر ملز مالکان اور آٹامافیاگندم ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر حکومت سے سبسڈی اور مراعات لیتے ہیں فوائد حاصل کرنے تک آٹا چینی کو ملک میں نامعلوم جگہ پر اسٹور کرلیا جاتا ہے۔جیسے ہی حکومتی مفادات موصول ہوجاتے ہیں اسی آٹاچینی کو مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے جس سے قیمتیں کنٹرول میں نہیں رکھی جاسکتیں تو مہنگائی میں اضافہ ہونا یقینی امرہے پاکستان میں جس پارٹی کی بھی حکومت ہو مہنگائی مافیا کو کوئی لگام نہیں ڈال سکتا کیونکہ یہ لوگ ہرحکومت کا حصہ بن جاتے ہیں پھر ان کی بلیک میکنگ کے آگے حکومت اور حکومتی مشینری بے بس ہوجاتی ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ اس مافیا کی حکومت سدابہارہے اب تو شک شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ شوگر ایکسپورٹ پالیسی سے فوائد حاصل کرنے والوں میں بااثر نامور سیاسی شخصیات شامل ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں شریف خاندان ، چوہدری فیملی ، زرداری اورجہانگیر ترین گروپ ن،خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار گروپ ،انور مجید گروپ شامل ہیں سب کے پیٹ میں غریبوں سے محبت کا مروڑ اٹھتارہتا ہے۔
حکومت کی جانب سے اربوں روپے کی سبسڈی کی اس بہتی گنگا سے آر وائی گروپ ، جہانگیر ترین ، ہنزہ گروپ ، فاطمہ گروپ ، شریف گروپ ، اومنی گروپ اور چوہدری گروپ نے فیضیاب ہوئے۔ شوگر ملوں کو سبسڈی ملنا، چینی کی صنعت کا سیاست میں اثرورسوخ ظاہرکرتا ہے ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شوگر ملز شریف خاندان ،انور مجید گروپ اور آصف زرداری کی ہیں انہی تینوں گروپس نے عددی برتری کے حوالہ سے سب سے زیادہ فوائد اور سبسٹڈی لے کر کھربوں روپے کما لیے لیکن سوشل میڈیا پر شور مچاہوا کہ چینی کے بحران میں اپوزیشن صرف ان شوگرملز مالکان کے خلاف مہم چلا رہی ہے جو حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں حالانکہ یہ سب کے سب بے رحم لوگ ہیں جنہوںنے ہمیشہ بحران پیدا کرکے حکومتوں کو بلیک میل کیا اور اپنی تجوریاں بھری ہیں اس سارے معاملہ کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ چینی مافیا کے کچھ لوگوں نے سابقہ وزیراعظم عمران خان کو دھمکی دی تھی بیشترلوگوںکا خیال ہے کہ یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ یہ کسی بھی حکومت کا دھڑن تختہ کرسکتا ہے جو بھی اس مافیا کو نکیل ڈالے گا وہ یقینا ایک نئی تاریخ رقم کر سکتاہے لیکن ساتھ ہی ان کے لیے سیاسی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے اب اس کا منطقی انجام کیاہوگا؟ یہ ایکشن لیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب گندم کا بحران آنے والا ہے یہ بحران شہبازشریف کی نئی نویلی حکومت کو ہلاکررکھ دے گا کیونکہ جب لوگوںکو کھانے کے لیے آٹا نہیں ملے گا تو پھر شہر شہر احتجاج کو کوئی نہیں روک سکتا شاید ملک کی واحد اوراکلوتی اپوزیشن کو اسی موقعہ کاانتظارہے عمران خان توپہلے ہی اپنی انتخابی مہم کا آغازکرچکے ہیں لیکن حالات اور آثاربتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی،MQM،باپ،JUIاور دیگر جماعتوںپر مشتمل حکومتی اتحادمیں زیادہ تر سیاستدانوںکی ہی آٹا،چینی،گھی کی ملیں ہیںانہوںنے بھاری منافع کمانے کے لیے ہمیشہ موقع سے فائدہ اٹھایاہے وہ عوام کو ریلیف کیونکردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔