... loading ...
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اورشہباز شریف کی حکومت کی تشکیل سے سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے تقریباً تمام تجزیہ نگار اس سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا موضوع بحث بھی اس کی واضح عکاسی کرتا ہے دوسری جانب ملک میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طو فان سے عوام میں بے چینی مزید بڑھ گئی مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے مستقبل کی منصوبہ بندی کے بغیرعدم اعتماد کی تحریک پیش کی دوسری غلطی یہ کی کہ بعض اہم مقدمات کے خاتمے کے لیے وقت حاصل کرنے کی وجہ سے فوری انتخابات سے انکار کردیا حالانکہ اس موقع پر اپنی مرضی کی شرائط منواکر انتخابات کر ائے جا سکتے تھے اور عمران خان کو شکست دے سکتے تھے وہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا تیسری غلطی یہ تھی کہ خود انہوں نے عمران خان کے سازش کے الزام کو بہت زیادہ اہمیت دی اور اب بھی اس جال میں پھنس رہے ہیں اور حکومت اپنی ساکھ کو روز بروز خراب کررہی ہے کہا جارہاہے کہ اس پر کمیشن بنایا جائے گا جس سے مسئلہ اور الجھے گا نئے نئے سوالات کا سامنا ہوگا ،سازش کے الزام کو بہت سنجیدہ لیا گیا اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے بہتر رویہ رکھاہے اوران کی جانب سے نسبتاً بہتر جواب آتے ہیں ۔
عمران خان کے سازش الزام کے جواب میںکہا جاسکتا تھا کہ سیاست میں مخالفین کے خلاف منصوبہ بندی اور اتحاد معمول کا عمل ہے عدم اعتماد کی منصوبہ بندی دو سال سے زیر غور تھی اتفاق رائے فروری اور مارچ میں ہوا ا ور اگر خود عمران خان نے کسی طاقتور ملک سے تعلقات خراب کرلیے تھے تو یہ خود ان کی غلطی تھی اس کامسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے تعلق جوڑنا بے معنی ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے ا س قدر جوابات دیے گئے پہلے کہا گیا ایسا کوئی مراسلہ نہیں ہے پھر کہا گیا خالی کاغذ ہے پھر خط اور مراسلے کے فرق پر بحث کا سلسلہ شروع ہوا اس میں تجزیہ نگار شامل ہوگئے جو ہروقت یہ چاہتے ہیں کہ کوئی پرکشش موضوع ہو جس پر عوام کی توجہ ہو عمران خان تو ہر وقت موضوع بحث رہنا چاہتے ہیں ان کی حکومت چلی گئی لیکن نئی حکومت کو اپنے جال میں پھنسا لیا اور ملک بھر میں سوائے اس کے کوئی قصہ باقی نہیں بچا مسلم لیگ ن کو سوچنا چاہئے تھا کہ حکومت گرانے کے لیے کثیر الجماعتی اتحاد ٹھیک تھا لیکن بغیر انتخابات کے حکومت بنانا دانشمندی نہیں تھی خصوصاً ایسے موقع پر جب مہنگائی میں اضافہ ناگزیر تھاعوام کو یہ سمجھانا ناممکن ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے۔
اس وقت اسٹاک مارکیٹ نیچے جارہی ہے ڈالر بے قابو ہوچکا ہے آٹا ،دال،سبزیاں،گوشت،مرغی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے لوگوں میں غصے کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اورعوام کا رجحان عمران خان کی طرف بڑھ رہاہے موجودہ اتحادی حکومت کا سارا بوجھ مسلم لیگ ن اور خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف پر آگیا ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آئندہ چند روز میں مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے اس میں اضافہ ہوگا جس سے عوام میں موجودہ حکومت کے لیے ناراضگی بڑھتی جارہی ہے دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف نے عوامی رابطہ مہم کی برق رفتار مہم شروع کر رکھی ہے اور وہ گلی گلی محلہ محلہ اپنے کارکنوں کو متحرک کررہی ہے اور عمران کی موجودہ مہم کے ایسے حیرت انگیز اثرات ہورہے ہیں جس پر یقین مشکل ہے بعض علاقوں سے ایسی اطلاعات مل رہی کہ اس طرح کا جذباتی انداز پہلے تحریک انصاف کے لیے نہیں تھا حالات کی یہ تبدیلی مسلم لیگ ن کو ہر گذرتے لمحے اس کے اپنے حلقوں میں اس کو کمزور کررہی ہے ان حالات میں حکومت کی جانب سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی آئین شکنی کے الزامات کے نئے مقدمات کے تحت گرفتاری بھی ایک ممکنہ غلطی ہوگی اس کے دو نتائج ہو سکتے ہیں کہ حکومت ایک طویل مدت کی احتجاجی تحریک کو کچلنے میں اپنی توجہ مرکوز رکھے اور ہر لمحہ تنقید کا سامنا کرے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور خود تحریک انصاف نے اس کی پیش بندی کرلی ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے حکومت میں ہونے کے باوجود اگرحکمران جماعت زمینی حقائق سے غافل رہتی ہے یا ایسے موقع پر ایک سیاسی جماعت کو انتظامی مشینری کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتی ہے جو اپنی رابطہ مہم کے عروج پر ہو تو اس کے منفی نتائج سے حکومت کو نقصان ہو سکتاہے ایک ایسی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک میں اندرونی استحکام ہو اور عوام بھی مطمئن ہوجائیںخصوصاً ایسے موقع پر جب خطے میں جنگ کی کیفیت ہے اور پاکستان بھی اس کا حصہ ہے۔
بھارت اور امریکا کے تعلقات میں کافی گہرائی آچکی ہے اور بھارت کو چین کے مد مقابل لانے کی کوشش ہورہی ہے بھارت رفتہ رفتہ اپنے ناراض پروسیوں کو قریب لا رہا ہے وہ ایک عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ بھارت خطے کی ایک بہت بڑی طاقت کی صورت میں سامنے آئے چین اور امریکا کے درمیان تنائو سے اسے یہ موقع ہاتھ آگیا ہے اور وہ خود کو دفاعی اور سفارتی سطح پر مستحکم کرنے میں مصروف ہے جس کے اثرات پاکستان پر ہوسکتے ہیں نئی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی کوئی حکمت عمل تیار نہ کرکے بھی غلطی کی ہے اگر جلد ازجلد عوام کو ریلیف نہ ملامعیشت میں بہتری نہ آئی اور بھرپور سفارتی عمل سے اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر نہ بنایا گیا تو یہ سب کچھ ملکر غلطیوں کی پی ایچ ڈی ہوگی عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کشیدگی اور تصادم کا پیش خیمہ بن سکتاہے سب سے بہتر عمل ایک بڑے سیاسی مفاہمانہ عمل کا ہے جس کی راہیں تلاش کرنا وقت کا تقاضہ ہے اس کے لیے اگر وقتی طور پر حکومت کوپیچھے ہٹنے سے نقصان بھی ہوگا لیکن اس سے بڑا نقصان جبر وتشدد سے ہوگا اس وقت بھی ملک میںتصادم کی کیفیت پیدا کرکے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اگرریاستی مشینری کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا تو موجودہ صورت حال اس کی اس لیے متحمّل نہیں ہوسکتی کہ معاملات بہت آگے جا چکے ہیں ایک صورت یہ ہے کہ ممکنہ مارچ کے لیے امن وامان کی ضمانت لی جائے اور عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کے انتظامات کیے جائیں ممکنہ دھرنا گرمی کے موسم کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تاریخ گواہ ہے تمام دھرنے وقت گذرنے کے ساتھ کمزور ہوتے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔