... loading ...
دوستو،آج کچھ ’’کرنٹ افیئرز‘‘ سے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں ہوجائیں۔۔مختلف یو تھیوں سے گفتگو کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ سیاسی ورکرزہیں نہ کوئی نظریاتی ورکرز، بلکہ یہ خان صاحب کے ’’فین‘‘ ہیں۔جس طرح کسی اور سلیبرٹی یا فلمی اداکار یا اداکارہ کے ہوتے ہیں، فین کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے پسندیدہ شخص کی کارکردگی کیا ہے؟؟ اس کے پسندیدہ اداکارہ یا اداکار کا کردار کیسا ہے؟ اس کو اپنے پسندیدہ اداکار یا اداکارہ کا ایکشن، ڈانس، اداکاری حتی کہ ہر ادا پسند ہوتی ہے۔ کارکردگی کے بجائے وہ صرف اس پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ اداکار یا اداکارہ دکھتا کیسا یا کیسی ہے، وہ بولتا کیسا ہے یا کیسی ہے، اس کی چلنے کا انداز کیسا ہے، وہ پہنتا یا پہنتی کیا ہے؟؟؟سمجھو بس اس کو اپنے پسندیدہ اداکار یا اداکارہ سے عشق ہوتا ہے اور عشق انسان کو اندھا بنا دیتا ہے تبھی یہ خان صاب پر تنقید بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔اس لیے یہ یوتھیے بیچارے معصوم لوگ ہیں، یہ قابل رحم ہے ان کو کسی اور جمہوری پارٹی کے ورکرز سے کمپیئر نہیں کیا جا سکتا۔ بس ان کو انجوائے کرے اور جب وہ میچیور ہو جائیں گے تو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نون لیگ کے ایک رُکن قومی اسمبلی نے اپنی تقریر کے دوران ایک کہانی سنائی کہ ایک باپ نے اپنے تین بیٹوں کو ایک ایک سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایسی چیز خرید کر لاؤ جس سے کمرہ بھر جائے۔ایک بیٹا سو روپے کی کپاس خرید لایا مگر کمرہ نہ بھر سکا۔دوسرا بیٹاسو روپے کا بھوسہ خرید لایا مگر اس سے بھی کمرہ نہ بھر سکا۔۔تیسرا بیٹا بہت ذہین تھا وہ گیا اور ایک روپے کی موم بتی خرید لایا۔ اسے جلا کر کمرے میں رکھ دیا اس کی روشنی سے سارا کمرہ بھر گیا۔ اس کے بعد رُکن قومی اسمبلی نے کہا،ہمارے میاں صاحب تیسرے بیٹے کی طرح ہیں۔ جس دن سے وزیراعظم بنے ہیں ملک کو خوشحالی کی روشنی سے منور کر دیا۔۔اسمبلی ہال کی پچھلی نشستوں سے منتخب ایک رکن کی آواز آئی۔۔۔ وہ سب تو ٹھیک ہے باقی 99 روپے کہاں ہیں؟
رمضان المبارک کا آخری عشرہ اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے، پتہ نہیں اگلے سال ہم میں سے کتنوں کو یہ ماہ مقدس نصیب بھی ہوگا یا نہیں؟؟۔۔ہم بچپن میں اکثر اپنے ٹیچرز سے یہی سوال کیا کرتے تھے کہ ۔۔رمضان کو ’’مبارک‘‘ کیوں کہتے ہیں۔۔ جس پر ایک ہی جواب ملتا تھا کہ اس مہینے میں بے پناہ برکتیں، رحمتیں، نعمتیں ملتی ہیں، اسی لیے یہ مہینہ سب کے لیے ’’مبارک ‘‘ہوتا ہے۔۔لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے ہوگئے، ہم پہ رمضان کو مبارک کہنے کی بہت سی تشریحات سامنے آنے لگیں۔۔آج کل کے دور میں رمضان غریبوں کے لیے ’’مبارک‘‘ نہیں رہا۔۔یہ ہم نہیں ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ رمضان کا جوش و خروش تو صرف بچپن میں ہوا کرتا تھا اب اس کی جگہ بناوٹ نے لے لی ہے شاید۔۔لیکن اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔۔ہم اپنے لفظوں کو سنوارتے ہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور پھر، رمضان آگئے۔۔پھر سب مل جل کر رمضان’’گزارنے‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔۔کوئی یہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوچتا کہ جو رمضان گزرگئے، کیا ہم ان کا حق اس طرح ادا کرپائے جیسا کہ اس کا حق تھا۔۔رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس میں ہمارے ہر عمل کی ذمے داری ہم پر خود ہی عائد ہوتی ہے،کیونکہ شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔۔ورنہ گیارہ ماہ تو ہم شیطان پر لعن طعن کرکے کام چلالیتے ہیں۔۔اور ایسے ایسے کام کرجاتے ہیں کہ ایک بارتو شیطان بھی کہنے پر مجبورہوگیا کہ، یار جو کام تم نے کیا ہے وہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔رمضان کا مہینہ تھا، ایک سْنی مولوی مرزاغالب سے ملنے آئے، عصر کا وقت تھا۔ مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے کہا۔ ’’کیا جناب کا روزہ نہیں ہے؟‘‘۔۔مرزا نے کہا۔۔۔سْنی مسلمان ہوں، چار گھڑی دن رہے تو روزہ کھول دیتا ہوں۔۔ہمیں اپنے ایک دوست پر شک ہوا کہ اس کا روزہ نہیں، ہم نے اسے کہا، قسم کھاؤ، تمہارا روزہ ہے۔ ۔۔دوست ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔ واہ، قسم کھا کر میں اپنا روزہ توڑ لوں۔۔ایک مولوی صاحب کسی گاؤں کی مسجد میں درس دے رہے تھے۔۔کہنے لگا، روزوں کے بدلے جنت میں آپ کو اپنی ہی بیوی ملے گی۔ یہ سن کر پاس بیٹھے دیہاتی نے اپنے ساتھ والے کو کہنی ماری اور سرگوشی کی۔۔ پتر ہور رکھ روزے۔۔
رمضان المبارک کے اختتام پر اکثر لوگوں سے سنا ہوگا کہ یار رمضان میں تو اسمارٹ ہوگیا، وزن کم ہوگیا۔۔ کچھ لوگوں کو شکایات ہوتی ہے کہ رمضان میں زیادہ کھانے پینے سے وہ موٹاپے کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ رمضان المبارک میں جو پورے ماہ کے روزے رکھتا ہے وہ نہ صرف سلم و اسمارٹ ہوجاتا ہے بلکہ وہ کئی بیماریوں سے بچ بھی جاتا ہے۔۔ قدیم اطباء ا ور جدید میڈیکل سائنس کے ماہرین کے نزدیک دنیا کے تمام موذی اور خطرناک امراض سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔جب ہم روزے کے روحانی اور طبی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے رکھتے ہیں تو لازمی بات ہے۔ ہمیں اس کے جسمانی ثمرات بھی میسر آتے ہیں۔روزہ بدن انسانی میں پیدا شدہ زہریلے مادوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور روزہ دار کا جسم اضافی چربی اور فاسد مادوں سے پاک ہو جاتا ہے۔موٹاپے کا شکار خواتین و حضرات کے وزن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔کولیسٹرول اور کولیسٹرول کے نقصانات سے نجات ملتی ہے۔خون کا گاڑھا پن ختم ہو کر کئی دیگر امراضِ خون سے جڑے عوارض سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل پر قابو پانے کی ہمت اور سبیل پیدا ہوتی ہے۔ذیابیطس جیسے موذی مرض سے بھی نجات حاصل ہوجاتی ہے۔یورک ایسڈ کے عوارض سے جان چھو ٹ جاتی ہے۔سگر یٹ ،چائے اور شراب نوشی کی صحت دشمن عادات سے با آسانی پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے۔ روزہ رکھنے سے جسم کو فرحت وتازگی ملتی ہے۔ ذہنی امراض ڈپریشن،سٹریس اور اینگزائیٹی سے بھی نجات ملتی ہے، ضبطِ نفس، برداشت اور جنسی جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔روزے سے بے خوابی دور ہو کر پر سکون نیند میسر آتی ہے اور خواب آور ادویات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انتڑیاں اور معدہ، فاسد رطوبات سے پاک ہو جاتے ہیں۔ یوں ان کی کارکردگی اور افعال میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔ روزے سے ا نسانی خد وخال اور ڈیل ڈول میں خوبصورتی اور دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ چہرے کے کیل، مہاسوں اور گرمی دانوں سے نجات ملتی ہے۔روزہ رکھنے سے اعصابی اور جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زمین کے اوپر عاجزی کے ساتھ رہنا سیکھ لو ، زمین کے نیچے سکون سے رہ پاؤ گے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔