... loading ...
ہر فوجی کارروائی کو طاقت کا اظہار توکہہ سکتے ہیں لیکن ہرفوجی کارروائی فتح سے ہمکنار تونہیں دنیا کو غیر محفوظ بنانے کاالبتہ زینہ ضرورثابت ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کبھی براہ راست کارروائی اور کبھی کسی اور ذریعے سے دیگرممالک میں مداخلت کرتی ہیں جن کا مقصد زیر کرنا یا پھر حریف قوت کے مفاد پر کاری ضرب لگانا ہوتا ہے مگر تباہ کُن نئے ہتھیاروں کے تجربات سے طاقت کا حصول اور حریف کو ہراساں کرنا ایسی کڑیاں ہیں جن سے وقت کے ساتھ لڑنے کے میدان وسعت اختیارگئے ہیں اور طاقت کا اظہار صرف فوجی کارروائی تک محدود نہیں رہا بلکہ مفادات کے تحفظ اور طاقت کے اظہارکا پیغام دیگر زرائع سے دینے کا رجحان بڑھنے لگا ہے ۔ روس کی افغانستان پر چڑھائی کے دوران امریکا نے جارح قوت سے براہ راست ٹکرانے کی بجائے نہ صرف دوربیٹھ کر تباہ کُن معاشی حملے کیے بلکہ روسی فوجوں کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے برسرِ پیکار قوتوں کی مالی ،تکنیکی مدد کرنے کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی یقینی بناکر حریف طاقت کوزیر کیا ۔اسی وجہ سے افغانستان جیسے کمزور ملک نے روسی فوجوں کو شکست دی ا جس کے نتیجے میں اُس کا عالمی کرداراتنا متاثر ہواکہ عالمی بساط کاایک لاغر کھلاڑی تصورکرلیاگیااب پوٹن ملک کا عالمی کردار بہتر بنانے کی تگ ودو میں اپنے اسپائی تجربات کو زہن میں رکھتے ہوئے متحرک ہیں اصل میں عالمی طاقتوں کی پیش قدمی لازمی نہیں کہ خطرات کی وجہ سے ہی ہو اکثرصرف طاقت کا اظہار ہوتی ہیں مثال کے طور پر امریکا سے کئی گُنا چھوٹے ممالک یوگوسلاویہ اور لیبیا کا فاصلہ ہزاروں کلو میٹرپر محیط ہے یہ کسی صورت کسی عالمی طاقت کی سلامتی کو خطرہ نہیں بن سکتے پھر بھی دونوں امریکی قہرو غضب کا شکارہوئے اورعالمی طاقت نے ہزاروں کلومیٹر دورجاکراِ ن پر بم برسائے اِس بمباری کو طاقت کے اظہار کے سوا کوئی اور لقب نہیں دے سکتے مگر طاقت کا یہ اظہار عالمی امن کے لیے ایک مہیب خطرہ ہے یہی خطرہ دنیا میں غربت و افلاس کے فروغ اور غیر محفوظ بنانے کا باعث ہے۔
روس اور امریکا میں ہتھیارسازی کامقابلہ کوئی راز نہیں لیکن رواں دہائی کے آغازپر یہ مقابلہ جنون کی صورت اختیارکرنے لگاہے جس سے جارح قوتوں کو حملہ کرنے اور کمزور اقوام کو تاراج کرنے کی حوصلہ افزائی سے دنیا کولاحق خطرات میں غیر معمولی اضافہ ہوچکاہے عالمی طاقتیں براہ راست ٹکرائو سے خود اجتناب اور کمزور اقوام کو میدانِ جنگ کا ایندھن بنانے کی کوشش کرتی ہیں روس اور افغان جنگ میں امریکا نے پاکستان کو ساتھ ملاکر روس کو کمزور اور محدودکرنے کا مقصد حاصل کیا اور اب ایک بارپھر ویسا ہی مقصد مغربی ممالک کو ساتھ ملاکر یوکرین میں حاصل کرنے کی تگ ودومیںہے حالانکہ عیاں حقیقت یہ ہے کہ اُسے یوکرین جنگ بند کرانے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ روس کو یہاں مصروف رکھ کر کمزورکرنے سے غرض ہے روس سے خوفزدہ یورپ اِس امریکی خواہش کی تکمیل میں حصہ داربن رہاہے مگر ایساکرنے سے یورپ توانائی کے بحران کے دہانے پر آگیا ہے وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی تیاری اور توانائی کے بحران پر قابوپانے پر خرچ کرنے کی وجہ سے یورپ میں معاشی بحران جنم لے سکتا سے پھربھی امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کو طاقت کے اظہار میں ثابت قدم رکھنے کے لیے کوشاں ہے پولینڈ،جرمنی و دیگر یورپی ممالک یوکرین کے مزاحمت کاروں کو ہتھیاروں کی سپلائی میں مددگاربن کرعملی طورپر میدانِ جنگ کا حصہ بن چکے لیکن تنازعات کو طول دینا دراصل دنیا کومزید خطرات کے حوالے کرنا ہے کیونکہ روس باورکراچکاکہ یوکرین کے سواوہ کسی اور جگہ فوجی کاروائی کاکوئی اِرادہ نہیں رکھتا وہ یوکرین میں جاری کاروائی کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے خیر فوجی کاروائی کوجو بھی نام دیا جائے کوئی امن پسند تائید نہیں کر سکتا بلکہ پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنا ہی پُرامن دنیا کی بنیادبن سکتا ہے۔
دوماہ قبل 24 فروری کی صبح یوکرین پر روسی حملے کے بعد یورپ اور ماسکو کے درمیان دوریوںاور کشیدگی میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یورپ کو توانائی کا بحران لپیٹ میں لے سکتا ہے تو روسی معیشت کو لاحق خطرات میں اضافہ ممکن ہے روس نے تیل اور گیس کے خریداروں پر ڈالرکی بجائے روبل میں ادائیگی کی شرط رکھ کراپنی کرنسی کی گرتی قدر کو سہارہ دینے کی کوشش کی ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کو سپلائی منقطع کرنے کا اِرادہ ظاہرکیا ہے گزشتہ ماہ مارچ سے عملی طور پر فیصلے پرعملدرآمدبھی ہونے لگا ہے جس سے ممکن ہے روبل کی گرتی قدر کو سہارہ مل جائے مگر ایسے مغربی ممالک جو توانائی کے حصول کے لئے روس پر انحصار کرتے ہیں امریکا کی طرف مائل ہوسکتے ہیں لیکن توانائی کی رسد کی لاگت بڑھنے سے یورپ میںگرانی بڑھنے کے ساتھ ایندھن کی قلت بھی ہو سکتی ہے جس کا حل کمزور اقوام کو جنگ کا ایندھن بنانے جیسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا اوراہتھیاروں کے انبار لگا کر دنیا کو غیر محفوظ بنانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہے بظاہر مستقبل قریب میں ایسا ہونا بعید از قیاس ہے ہتھیاروں کے نت نئے تجربات اور وسائل کابڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر صرف ہونا اِس امرکی دلیل ہے کہ ماضی کی طرح خونریز لڑائیوں کے امکانات میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی۔
ترکی اور بھارت نے امریکی بلاک کا حصہ ہونے کے باوجودروسی میزائل سسٹم خرید کر یہ باور کرادیا ہے کہ دوستی اپنی جگہ مگر طاقت کا حصول اولیں ترجیح اوراپنی جغرافیائی سرحدوںکا تحفظ اُن کے لیے زیادہ مقدم ہے روس نے حال ہی میں ایک تباہ کُن سمارٹ بیلسٹک میزائل کے تجربے سے امریکا اور اُس کے مغربی اتحادیوں کو چونکانے کے ساتھ پریشان کر دیا ہے مزیدیہ کہ اگلے مرحلے میں اب وہ موسم خزاں کے دواران اِس میزائل کو سائبیریا کے علاقے کراسنویارسک میں عسکری یونٹ کے ساتھ نصب کرنے کی تیاریوں میں ہے ماسکو سے یہ مقام مشرق میں تین ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ دمتری ریجوزین کہتے ہیں برتر ہتھیار کا کامیاب تجربہ نہ صرف ایک تاریخی واقعہ ہے بلکہ اگلی تین چار دہائیوں تک روس کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی امن کا ضامن ہوگا اِس میزائل کا وزن دوسوٹن ہے جو بیک وقت دس نیوکلیئروارہیڈ لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ سمارٹ میزائل مغربی ممالک کے ساتھ ہزاروں میل دور امریکا تک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے یوکرین میں فوجی کاروائی کا آغاز کرنے کے بعد روسی صدر ولادیمیرپوٹن واضح لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ کسی ملک نے اُن کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو اِس کے ایسے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے جو مغرب نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے پھر بھی یوکرین کو طویل عرصہ کے لیے میدانِ جنگ بنائے رکھنے کے منصوبے پر کام جاری ہے یہ دنیا کے غیر محفوظ ہونے کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ روس،امریکا ،یورپ اور دیگر عالمی طاقتیں تنازعات بڑھانے کی بجائے دنیا سے غربت جیسے مسائل ختم کرنے پر توجہ دیں؟۔
دنیا میں فوجی اخراجات بیس ہزار ارب ڈالر سے زائد ہو چکے ہیں ہتھیاروں کی عالمی خریدوفروخت پر نظررکھنے والے اِدارے سویڈش تھنک ٹینک انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ(سپری)کی حالیہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 2021کے دوران امریکا ،چین اور بھارت دنیا بھر کے مجموعی فوجی اخراجات کا باسٹھ فیصد خرچ کرنے کے ساتھ پہلے تین ممالک ہیں اِن کے بعد روس اور برطانیا کانمبر آتاہے اصل میں امریکا نے تحقیق اور ترقی کے اخرجات میں کمی لاکر جدید ترین ہتھیاربنانے اور ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ مرکوزکررکھی ہے جبکہ چین نے مزید آگے بڑھتے ہوئے 2025تک خلا میں دفاعی نظام نصب کرنے کا علان کردیا ہے جوبظاہر زمین کی طرف آنے والے سیارچوں ،شہابیوں اور دیگر اجرامِ فلکی کو قریب آنے سے قبل ہی نشاندہی کرنے اور حملے سے سمت تبدیل کرنے میں مددگارہو گا لیکن ماہرین کویقین کی حدتک خدشہ ہے کہ اِس کارُخ جلد ہی فوجی مقاصد کی طرف موڑ دیا جائے گا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (سی این ایس اے)کے نائب سربراہ وویانہوا نے 2025میں تجرباتی بنیادوں پر ایک شہابیے کو حملے کے دوران تباہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے یہ بڑھتی فوجی تیاریاں مسائل اور تنازعات بڑھانے کا موجب تو بن سکتی ہیں دنیا کو محفوظ بنانے میں مد د نہیں دے سکتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔