وجود

... loading ...

وجود

بڑھتے فوجی اخراجات اور غیر محفوظ دنیا

بدھ 27 اپریل 2022 بڑھتے فوجی اخراجات اور غیر محفوظ دنیا

ہر فوجی کارروائی کو طاقت کا اظہار توکہہ سکتے ہیں لیکن ہرفوجی کارروائی فتح سے ہمکنار تونہیں دنیا کو غیر محفوظ بنانے کاالبتہ زینہ ضرورثابت ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کبھی براہ راست کارروائی اور کبھی کسی اور ذریعے سے دیگرممالک میں مداخلت کرتی ہیں جن کا مقصد زیر کرنا یا پھر حریف قوت کے مفاد پر کاری ضرب لگانا ہوتا ہے مگر تباہ کُن نئے ہتھیاروں کے تجربات سے طاقت کا حصول اور حریف کو ہراساں کرنا ایسی کڑیاں ہیں جن سے وقت کے ساتھ لڑنے کے میدان وسعت اختیارگئے ہیں اور طاقت کا اظہار صرف فوجی کارروائی تک محدود نہیں رہا بلکہ مفادات کے تحفظ اور طاقت کے اظہارکا پیغام دیگر زرائع سے دینے کا رجحان بڑھنے لگا ہے ۔ روس کی افغانستان پر چڑھائی کے دوران امریکا نے جارح قوت سے براہ راست ٹکرانے کی بجائے نہ صرف دوربیٹھ کر تباہ کُن معاشی حملے کیے بلکہ روسی فوجوں کے انخلا کو یقینی بنانے کے لیے برسرِ پیکار قوتوں کی مالی ،تکنیکی مدد کرنے کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی یقینی بناکر حریف طاقت کوزیر کیا ۔اسی وجہ سے افغانستان جیسے کمزور ملک نے روسی فوجوں کو شکست دی ا جس کے نتیجے میں اُس کا عالمی کرداراتنا متاثر ہواکہ عالمی بساط کاایک لاغر کھلاڑی تصورکرلیاگیااب پوٹن ملک کا عالمی کردار بہتر بنانے کی تگ ودو میں اپنے اسپائی تجربات کو زہن میں رکھتے ہوئے متحرک ہیں اصل میں عالمی طاقتوں کی پیش قدمی لازمی نہیں کہ خطرات کی وجہ سے ہی ہو اکثرصرف طاقت کا اظہار ہوتی ہیں مثال کے طور پر امریکا سے کئی گُنا چھوٹے ممالک یوگوسلاویہ اور لیبیا کا فاصلہ ہزاروں کلو میٹرپر محیط ہے یہ کسی صورت کسی عالمی طاقت کی سلامتی کو خطرہ نہیں بن سکتے پھر بھی دونوں امریکی قہرو غضب کا شکارہوئے اورعالمی طاقت نے ہزاروں کلومیٹر دورجاکراِ ن پر بم برسائے اِس بمباری کو طاقت کے اظہار کے سوا کوئی اور لقب نہیں دے سکتے مگر طاقت کا یہ اظہار عالمی امن کے لیے ایک مہیب خطرہ ہے یہی خطرہ دنیا میں غربت و افلاس کے فروغ اور غیر محفوظ بنانے کا باعث ہے۔
روس اور امریکا میں ہتھیارسازی کامقابلہ کوئی راز نہیں لیکن رواں دہائی کے آغازپر یہ مقابلہ جنون کی صورت اختیارکرنے لگاہے جس سے جارح قوتوں کو حملہ کرنے اور کمزور اقوام کو تاراج کرنے کی حوصلہ افزائی سے دنیا کولاحق خطرات میں غیر معمولی اضافہ ہوچکاہے عالمی طاقتیں براہ راست ٹکرائو سے خود اجتناب اور کمزور اقوام کو میدانِ جنگ کا ایندھن بنانے کی کوشش کرتی ہیں روس اور افغان جنگ میں امریکا نے پاکستان کو ساتھ ملاکر روس کو کمزور اور محدودکرنے کا مقصد حاصل کیا اور اب ایک بارپھر ویسا ہی مقصد مغربی ممالک کو ساتھ ملاکر یوکرین میں حاصل کرنے کی تگ ودومیںہے حالانکہ عیاں حقیقت یہ ہے کہ اُسے یوکرین جنگ بند کرانے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ روس کو یہاں مصروف رکھ کر کمزورکرنے سے غرض ہے روس سے خوفزدہ یورپ اِس امریکی خواہش کی تکمیل میں حصہ داربن رہاہے مگر ایساکرنے سے یورپ توانائی کے بحران کے دہانے پر آگیا ہے وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی تیاری اور توانائی کے بحران پر قابوپانے پر خرچ کرنے کی وجہ سے یورپ میں معاشی بحران جنم لے سکتا سے پھربھی امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کو طاقت کے اظہار میں ثابت قدم رکھنے کے لیے کوشاں ہے پولینڈ،جرمنی و دیگر یورپی ممالک یوکرین کے مزاحمت کاروں کو ہتھیاروں کی سپلائی میں مددگاربن کرعملی طورپر میدانِ جنگ کا حصہ بن چکے لیکن تنازعات کو طول دینا دراصل دنیا کومزید خطرات کے حوالے کرنا ہے کیونکہ روس باورکراچکاکہ یوکرین کے سواوہ کسی اور جگہ فوجی کاروائی کاکوئی اِرادہ نہیں رکھتا وہ یوکرین میں جاری کاروائی کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے خیر فوجی کاروائی کوجو بھی نام دیا جائے کوئی امن پسند تائید نہیں کر سکتا بلکہ پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنا ہی پُرامن دنیا کی بنیادبن سکتا ہے۔
دوماہ قبل 24 فروری کی صبح یوکرین پر روسی حملے کے بعد یورپ اور ماسکو کے درمیان دوریوںاور کشیدگی میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یورپ کو توانائی کا بحران لپیٹ میں لے سکتا ہے تو روسی معیشت کو لاحق خطرات میں اضافہ ممکن ہے روس نے تیل اور گیس کے خریداروں پر ڈالرکی بجائے روبل میں ادائیگی کی شرط رکھ کراپنی کرنسی کی گرتی قدر کو سہارہ دینے کی کوشش کی ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کو سپلائی منقطع کرنے کا اِرادہ ظاہرکیا ہے گزشتہ ماہ مارچ سے عملی طور پر فیصلے پرعملدرآمدبھی ہونے لگا ہے جس سے ممکن ہے روبل کی گرتی قدر کو سہارہ مل جائے مگر ایسے مغربی ممالک جو توانائی کے حصول کے لئے روس پر انحصار کرتے ہیں امریکا کی طرف مائل ہوسکتے ہیں لیکن توانائی کی رسد کی لاگت بڑھنے سے یورپ میںگرانی بڑھنے کے ساتھ ایندھن کی قلت بھی ہو سکتی ہے جس کا حل کمزور اقوام کو جنگ کا ایندھن بنانے جیسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا اوراہتھیاروں کے انبار لگا کر دنیا کو غیر محفوظ بنانے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہے بظاہر مستقبل قریب میں ایسا ہونا بعید از قیاس ہے ہتھیاروں کے نت نئے تجربات اور وسائل کابڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر صرف ہونا اِس امرکی دلیل ہے کہ ماضی کی طرح خونریز لڑائیوں کے امکانات میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی۔
ترکی اور بھارت نے امریکی بلاک کا حصہ ہونے کے باوجودروسی میزائل سسٹم خرید کر یہ باور کرادیا ہے کہ دوستی اپنی جگہ مگر طاقت کا حصول اولیں ترجیح اوراپنی جغرافیائی سرحدوںکا تحفظ اُن کے لیے زیادہ مقدم ہے روس نے حال ہی میں ایک تباہ کُن سمارٹ بیلسٹک میزائل کے تجربے سے امریکا اور اُس کے مغربی اتحادیوں کو چونکانے کے ساتھ پریشان کر دیا ہے مزیدیہ کہ اگلے مرحلے میں اب وہ موسم خزاں کے دواران اِس میزائل کو سائبیریا کے علاقے کراسنویارسک میں عسکری یونٹ کے ساتھ نصب کرنے کی تیاریوں میں ہے ماسکو سے یہ مقام مشرق میں تین ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے روسی خلائی ایجنسی کے سربراہ دمتری ریجوزین کہتے ہیں برتر ہتھیار کا کامیاب تجربہ نہ صرف ایک تاریخی واقعہ ہے بلکہ اگلی تین چار دہائیوں تک روس کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی امن کا ضامن ہوگا اِس میزائل کا وزن دوسوٹن ہے جو بیک وقت دس نیوکلیئروارہیڈ لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ سمارٹ میزائل مغربی ممالک کے ساتھ ہزاروں میل دور امریکا تک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے یوکرین میں فوجی کاروائی کا آغاز کرنے کے بعد روسی صدر ولادیمیرپوٹن واضح لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ کسی ملک نے اُن کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو اِس کے ایسے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے جو مغرب نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے پھر بھی یوکرین کو طویل عرصہ کے لیے میدانِ جنگ بنائے رکھنے کے منصوبے پر کام جاری ہے یہ دنیا کے غیر محفوظ ہونے کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ روس،امریکا ،یورپ اور دیگر عالمی طاقتیں تنازعات بڑھانے کی بجائے دنیا سے غربت جیسے مسائل ختم کرنے پر توجہ دیں؟۔
دنیا میں فوجی اخراجات بیس ہزار ارب ڈالر سے زائد ہو چکے ہیں ہتھیاروں کی عالمی خریدوفروخت پر نظررکھنے والے اِدارے سویڈش تھنک ٹینک انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ(سپری)کی حالیہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 2021کے دوران امریکا ،چین اور بھارت دنیا بھر کے مجموعی فوجی اخراجات کا باسٹھ فیصد خرچ کرنے کے ساتھ پہلے تین ممالک ہیں اِن کے بعد روس اور برطانیا کانمبر آتاہے اصل میں امریکا نے تحقیق اور ترقی کے اخرجات میں کمی لاکر جدید ترین ہتھیاربنانے اور ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ مرکوزکررکھی ہے جبکہ چین نے مزید آگے بڑھتے ہوئے 2025تک خلا میں دفاعی نظام نصب کرنے کا علان کردیا ہے جوبظاہر زمین کی طرف آنے والے سیارچوں ،شہابیوں اور دیگر اجرامِ فلکی کو قریب آنے سے قبل ہی نشاندہی کرنے اور حملے سے سمت تبدیل کرنے میں مددگارہو گا لیکن ماہرین کویقین کی حدتک خدشہ ہے کہ اِس کارُخ جلد ہی فوجی مقاصد کی طرف موڑ دیا جائے گا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (سی این ایس اے)کے نائب سربراہ وویانہوا نے 2025میں تجرباتی بنیادوں پر ایک شہابیے کو حملے کے دوران تباہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے یہ بڑھتی فوجی تیاریاں مسائل اور تنازعات بڑھانے کا موجب تو بن سکتی ہیں دنیا کو محفوظ بنانے میں مد د نہیں دے سکتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر