وجود

... loading ...

وجود

بھارت کی نئی سفارت کاری اور پاکستانی بحران

منگل 26 اپریل 2022 بھارت کی نئی سفارت کاری اور پاکستانی بحران

آج کل
۔۔۔۔
رفیق پٹیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو کرین اورروس کے درمیان جنگ سے اس خطے پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس میں ایک اہم بات امریکا اور بھارت کی مزید قربت ہے۔ حال ہی میں دونوں ملکوں کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ چند روز قبل جاری ہونے والا ایک اعلامیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پاکستان کو کہاگیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ بھارت کو یوکرین کی اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کا اس لیے بھی موقع ملاکہ چین کے عالمی اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے بھارت پہلے ہی سے امریکا کے بہت زیادہ قریب تھا۔ امریکا بھارت کی اندرونی سیاست پر بھی کسی حد تک اثر اندازہے ۔اس کے باوجودبھارت نے اپنی نئی سفارت کاری سے روس سے بھی اپنے تعلقات کو ازسر نو استوار کیا ۔شاید یہ امریکا کے لیے پیغام تھا جس کی وجہ سے امریکا اور بھارت میں مزید قربت پیدا ہو گئی۔
دوسری جانب پاکستان میں روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس سے پاکستان میں آئینی طریقہ کار سے حکومت تبدیل ہو چکی ہے جسے توقع کے برعکس مقبولیت نہ مل سکی اور احتجاج کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے اور اس کی سفارت کاری بھی منجمد ہوکر رہ گئی ہے ،حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اس سے چین نے بھی بھارت سے اپنے تنازعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے موجودہ سر د مہری کے خاتمے کے لیے اعلیٰ سطحی بات چیت کی کوشش شروع کردی ہے۔ حال ہی میں چین اور بھارت نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں موسمیات کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں کوئلے کے ایندھن مین کمی پر اتفاق کیا لیکن فی الحال یہ تعلقات اس لیے بہتر نہ ہو سکے کہ پاکستان میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میںچین نے کشمیر کی قرارداد کی حمایت کی تھی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت چین سرحدی تنازعات کے خاتمے کے اقدامات سست روی کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے چینی وزیر خارجہ وینگ یی کے دورہ بھارت کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات نہ ہوسکی۔ بھارت نے اس بات کا اندازا کرلیا کہ یوکرین اور روس کی جنگ کے بعد امریکا، روس اور چین بھارت کے ساتھ مراسم بڑھا کر اپنے اپنے موقف کے قریب لانا چاہتے ہیں لیکن بھارت مکمل طور پر روس سے اس وقت تک دور رہنا نہیں چاہتا جب تک اسے یہ اندازا نہیں ہوجاتا کہ وہ روس سے دور ہوکر بھی خطے میں اپنا اثرو روسوخ بڑھا سکتا ہے اور ایک بڑی قوت کے طور پر کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے کسی مقام تک پہنچنے کے لیے وہ مسلسل کوشش کرتا رہاہے جب بھی حالات موافق ہوتے ہیں، وہ اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد شہباز شریف کی نئی حکومت کے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا امکان ہے اور اس سے وہ اس بات کی ضرور کوشش کرے گا کہ اس کے علاقائی اثرو رسوخ میں اضافہ ہو ، افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد بھارت تنہائی کاشکارتھا، اب اچانک یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے موقع پر بھارت نے ایک مرتبہ پھر اپنی سفارت کاری کے ذریعے امریکا اور مغربی ملکوں سے مزید قربت کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی بھی ہوئی، صرف مارچ کے مہینے میں امریکا،روس،چین، برطانیہ ، کنیڈا، جاپان،آسٹریلیا،سعودی عرب ، یو نان،جرمنی،سری لنکااور نیپال کے اعلیٰ سطحی وفود نے بھارت کا دورہ کیا۔ بھارت ان حالات کوخطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔ اس میں پاکستان کو زیر اثر لانا بھی اس کا ایک ہدف ہے جس کی وہ دیرینہ خواہش رکھتا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کہ پاکستان کی نئی حکومت کے قیام سے نئے حالات پیدا ہو گئے ہیں جس سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے پاکستان کا اندرونی استحکام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ طاقتور اداروں پر بھی دبائو موجود ہے۔ عوامی حلقوں میں بے چینی ،مایوسی اور غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے نظام پر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کا فارمولا نظر نہیں آتا۔ حالانکہ حالیہ تبدیلی آئینی طریقہ کار کے ذریعے عمل میں آئی ہے ۔اس کے باوجود نئی مخلوط حکومت کی ساکھ ر وزبروز کمزور ہورہی ہے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان موجودہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اسے امپورٹڈ حکومت کا نام دے دیا ہے اور وہ مسلسل الزام لگا رہے ہیں ،ان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت گرایا گیا ہے۔ ان کے اراکین اسمبلی کو بیس سے پچیس کروڑ میں خرید کر یا اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر خریدا گیا اور ان کے اتحادیو ں کو بھی پرکشش عہدوں کی پیش کش کی گئی ہے ۔عمران خان ایک عوامی مہم چلانے کی تیاری کررہے ہیں جبکہ پاکستان کی مقتد ر قوتیں انہیں نظام میں واپس لے کر آنا چاہتی ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت میں اچانک نا قابل یقین حد تک بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور اس کے سدباب کے اقدامات سے وہ اور زیادہ مقبول ہورہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت نے ان کے الزامات کا جواب دینے کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کے بجائے قومی اسمبلی میں کسی بل کی منظوری کے موقع پرناکامی کی صورت میں صدر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہتے تو صرف ایک اتحادی کے باہر جانے سے ان کی حکومت ختم ہوجا تی اور اس طرح سے وہ مزاحمت کی ایسی حکمت عملی نہ اپنا سکتے تھے جیسا عدم اعتماد کے موقع پر انہوں نے کیا ۔
موجودہ حالات میں اندرونی سطح پر بے چینی خطرناک حدود کو چھو رہی ہے ۔ایسی صورت میں کسی قابل عمل حل کی ضرورت ہے موجودہ حکومتی اتحاد میں بھی مسائل ہیں ۔ صدارت کا عہدہ آصف زرداری چاہتے ہیں جس کے لیے وہ راہ ہموار کر سکتے ہیں وہ اراکین سینیٹ اور اراکین قومی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اس عہدے کی خواہش مولانا فضل الرحمان کی بھی ہے ۔شاید انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی صدارت کے عہدے ساتھ بلاول بھٹو کے لیے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر خارجہ کا عہد ہ چاہتی ہے ۔امکا ن یہی ہے کہ یہ عہدہ انہیںدینا مسلم لیگ ن کی مجبوری ہے۔ ایک نیا مسئلہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی کابھی ہے جس کے بعد حکومتی اتحاد کی مکمل گرفت نواز شریف کے پاس ہوگی اور رفتہ رفتہ حکومت کے تمام مراکز کو نواز شریف اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ وہ مستقبل میں مریم نواز کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایسی صورتحال کو مشکل سے قبول کرے گی۔ عید کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی تحریک کو عملی شکل دیں گے انہیں روکنے کی کوشش سے حکمراں اتحاد کو نقصان ہو سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر