... loading ...
آج کل
۔۔۔۔
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو کرین اورروس کے درمیان جنگ سے اس خطے پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس میں ایک اہم بات امریکا اور بھارت کی مزید قربت ہے۔ حال ہی میں دونوں ملکوں کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ چند روز قبل جاری ہونے والا ایک اعلامیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں پاکستان کو کہاگیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ بھارت کو یوکرین کی اس جنگ سے فائدہ اٹھانے کا اس لیے بھی موقع ملاکہ چین کے عالمی اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے بھارت پہلے ہی سے امریکا کے بہت زیادہ قریب تھا۔ امریکا بھارت کی اندرونی سیاست پر بھی کسی حد تک اثر اندازہے ۔اس کے باوجودبھارت نے اپنی نئی سفارت کاری سے روس سے بھی اپنے تعلقات کو ازسر نو استوار کیا ۔شاید یہ امریکا کے لیے پیغام تھا جس کی وجہ سے امریکا اور بھارت میں مزید قربت پیدا ہو گئی۔
دوسری جانب پاکستان میں روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس سے پاکستان میں آئینی طریقہ کار سے حکومت تبدیل ہو چکی ہے جسے توقع کے برعکس مقبولیت نہ مل سکی اور احتجاج کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے اور اس کی سفارت کاری بھی منجمد ہوکر رہ گئی ہے ،حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اس سے چین نے بھی بھارت سے اپنے تنازعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے موجودہ سر د مہری کے خاتمے کے لیے اعلیٰ سطحی بات چیت کی کوشش شروع کردی ہے۔ حال ہی میں چین اور بھارت نے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں موسمیات کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں کوئلے کے ایندھن مین کمی پر اتفاق کیا لیکن فی الحال یہ تعلقات اس لیے بہتر نہ ہو سکے کہ پاکستان میں ہونے والی اسلامی کانفرنس میںچین نے کشمیر کی قرارداد کی حمایت کی تھی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت چین سرحدی تنازعات کے خاتمے کے اقدامات سست روی کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے چینی وزیر خارجہ وینگ یی کے دورہ بھارت کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات نہ ہوسکی۔ بھارت نے اس بات کا اندازا کرلیا کہ یوکرین اور روس کی جنگ کے بعد امریکا، روس اور چین بھارت کے ساتھ مراسم بڑھا کر اپنے اپنے موقف کے قریب لانا چاہتے ہیں لیکن بھارت مکمل طور پر روس سے اس وقت تک دور رہنا نہیں چاہتا جب تک اسے یہ اندازا نہیں ہوجاتا کہ وہ روس سے دور ہوکر بھی خطے میں اپنا اثرو روسوخ بڑھا سکتا ہے اور ایک بڑی قوت کے طور پر کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے کسی مقام تک پہنچنے کے لیے وہ مسلسل کوشش کرتا رہاہے جب بھی حالات موافق ہوتے ہیں، وہ اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد شہباز شریف کی نئی حکومت کے ساتھ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا امکان ہے اور اس سے وہ اس بات کی ضرور کوشش کرے گا کہ اس کے علاقائی اثرو رسوخ میں اضافہ ہو ، افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد بھارت تنہائی کاشکارتھا، اب اچانک یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے موقع پر بھارت نے ایک مرتبہ پھر اپنی سفارت کاری کے ذریعے امریکا اور مغربی ملکوں سے مزید قربت کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی بھی ہوئی، صرف مارچ کے مہینے میں امریکا،روس،چین، برطانیہ ، کنیڈا، جاپان،آسٹریلیا،سعودی عرب ، یو نان،جرمنی،سری لنکااور نیپال کے اعلیٰ سطحی وفود نے بھارت کا دورہ کیا۔ بھارت ان حالات کوخطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔ اس میں پاکستان کو زیر اثر لانا بھی اس کا ایک ہدف ہے جس کی وہ دیرینہ خواہش رکھتا ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کہ پاکستان کی نئی حکومت کے قیام سے نئے حالات پیدا ہو گئے ہیں جس سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے پاکستان کا اندرونی استحکام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ طاقتور اداروں پر بھی دبائو موجود ہے۔ عوامی حلقوں میں بے چینی ،مایوسی اور غم وغصہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے نظام پر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کا فارمولا نظر نہیں آتا۔ حالانکہ حالیہ تبدیلی آئینی طریقہ کار کے ذریعے عمل میں آئی ہے ۔اس کے باوجود نئی مخلوط حکومت کی ساکھ ر وزبروز کمزور ہورہی ہے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان موجودہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اسے امپورٹڈ حکومت کا نام دے دیا ہے اور وہ مسلسل الزام لگا رہے ہیں ،ان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت گرایا گیا ہے۔ ان کے اراکین اسمبلی کو بیس سے پچیس کروڑ میں خرید کر یا اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر خریدا گیا اور ان کے اتحادیو ں کو بھی پرکشش عہدوں کی پیش کش کی گئی ہے ۔عمران خان ایک عوامی مہم چلانے کی تیاری کررہے ہیں جبکہ پاکستان کی مقتد ر قوتیں انہیں نظام میں واپس لے کر آنا چاہتی ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت میں اچانک نا قابل یقین حد تک بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور اس کے سدباب کے اقدامات سے وہ اور زیادہ مقبول ہورہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت نے ان کے الزامات کا جواب دینے کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کے بجائے قومی اسمبلی میں کسی بل کی منظوری کے موقع پرناکامی کی صورت میں صدر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہتے تو صرف ایک اتحادی کے باہر جانے سے ان کی حکومت ختم ہوجا تی اور اس طرح سے وہ مزاحمت کی ایسی حکمت عملی نہ اپنا سکتے تھے جیسا عدم اعتماد کے موقع پر انہوں نے کیا ۔
موجودہ حالات میں اندرونی سطح پر بے چینی خطرناک حدود کو چھو رہی ہے ۔ایسی صورت میں کسی قابل عمل حل کی ضرورت ہے موجودہ حکومتی اتحاد میں بھی مسائل ہیں ۔ صدارت کا عہدہ آصف زرداری چاہتے ہیں جس کے لیے وہ راہ ہموار کر سکتے ہیں وہ اراکین سینیٹ اور اراکین قومی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اس عہدے کی خواہش مولانا فضل الرحمان کی بھی ہے ۔شاید انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی صدارت کے عہدے ساتھ بلاول بھٹو کے لیے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر خارجہ کا عہد ہ چاہتی ہے ۔امکا ن یہی ہے کہ یہ عہدہ انہیںدینا مسلم لیگ ن کی مجبوری ہے۔ ایک نیا مسئلہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی کابھی ہے جس کے بعد حکومتی اتحاد کی مکمل گرفت نواز شریف کے پاس ہوگی اور رفتہ رفتہ حکومت کے تمام مراکز کو نواز شریف اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ وہ مستقبل میں مریم نواز کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایسی صورتحال کو مشکل سے قبول کرے گی۔ عید کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی تحریک کو عملی شکل دیں گے انہیں روکنے کی کوشش سے حکمراں اتحاد کو نقصان ہو سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔