... loading ...
کہا جاتا ہے اگر کسی نے دنیا میں جنت دیکھنی ہو وہ کشمیر کی وادی کا نظارہ کرے اُسے اس بات کی صدقت پر یقین آ جائے گا ۔کشمیر ایک طویل عرصہ سے بھارتی سامراج کے ظالم و ستم کی جیتی جاگتی تصویربن کر رہ گیا ہے اور کشمیری دنیا کے منضوں کی بے بسی کا ماتم کر ہے ہیں او اقوام متحدہ کو خود اپنی قراردادوں کا پاس نہیں جس میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دے۔تاریخ اعتبار سے شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کے تقرر کردہ گورنر عماد الدین کو (انگریزوں نے جو تا جر کے روپ میں ہندوستان پر قابض ہوگئے تھے)ہٹا دیا اور اس جنت نظیر وادی کو 1826ء میں ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا یہ وہ شخص تھا جو منگلا میں چوکیدار ی کرتا تھا مگر اپنی سیاسی چالوں اور ریشہ دوانیوں سے سکھوں کا وزیر بن گیا لارڈ جان لارنسن کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ گلاب سنگھ بڑا ظالم آدمی تھا جس کے متعلق کوئی بھی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے کھبی اسکی تعریف کی ہو۔ان نہ جانے کون سے حالات یا وجوہات تھیں کہ کشمیر کو راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوںفروخت کر دیا گیا ۔ایک انگریز ہربرٹ ایڈورذ جس نے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بہت وقت گزار ا تھا اس کے مطابق سنگھ دنیاکی سب سے بد ترین مخلوق ہے اور جھوٹا او بد کردار آدمی ہے جس نے بحث نشین ہوتے ہی کشمیریوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا،کشمیری دوشیزائوں کی عصمت دری اور گھروں میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ۔اس دن سے آج تک کشمیری اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں قیام ِپاکستان کیلیے تحریک چلی تو اس میں کشمیری مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جانی و مالی قربانیاں دی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے سے وادی کشمیر بھی گونج اٹھی 17جولائی کو جب برطانوی ہائوس آف لارڈز نے آزادی ہند کا قانون منظور کیا تو جموں کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے متفقہ طور پر الحاق پاکستان کی قردار منظور کر لی تھی برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کا جو فارمولا طے کیا تھا اس کی رو سے جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی باہمی سازش کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا مسلم اکثریتی علاقہ گورد اس پور جو کشمیرکو ملانے کا واحد راستہ تھا انڈیا سے جموں کشمیر کو ملانے کا وہ بھارت کے حوالے کر دیا گیا مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان مسلسل ستر برس سے بھارت کی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اس کے لیے انہوں نے بے شمار شہداء کی قربانیاں دی ہیں بے شمار خواتین نے اپنے شوہر اور اپنے بچے اس تحریک آزادی کے لیے قربان کر دئیے ہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق خودارایت نہیں ملا جو ان کا حق ہے جس کو بھارت نے بھی تسلیم کیا ہے کشمیریوں کی جد وجہد آزادی کا نعرہ کشمیر بنے گا ۔
پاکستان یوم یکجہتی 5فروری 1990کو قاضی حسین احمد نے بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے تعاون سے اس دن کا آغاز کیا وہ جوش و جذبہ کبھی سرد نہیںہوا نہ ہو گا۔ جموں کشمیر کے عوام جو اپنا حق خودارادیت مانگ رہے ہیں جو ان کا حق ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی تسلیم کیا گیا ہے 1990سے منائے جارہے اس دن کو ایک علامت کی حیثیت کا حامل ہے بھارت پر یہ بات واضح کرنے کے لیے جموں کشمیر کے عوام اس جدوجہد میں پاکستان اور عالمی برداری بھی ان ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور یہ پیغام صاف الفاظ میں پہنچایا جا رہا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول میں اس جدوجہد میں اکیلے نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانی عوام ان کی پشت پر کھڑے ہیں اس دن سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں انسانی زنجیر بنا کر عالمی قیادت کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی جاتی ہے ریلیاں اور مظاہرے کیے جاتے ہیں بھارت کے سفارت خانے میں یاداشت پیش کی جاتی ہے جس میں جموں کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و جبر کو اجاگر کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی عالمی طاقتوں کو اس ستر سال سے جاری غاضبانہ تسلط کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری اس دن کے حوالے سے سیمینار اور کانفرنس منعقد کرتے ہیں اوراپنے جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں 5فروری کو جموں کشمیر کی حریت قیادت جو متحد ہو کر بھارتی غاضبانہ قبضہ کے خلاف بڑی جرات و بہادری کے ساتھ سختیاں اور ظلم و جبر کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کی اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور آزادی کے متوالوں کے جوش و جذبے کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں وہ دن دور نہیں جب جموں کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی تسلط سے آزادی نصیب ہو گی بھی انشااللہ دیکھے گے۔۔گلاب سنگھ اور بھارتی حکمرانوں میں ایک حدتک مشترک ہے کہ دونون کشمیریوں کو مسلمان جان کر وحشیانہ تشدد کر رہے ہیں دنیابھر کے غیرت مند کشمیری جرت پسندوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن مصلحت پسند اقوام کے کئی لیڈروں کا خمیر سو گیا ہے جسے بیدار کرنے کے لیے کشمیر ی برسرِپیکار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔