... loading ...
عدنان عادل
مقتدرہ اور پیشہ ور سیاستدانوں کے اتحاد نے عمران خان سے جان چھڑوالی۔ انہیں وزارتِ عظمیٰ کی گدّی سے اُتار دیا۔ تاریخ ہے کہ پاکستان میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر آج تک کوئی وزیراعظم اپنی پانچ سالہ مدّتِ حکومت پوری نہیں کرسکا۔ مقتدرہ اور بیرونی طاقتیں کسی مقبول رہنما کے قدم جمنے نہیں دیتی۔ جو لیڈر عوام میں زیادہ مقبول ہوتا ہے اسے تو بالکل برداشت نہیںکیا جاتا۔لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروادیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتروادیا۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ فی الحال جس طرح لاکھوں کی تعداد میں عوام رضاکارانہ طور پر عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ان کے جلسوں میں شریک ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت وہ عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ پشاور سے کراچی تک نسلی‘ لسانی تفریق کے بغیرلوگ اُن کی قیادت میں متحد ہوگئے ہیں۔ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد میں وقتی طور پرکامیاب ہوں یا نا کام لیکن انہوں نے پاکستان کے نسل اور فرقہ کی بنیاد پرمنقسم اور منتشر لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کر قوم بنا دیا ہے۔سامراج مخالف قوم پرستی کی زوردار لہر چل رہی ہے۔
بڑے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود عوام کی اکثریت نے عمران خان کے اچھے کاموں کو رجسٹر کیا ہے۔ ان کو وزیراعظم بننے پر ایک دیوالیہ معیشت ملی جو پچاس دہائیوں کی غلط پالیسیوں اور بے تحاشا بددیانتی کا حاصل تھی۔ زرمبادلہ کا شدید بحران تھا۔ ملک نادہندگی کے دہانے پر تھا۔ وہ ایک سال زر مبادلہ کے بندوبست کے لیے ملکوںملکوں جا کر قرض کا بندوبست کرتے رہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی کڑوی گولی نگلی۔ مالیاتی ادارہ کی شرائط ہمیشہ اتنی سخت ہوتی ہیں کہ حکومت ان پر عمل کرے تو عوام میں نامقبول ہوجاتی ہے۔ یہی عمران خان کے ساتھ ہوا۔ تاہم ابھی وہ سنبھلنے لگے تھے کہ کورونا وبا نے آن لیا۔ تقریبا دو سال حکومت کی توجہ اور وسائل کورونا وبا سے نپٹنے میں لگ گئے۔ کم سے کم دوہزار ارب روپے کورونا کے لیے بنائے گئے ایمرجنسی ہسپتالوں ‘ کیش امداد‘ مفت ویکسین پروگرام پر خرچ ہوئے اگر وہ ترقیاتی کاموں ‘ تعلیم‘ صحت اور فلاحی کاموں پر خرچ ہوتے۔ کورونا وبا سے پاکستان کو محفوظ رکھنا عمران خان کی حکومت کاتاریخی کارنامہ ہے ۔ ان کی ٹیم نے ملک کو بڑی مصیبت سے بچالیا۔ وباکے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت نے معیشت کو گرنے نہیں دیا۔صنعتی ترقی کی شرح بہت بڑھ گئی۔ ٹیکس وصولی بڑھ گئی۔ اسٹیٹ بینک کی اچھی پالیسیوں کے باعث ترسیلاتِ زر میں دس سے بارہ ارب ڈالر کااضافہ ہوا۔ برآمدات میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔ تجارتی خسارہ پہلے کی نسبت کم ہوا۔پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا۔ احساس کیش پروگرام سے ایک کروڑ لوگوں کو امداد ملتی رہی۔
عام لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ عمران خان نے اپنے حکومتی اختیارات کو دولت جمع کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان کی دو صوبوں اور مرکز میں حکومت تھی۔خیبر پختونخواہ میں ان کی پارٹی تقریبا ًنو برس سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران میں انہوں نے کوئی کارخانہ نہیں لگایا۔ نہ انہوں نے نہ اُن کے رشتے داروں نے۔انہوں نے کوئی نیا بنگلہ تعمیرنہیں کیا۔ ان کے بینک اکاونٹس میں اضافہ نہیں ہُوا۔ منی لانڈرنگ نہیں کی۔ بیرون ملک جائیدادنہیں بنائی۔ پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسران (خواہ ان کا تعلق کسی ادارہ سے ہو)کی اسیّ فیصد تعداد کرپٹ ہے۔ کچھ کم۔ کچھ زیادہ۔ وہ سرکاری حیثیت استعمال کرتے ہوئے مال کمانا جائز سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے اس بہتی گنگا میںہاتھ نہیں دھوئے۔ کرپشن پاکستان میں ایک مضبوط رشتہ ہے۔ اشرافیہ ایسے شخص کو حکمران دیکھنا چاہتی ہے جو خود بھی کھائے انہیں بھی کھلائے۔ عمران خان اس فریم ورک میں فٹ نہیں تھے۔گزشتہ چار برسوں میں کس طرح زرداری اور شریف خاندان کے افراد کے خلاف کرپشن کے بڑے بڑے مضبوط مقدمے ٹھپ کروائے گئے یہ ایک لمبی داستان ہے ۔عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی کوشش کے باوجود مقدمے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ اور جن کے پاس طاقت تھی وہ کرپشن کو برائی نہیں سمجھتے۔ پاکستان ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں سیاست میں دولت کا استعمال بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔ شوگر مل مالکان اور شہری جائیداد کا کاروبار کرنے والوں کی سیاسی اہمیت خاصی زیادہ ہوگئی ہے۔ متحارب سیاسی خاندانوں اور طاقت کے مراکز کو جوڑنے میںپراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کا بہت کردار ہے۔
تاہم موجودہ سیاسی منظر نامہ میں جو سوال سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا ہے یا مغربی سامراج کے ایک طفیلی‘ حاشیہ بردار ملک کے طور پر۔ قوم پرستی اور سامراج نوازی کا تضاد اہم ترین سیاسی ایشو بن کر اُبھرا ہے۔ مغربی سامراج چین اور روس کو پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد میں اپنی من پسند حکومت بنوانا چاہتا ہے جو چین سے بتدریج فاصلہ کرے ۔ رُوس سے پینگیں نہ بڑھائے۔ عمران خان کا دورہ ماسکو اور صدر پیوٹن سے ملاقات امریکی سامراج کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کی چھٹی کروانے کے لیے اس وقت کو منتخب کرنے کا ایک محرک یہ ہے کہ مقتدرہ کے اہم عہدوں پر تقرریاں ہونی ہیں۔ بیرونی دباؤ ہیں۔پاکستان میں قوم پرستوں اور مغربی سامراج کے ایجنٹوں کے درمیان لڑائی زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ سامراج نواز جبکہ نچلا متوسط طبقہ قوم پرست ہے۔ پاکستان میں لوئر مڈل کلاس اوراشرافیہ (مقتدرہ پلس پیشہ ور سیاستدان) کے درمیان کشمکش ہے۔ اقتدار اور سیاست پرچوہتر سال سے اشرافیہ کا قبضہ ہے۔غریب اور سفید پوش‘نچلا متوسط طبقہ دیوار سے لگا ہوا ہے۔ عمران خان نے ان تضادات کو نئی توانائی اور سمت دی ہے۔ ایک قیادت مہیا کردی ہے۔ عمران خان نئی نسل کے نمائندہ لیڈر ہیں۔ پاکستان میں متوسط طبقہ کا سائز پہلے کی نسبت خاصابڑا ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ نوجوان جنریشن’ زی‘ کہلاتے ہیں جو ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ملک میں اٹھارہ سال تک کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اب مین اسٹریم میڈیا بھی پہلے کی نسبت آزاد یا نیم آزاد ہے۔ کمیونی کیشن برق رفتار ہوگئی ہے۔ لوگوں کا جڑنا‘ رابطہ کاری‘ نیٹ ورکنگ آسان ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا وجود میں آچکا ہے جومتوسط طبقہ کی بڑی طاقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مزاحمت محدود تھی۔ عمران خان کو پنجاب ‘ خیبر پختونخواہ اور کراچی کی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی حمایت حاصل ہے۔ مزاحمت شدید ہوگی۔ بیرونی طاقتوں‘مقتدرہ اور پیشہ ور سیاستدانوں کے لیے ان کا مقابلہ کرناآسان نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔