... loading ...
عدالتی فیصلے کی رو سے الیکشن کمیشن نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا اعلان کردیاہے اِ س لیے جلد بلدیاتی اِداروں کے فعال ہونے کی توقع ہے تمام حکمران ہی شہریوں کو نچلی سطح پر اقتدار میں شرکت کا احساس دلانے کے لیے بلدیاتی اِداروں کو مضبوط اور بااختیار بناکر ترقیاتی رقوم دینے کے وعدے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کبھی نہیں ہوا ملکی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں یا تو کسی نے عوامی تحریک کارُخ موڑنے کے لیے مجبوری کے تحت بلدیاتی الیکشن کاسہارہ لیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر بلدیاتی نمائندوں کی بیساکھیاں استعمال کیں خوشی سے کسی نے بھی نچلی سطح پر اختیارات دینے کی کوشش نہیں کی حکومتیں بدلتی رہیں لیکن بلدیاتی نظام کی افادیت تسلیم کرنے کے باوجود کسی کو یہ اِدارے فعال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بلدیاتی اِداروں کو کمزور کرنے میں جمہوری اور غیرجمہوری حکمرانوں کا رویہ اورکردار ایک سارہا ہے حالانکہ اِن کے بغیرعوامی حکمرانی کا تصور نامکمل ہے۔
1911انگریز دورمیں پنجاب میں میونسپل ایکٹ بنایا گیا جس کے تحت بلدیاتی اِداروں کاقیام عمل میں لاکر مقامی نوعیت کے محدود اختیارات تفویض کیے گئے قیامِ پاکستان کے بعداِن کی ڈسٹرکٹ بورڈ کی صورت میں موجودگی برقرار رہی اور ایوب خان نے اپنے حامی افراد کو نمایاں کرنے کا ذریعہ بنایا 1960کے میونسپل ایڈمنسٹریشن ایکٹ کے تحت بلدیاتی اِداروں کے وائس چیئرمین منتخب جبکہ چیئرمین سرکاری آفیسر ہوتے کمشنر کے پاس کارپوریشن کی چیئرمینی بھی ہوتی اے سی یا علاقہ مجسٹریٹ میونسپل کمیٹی کے چیئرمین جبکہ ضلع کونسل میں چیئرمین کا منصب ڈی سی کے پاس ہوتا یحیٰ خان نے بلدیاتی اِدارے توڑ کر الیکشن کرانے کی کوشش نہ کی زوالفقار علی بھٹو نے بھی بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانے میں دلچسپی نہ لی پنجاب پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1972پاس کرایالیکن خود ہی عملدرآمد نہ کیا 1975میں دوبارہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ بنایا جس کے تحت اِدارے کام ضرور کرتے رہے لیکن کبھی انتخابات نہ ہو سکے 1979 تک اسی ایکٹ کے تحت سرکاری ملازمین کے زریعے معاملات چلائے گئے جنرل ضیاالحق نے سیاسی قیادت کا خلا پُر کرنے اوراپنی عوامی حمایت بڑھانے کے لیے 1979 کے نئے نظام کے تحت الیکشن کرائے اور 17 جنوری 1980میں اِدارے فعال کیے 1983 میں دوبارہ الیکشن کرادیے پھر 1987اور 1991میں بھی اسی نظام کے تحت الیکشن ہوئے لیکن اسمبلیوں کی طرح کبھی مدت پوری نہ کرسکے۔
12اکتوبر 1999کو پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال کر اسمبلیوں کے ساتھ ہی بلدیاتی اِدارے بھی توڑ دیے جوں جوں سیاسی قیادت نے دبائو بڑھایاتو بلدیاتی اِداروں کی ضرورت محسوس ہونے لگی بڑے غوروفکر کے بعد ضلعی حکومتوں کے نظام کے تحت الیکشن کرائے گئے جنھیںچودہ اگست 2001کو چارج دیا گیااِس دور میں ضلعی ناظمین کو ضلعی سطح پراہم شعبوںصحت ،تعلیم ،ریونیوسمیت کئی اہم اختیارات دیے گئے بدقسمتی سے دوسری بار ضلعی ناظمین منتخب تو ہوئے مگر مدت پوری نہ ک سکے اگر یہ سلسلہ چند برس مزید قائم رہتا تو اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم سے عوامی مسائل بڑی حد تک حل ہوجاتے لیکن 2008کے عام انتخابات کے بعد شہباز شریف نے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوتے ہی نہ صرف بلدیاتی اِداروں کے اختیارات سلب کر لیے اور عملی طور پر انھیں معطل کیے رکھالیکن توڑنے کی جرات اِس لیے نہ کر سکے کیونکہ اِ س کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی پنجاب اور مرکز میں اقتدار کے تین برس گزارنے کے بعدمسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے دبائو پر بلدیاتی الیکشن تو کرادیے لیکن اقتدار دینے میں بہت تاخیر کر دی منتخب بلدیاتی قیادت نہ ہونے کی بناپر پنجاب میں اب بھی بلدیاتی اِدارے عملی طور غیر فعال اورمحض نمودونمائش تک محدود ہیںجس کی بڑی وجہ ممبران اسمبلی ہیں جو کسی صورت مقامی اِداروں کو فعال نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر یہ فعال ہوجاتے ہیں تو ممبران اسمبلی کی ترقیاتی منصوبوں میں مداخلت ختم ہو سکتی ہے اسی لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ بلدیاتی اِداروں میں منتخب نمائندے نہ ہوں تاکہ اسمبلی ممبران کو فنڈز پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملتا رہے ۔
تحریکِ انصاف کی قیادت نے ہمیشہ بلدیاتی اِداروں کی افادیت کی وکالت کی لیکن اقتدار کے دوران پنجاب میں بلدیاتی اِداروں کو عضومعطل رکھاجس کی وجہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت کی وابستگی مسلم لیگ ن سے تھی اِس لیے بغیر سوچے سمجھے بلدیاتی قیادت کو غیر قانونی اقدام سے گھر بھیج دیا گیا حالانکہ سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان میں بلدیاتی نمائندے کام کرتے رہے خیر ملکی تاریخ میں آج تک کسی بھی حکومت نے بروقت بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے پی ٹی آئی بھی اسی روش پر گامزن رہی سابقہ حکومتوں کی طرح بلدیاتی قیادت سے پی ٹی آئی بھی خوفزدہ رہی حالانکہ عمران خان اکثر تقاریر میں گُڈ گورننس میں بلدیاتی اِداروں کی اہمیت پر بات کرتے یہ کہتے رہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوگی لیکن چوالیس ماہ کے اقتدار میں اپنے عزم کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔
مئی 2019میں پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی نظام میں نیا ترمیمی قانون منظور کیا مگر بلدیاتی قیادت کے خوف نے حکومت کو انتخابی میدان میں اُترنے نہ دیاحالانکہ عثمان بزدار نے ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد خود یہ کہا تھا کہ مصلحتوں کی بنا پر سابقہ ادوار میں ایسے مفلوج بلدیاتی اِدارے تشکیل دیے جاتے رہے جن کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لیے نہ تو اختیارات ہوتے اور نہ ہی انھیں مطلوبہ فندز دیے جاتے تھے مگر نئے نظام کے تحت تیس فیصد فنڈ زگائوں کی سطح تک دیں گے لیکن کہے کا پاس کرنے کی بجائے عملی طور پر بلدیاتی انتخاب نہ کرائے حالانکہ وہ خود بھی بلدیاتی اِداروں سے منسلک بطور تحصیل ناظم فرائض اداکرتے رہے ہیں اب نئے وزیرِ اعلٰی نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی تو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ نے جولائی 2021میں بلدیاتی اِداروں کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ سنایا مگر حکومت نے عمل کی بجائے تاخیری حربے آزمائے اور بلدیاتی نمائندوں کو مکمل بحال کرنے کی بجائے ایڈ منسٹریٹرز بٹھا دیے جس کے خلاف دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا توبحالی کے نوٹیفکیشن کی عبارت پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے تحقیقات کرانے اور معاملے کی تہہ تک جانے کا عندیہ دیا تب جا کر مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیا گیااب اگر پنجاب حکومت کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے تو توہینِ عدالت کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔
بلدیاتی اِداروں سے اسمبلی ممبران کا خوف بلاوجہ ہے کیونکہ اختیارات کی تقسیم سے مسائل ذیادہ تیزی سے حل ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر آج کل مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے لیکن پرائس کنٹرول کمیٹیاں عملی طورپر کہیں فعال نظر نہیں آتیں اکثر خودنمائی تک محدود ہیں یہ خلا بلدیاتی قیادت باآسانی پورا کر سکتی ہے قیمتوں پر کنٹرول سے لیکر مارکیٹ میں اشیا کی مصنوعی قلت ختم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ گندم ،چاول ،چینی ،دالیں اور سبزیاں اور گوشت موجود ہے بس سپلائی چین بہتر بنانے کی ضرورت ہے لیکن بلدیاتی قیادت کی عدم موجودگی سے یہ ممکن نہیں ہورہا یادرہے جب تمام اِدارے اپنی حدود میں رہیں گے اور فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کے ارتکاب سے گریز کریں گے تو ہی بہتر طریقے سے مسائل پر قابو پا یا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ممبران اسمبلی کو ذہن پر طاری خوف سے چھٹکارا پانا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔