... loading ...
دیڑھ ماہ پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت زوال پذیر تھی عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعدعمران خان نے جارحانہ ردّعمل اور جلسوںکا جو سلسلہ شروع کیا اور تحریک عدم اعتماد کا تعلق عالمی سازش سے جوڑ کر آخر وقت تک مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے اور ہر فورم پر اپنا موقف پیش کرنے کی جو حکمت عملی اپنائی اس نے رائے عامہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ان کے مقابلے میں موجودہ نو تشکیل شدہ حکومت کسی بھی حکمت عملی کو اپنانے میں ناکام ہے یہاں تک کہ وہ اپنی کابینہ تک تشکیل نہیں دے سکے ہیںتوقع یہ تھی کہ عدم اعتماد سے پہلے جب میڈیا کے سامنے دو سو کے قریب اراکین اسمبلی پیش کردیے جائیں گے تو عمران خان کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا عمران خان کے شدید مزاحمتی رویے کی وجہ سے اس سارے کھیل کا ڈراپ سین طے شدہ منصوبے کے تحت نہ ہوسکا معاملہ اعلٰی عدلیہ اور آگے تک جا پہنچا عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی جس سے نہ صرف اس کی مقبولیت کا گراف روز بروز اوپر جارہاہے بلکہ وہ آزادی ،خودداری اور غیرت کے نئے بیانیے کو لے کر اس قدر تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے جو حکمران مسلم لیگ ن لیگ کے لیے بہت بڑا دھچکا لگنے بن سکتا ہے اور اب یہ کھیل نہ صرف بگڑ رہا ہے بلکہ کسی نئے بحران یا ہنگامہ آرائی اور بد امنی کا بھی باعث بھی بن سکتا ہے جس سے مسلم لیگ ن کو مزید نقصان ہوگا اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ہے سندھ پر اس کی گرفت مضبوط ہے پنجاب میں وہ قومی اسمبلی کی پندرہ سے بیس نششتیں چاہتے ہیں جہاں مسلم لیگ ن امیدوار نہ کھڑا کرکے پیپلز پارٹی کے امیدوارو کی کامیا بی میں اپنا کردار ادا کرے۔
یقینی طور پر متحدہ قومی مومنٹ کو بھی اہم عہدوں کی امید ہوگی خصوصاً سندھ کے بڑے شہروں کے ایڈمنسٹریٹر اور وزارت بلدیات ان کا مطالبہ ہو سکتا ہے اسی طرح بلوچستان کے وہ ارکین قومی اسمبلی بھی اہم وزارتوں کے خواہا ں ہیں جس کا وعدہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے ان سے کر رکھا ہے خود آصف زرداری اسپیکر قومی اسمبلی ،چیرمین سینٹ اور صدر پاکستان کاعہدہ چاہتے ہیں اسی طرح مولانا
فضل الر حمان بھی صدارت کا عہدہ چاہتے ہیں اس کے علاوہ وہ بلوچستان میںگورنر یاوزیراعلٰی کے عہدے اور مرکز کی وزارتوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں،نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کی وزارت عظمٰی تک پہنچانے کے کئی عوامل میں سب سے اہم کردار پیپلز پارٹی کے چیرمین آصف علی زرداری کا ہے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف انتہائی اہم مرحلے پر انہوں نے متحدہ قومی مومنٹ کو ساتھ ملا کر بازی پلٹ د ی اس سے قبل انہی کی کوشش سے پی ٹی آئی کے کئی رکن اسمبلی اپوزیشن سے جا ملے اس طرح وہ عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوگئے ان کے قومی اور بین الاقومی سطح پر رابطوں اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت زیادہ سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کو ملا نے کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہوگئیں اور ھکومت کے اہم اتحادی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے ایک نیا اتحاد بن گیا جو اس موجودہ تبدیلی کی بنیاد ہے اب وہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ایک مختصر کابینہ اور بعد ازاں ایک مکمل کابینہ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشاورت سے طے کریں گے جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی رائے کی کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے گی اگلا مرحلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگاکابینہ کی تشکیل کے بعد صدر کے مواخذے کی تیاری کی جائے گی ساتھ ہی پنجاب کی وزارت اعلٰی کا مسئلہ طے کرنا ہے پنجاب کی نئی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شمولیت سے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنی راہ ہموار کرنے میں کامیابی ملے گی۔
ٓاصل مسئلہ تمام مقدمات کا خاتمہ ہے جس کی تیاری شروع ہو چکی ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ صدر کے عہدے کے لیے مولانا فضل الرحمان کو صدارت کے عہدے پر تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا مرحلہ آسانی سے طے ہو سکے گا فی الحال پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نظر آتی ہے کیونکہ 2023 میں بلاول بھٹوکو وزیر اعظم بنانے کے لیے آصف زرداری بھر پور کوشش کررہے ہیں جبکہ نواز شریف کی کوششہوگی کہ آئندہ انتخابات میں مریم نواز کو وزیر اعظم بنایا جائے اور کی راہ میں حائل نااہلی اور سزا کے فیصلے سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور مسلم لیگ مریم نواز کو مستقبل میں وزیراعظم کے عہدے پر دیکھنا چاہتی ہیں اس کی راہ ہموار کرنے میں دونوں جماعتوں میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے جو موجودہ حکومتی اتحاد پر منفی اثرات مرتب کرسکتاہے دوسری جانب عمران خان ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر رہے ہیں اور پورے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں اگر وہ اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھتے ہیں تو حکومت کے لیے نیا چیلنج ہوگا عموماً زیادہ جلسے جلوس کرنے والی جماعت تھک کر اپنی رفتا ر برقرا ر نہیں رکھ پاتی اور اپنے ہدف تک نہیں پہنچتی دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے معاملے میںبھی ایسا ہی ہوگا یا نہیں اس کا ٖفیصلہ آئندہ دو ماہ میں ہوجائے گا اس کھیل کے بگڑنے میں پورانظام ہی نہ لپٹ جائے یہی سب سے اہم سوال ہے۔
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔