وجود

... loading ...

وجود

سیاسی کھیل بگڑ رہا ہے

جمعه 15 اپریل 2022 سیاسی کھیل بگڑ رہا ہے

دیڑھ ماہ پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت زوال پذیر تھی عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعدعمران خان نے جارحانہ ردّعمل اور جلسوںکا جو سلسلہ شروع کیا اور تحریک عدم اعتماد کا تعلق عالمی سازش سے جوڑ کر آخر وقت تک مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے اور ہر فورم پر اپنا موقف پیش کرنے کی جو حکمت عملی اپنائی اس نے رائے عامہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ان کے مقابلے میں موجودہ نو تشکیل شدہ حکومت کسی بھی حکمت عملی کو اپنانے میں ناکام ہے یہاں تک کہ وہ اپنی کابینہ تک تشکیل نہیں دے سکے ہیںتوقع یہ تھی کہ عدم اعتماد سے پہلے جب میڈیا کے سامنے دو سو کے قریب اراکین اسمبلی پیش کردیے جائیں گے تو عمران خان کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا عمران خان کے شدید مزاحمتی رویے کی وجہ سے اس سارے کھیل کا ڈراپ سین طے شدہ منصوبے کے تحت نہ ہوسکا معاملہ اعلٰی عدلیہ اور آگے تک جا پہنچا عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی جس سے نہ صرف اس کی مقبولیت کا گراف روز بروز اوپر جارہاہے بلکہ وہ آزادی ،خودداری اور غیرت کے نئے بیانیے کو لے کر اس قدر تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے جو حکمران مسلم لیگ ن لیگ کے لیے بہت بڑا دھچکا لگنے بن سکتا ہے اور اب یہ کھیل نہ صرف بگڑ رہا ہے بلکہ کسی نئے بحران یا ہنگامہ آرائی اور بد امنی کا بھی باعث بھی بن سکتا ہے جس سے مسلم لیگ ن کو مزید نقصان ہوگا اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ہے سندھ پر اس کی گرفت مضبوط ہے پنجاب میں وہ قومی اسمبلی کی پندرہ سے بیس نششتیں چاہتے ہیں جہاں مسلم لیگ ن امیدوار نہ کھڑا کرکے پیپلز پارٹی کے امیدوارو کی کامیا بی میں اپنا کردار ادا کرے۔
یقینی طور پر متحدہ قومی مومنٹ کو بھی اہم عہدوں کی امید ہوگی خصوصاً سندھ کے بڑے شہروں کے ایڈمنسٹریٹر اور وزارت بلدیات ان کا مطالبہ ہو سکتا ہے اسی طرح بلوچستان کے وہ ارکین قومی اسمبلی بھی اہم وزارتوں کے خواہا ں ہیں جس کا وعدہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے ان سے کر رکھا ہے خود آصف زرداری اسپیکر قومی اسمبلی ،چیرمین سینٹ اور صدر پاکستان کاعہدہ چاہتے ہیں اسی طرح مولانا
فضل الر حمان بھی صدارت کا عہدہ چاہتے ہیں اس کے علاوہ وہ بلوچستان میںگورنر یاوزیراعلٰی کے عہدے اور مرکز کی وزارتوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں،نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کی وزارت عظمٰی تک پہنچانے کے کئی عوامل میں سب سے اہم کردار پیپلز پارٹی کے چیرمین آصف علی زرداری کا ہے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف انتہائی اہم مرحلے پر انہوں نے متحدہ قومی مومنٹ کو ساتھ ملا کر بازی پلٹ د ی اس سے قبل انہی کی کوشش سے پی ٹی آئی کے کئی رکن اسمبلی اپوزیشن سے جا ملے اس طرح وہ عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوگئے ان کے قومی اور بین الاقومی سطح پر رابطوں اور مفاہمت کی پالیسی کے تحت زیادہ سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کو ملا نے کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہوگئیں اور ھکومت کے اہم اتحادی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے ایک نیا اتحاد بن گیا جو اس موجودہ تبدیلی کی بنیاد ہے اب وہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ایک مختصر کابینہ اور بعد ازاں ایک مکمل کابینہ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مشاورت سے طے کریں گے جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی رائے کی کو بھی مرکزی اہمیت دی جائے گی اگلا مرحلہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگاکابینہ کی تشکیل کے بعد صدر کے مواخذے کی تیاری کی جائے گی ساتھ ہی پنجاب کی وزارت اعلٰی کا مسئلہ طے کرنا ہے پنجاب کی نئی حکومت میں پیپلز پارٹی کی شمولیت سے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنی راہ ہموار کرنے میں کامیابی ملے گی۔
ٓاصل مسئلہ تمام مقدمات کا خاتمہ ہے جس کی تیاری شروع ہو چکی ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ صدر کے عہدے کے لیے مولانا فضل الرحمان کو صدارت کے عہدے پر تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا مرحلہ آسانی سے طے ہو سکے گا فی الحال پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نظر آتی ہے کیونکہ 2023 میں بلاول بھٹوکو وزیر اعظم بنانے کے لیے آصف زرداری بھر پور کوشش کررہے ہیں جبکہ نواز شریف کی کوششہوگی کہ آئندہ انتخابات میں مریم نواز کو وزیر اعظم بنایا جائے اور کی راہ میں حائل نااہلی اور سزا کے فیصلے سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور مسلم لیگ مریم نواز کو مستقبل میں وزیراعظم کے عہدے پر دیکھنا چاہتی ہیں اس کی راہ ہموار کرنے میں دونوں جماعتوں میں ٹکرائو ایک فطری عمل ہے جو موجودہ حکومتی اتحاد پر منفی اثرات مرتب کرسکتاہے دوسری جانب عمران خان ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کر رہے ہیں اور پورے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں اگر وہ اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھتے ہیں تو حکومت کے لیے نیا چیلنج ہوگا عموماً زیادہ جلسے جلوس کرنے والی جماعت تھک کر اپنی رفتا ر برقرا ر نہیں رکھ پاتی اور اپنے ہدف تک نہیں پہنچتی دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے معاملے میںبھی ایسا ہی ہوگا یا نہیں اس کا ٖفیصلہ آئندہ دو ماہ میں ہوجائے گا اس کھیل کے بگڑنے میں پورانظام ہی نہ لپٹ جائے یہی سب سے اہم سوال ہے۔
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر