وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور گورننس کے مسائل

بدھ 06 اپریل 2022 بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور گورننس کے مسائل

قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ اراکین میں ماسوائے زبیدہ جلال کے باقی تمام اراکین نوابزادہ خالد مگسی، احسان اللہ ریکی، محمد اسرار ترین اور روبینہ عرفان نے تحریک انصاف سے ناتا توڑا۔ قومی اسمبلی میں نوابزادہ خالد مگسی اس جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ وہ اور جام کمال خان متحدہ حزب اختلاف سے بات چیت اور مذاکرات میں رہنمائی کرتے رہیں، تآنکہ متحدہ حزب اختلاف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرہی لیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد بی این پی نے تحریک انصاف کی حمایت کی۔ ان کے اسمبلی میں چار اراکین کی اہمیت تھی۔ بعد میں حکومتی صفوں سے نکل آئی۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہی یہی تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کے اراکین اتنے مختار ضرور تھے کہ وہ بلوچستان کی سیاست کی حد تک اپنی بات منواتے۔ سو اس ذیل میں سردست بلوچستان میں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی تبدیلی کا نکتہ شامل تھا اور منوایا بھی گیا۔ جمعیت علماء اسلام ،بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت ہے، جس نے خالد مگسی اور جام کمال خان کو صوبے میں تبدیلی کی یقین دہانی کرائی اور آگے پشتونخوا میپ اور بلوچستان نیشنل پارٹی حوالے سے بھی اطمینان دلایا ہے، خاص کر مولانا فضل الرحمان نے ۔جام کمال خان اس عرصہ اسلام آباد ہی میں رہے ہیں۔ کوئٹہ بھی آتے اور بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے اراکین سے ملاقاتیں اور مشاورت کرتے ۔ مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کی حمایت جام کمال کو اب بھی حا صل ہے۔ باپ پارٹی کے بعض اراکین قدوس بزنجو سے نالاں ہیں۔ اکبر آسکانی اور ظہور بلیدی جام کمال حلقہ کے تمام نشستوں و اجلاسوں میں موجود رہے ہیں۔ اکبر آسکانی اور ظہور بلیدی جام کے خلاف عدم عتماد میں پیش پیش تھے۔ آسکانی غیر مؤثر شخص ہے، دامن بھی صاف نہیں ہے۔ ظہور بلیدی جام کے خلاف منحرف اراکین کے اہم نمائندہ تھے ۔یہاں تک کہ عبدالقدوس بزنجو کے لئے اپنے ٹوئٹر پر
symbol of persistency
کے الفاظ کہے ،یعنی اسے عزم و استقامت کی علامت قرار دیا تھا۔
بلوچستان میں پی ٹی آئی کے سات اراکین کا قبلہ منتشر ہے،ہر ایک اپنی اپنی راہ پر ہے۔مبین خان جام کمال خان گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ آئندہ شاید کسی اور جماعت کا حصہ بنے۔ سردار یار محمد رند پہلے ہی الگ ہیں ۔ اول انہیں عمران خان نے اہمیت نہیں دی ہے ۔دوئم خود بھی پارلیمانی پارٹی اپنے گرد اکٹھا کرنے کی مہارت اور اہلیت سے خلاص تھے۔غرضیکہ حکومتیں چلتی ہیں تو عبدالقدوس بزنجو کو منصب سے فارغ کیا جانا یقینی ہے ۔ یقینا اس عرصہ بلوچستان ہر لحاظ سے تنزل میں گیا ہے۔ حکومت کی وقعت و وقار سرے سے نہیں ہے۔ عدم شفافیت کی فضاء ہے، اوپر سے نیچے تک بد عنوانی اور ہیرا پھیری کے چرچے ہیں۔ بیورو کریسی کے اندر معیارات روندے گئے ہیں ۔ تقرر و تبادلے ضابطہ کے برعکس ہورہے ہیں۔ افسران کو وزراء اور اراکین اسمبلی اپنی ماننے پر مجبور کرتے ہیں،سودے بازی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ بد عنوان افسران کی چاندی ہے۔ جو خود ان عوامی نمائندوں سے تقرریوں کے لئے رابطہ کرتے ہیں ۔ وزراء ہی کی خواہش اور مطالبے پر سیکریٹریوں، کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور دوسرے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کے ڈپٹی سیکریٹریز اور سیکشن افسران کے تبادلے بھی وزراء کی مرضی کے تحت ہورہے ہیں۔ مدت پوری نہ ہونے دینا عام ہے حالاں کہ اس بارے عدالت کے احکامات موجود ہیں۔ کئی اہم محکموں میں جونیئر افسران اہم عہدوں پر تعینات کئے گئے ہیں ۔حتیٰ کہ جونیئر ز سیکریٹری کے عہدوں پر تعینات کئے جاچکے ہیں۔ گریڈ 19کے افسران گریڈ20کے عہدوں پر بٹھائے گئے ہیں۔ کئی گریڈ 20کے افسران اسپیشل سیکریٹری بنا کرجونیئر افسران کے ماتحت کام پر مجبور ہیں۔ گریڈ21اور20کے کئی افسران او ایس ڈی ہیں یا پھر وزیراعلیٰ کی معائنہ ٹیم میں شامل کرنے کی چال چل کر ایک طرف پھینک د یے گئے ہیں۔ یعنی گورننس بہت ہی بری حالت میں ہے ۔ اس تناظر میںقومی احتساب بیورو بلوچستان نہ جانے کیوں فائلیں دبا کر بیٹھا ہے۔ یعنی کیا اس ادارے کو انتظار ہے کہ جب اچھی طرح صوبے کی دولت ہڑپ کی جائے تب حرکت کرے گا۔ محکموں کی کئی کئی گاڑیاں معہ پٹرول و ڈیزل وزراء کے استعمال میں ہیں۔جام کمال کے دور کے بعض وزراء جو اب مزید پرکشش محکمے لے چکے ہیں کے زیر استعمال ہنوز سابقہ محکموں کی گاڑیاں ہیں ۔ نئی اور قیمتیں گاڑیاں ناکارہ بنا چکے ہیں۔ بعض کے گھروں میں گاڑیاں تباہ حال حالت میں کھڑی ہیں۔ نیب اس منظر نامے سے بے خبر ہر گز نہیں ہے۔ اب تو سیاست مداخلت سے پاک ہو نے کی بات بھی عام ہے تو پھر نیب نے آنکھیں کیوں بند رکھی ہے؟ بات عدلیہ کی،کی جائے تو کیا قانونی پیچیدگیاں و موشگافیاں ہیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رقاسم سوری نے اڑھائی سال سے ا سٹے لے ر کھی ہے ۔ان کی بطور رکن قومی اسمبلی کامیابی کو نوابزادہ لشکری رئیسانی نے چیلنج کیا تھا ۔نادرا نے ووٹوں کی بایومیٹرک رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ حلقے میں ڈالے گئے 52 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔ جس کی بنیاد پر 27 ستمبر2019ء کو الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ نے حلقہ این اے 265 میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھاتاہم اکتوبر2019ء میںسپریم کورٹ نے حکم امتناع دے دیا تھا۔یادرہے کہ قاسم سوری کے وکیل ،جے یو آئی کے سینیٹر کامران مر تضیٰ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر