وجود

... loading ...

وجود

کیا’’چارٹر آف رائٹس‘‘شہری اور دیہی سندھ کی تفریق ختم کرسکے گا؟

پیر 04 اپریل 2022 کیا’’چارٹر آف رائٹس‘‘شہری اور دیہی سندھ کی تفریق ختم کرسکے گا؟

ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کے درمیان تحریک عدم اعتماد میں متحدہ اپوزیشن کی حمایت کے اعلان کے عوض میں ہونے والے تحریر ی معاہدہ پر جتنا دُکھ اور افسوس ایم کیو ایم پاکستان کے دیرینہ کارکنان ہوا ہے ،شاید اتنا صدمہ تو تحریک انصاف کے کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہوا ہوگا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے کارکنان کو تو بہرکیف ابھی تک یہ تسلی و اطمینان ہے کہ اُن کے قائد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے پاس تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہوجانے کے بعدبھی اپنی سیاست کو زندہ جاوید رکھنے کے لیے بہت سے سیاسی آپشن دستیاب ہوں گے۔لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے ذمہ داران کی اکثریت سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کیے گئے مذکورہ معاہدہ نے اُن کی جماعت کے لیے مستقبل میں سیاست کرنے کے تمام آپشن ختم کردیئے ہیں ۔
حالانکہ ہماری دانست میں شہری سندھ اور دیہی سندھ کی سیاست کو باہم شیر و شکر کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والے یہ معاہدہ ایک بڑا گیم چینجر بھی ثابت ہوسکتاہے۔ لیکن اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ دونوں فریقین کی جانب سے معاہدہ کی من و عن پاسداری کی جائے ۔ چونکہ مذکورہ معاہد ہ پر عمل درآمد کرنے کے تمام تر انتظامی و سیاسی اختیارات پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے پاس ہیں ۔اس لیے ایم کیوایم کے ووٹرز کو اندیشہ ہے کہ یہ معاہدہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے ۔ کیونکہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک درجن سے زائد سیاسی اور انتظامی نوعیت کے معاہدے بیچ چوراہے میں ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ۔
یاد رہے کہ ایم کیوایم اور اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے 18 نکاتی معاہدے کو ’’چارٹرآف رائٹس ‘‘کانام دیاگیاہے اوراس معاہدے کے بنیادی فریقین ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے خالد مقبول صدیقی اورپیپلزپارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری ہیں ۔ جبکہ معاہدے پرشہبازشریف، مولانافضل الرحمان، اخترمینگل اور خالد مگسی نے بطور ضامن کے دستخط کیے ہیں۔اگر غیر جانب داری سے ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ کے نکات کا جائزہ لیاجائے تو منکشف ہوتا ہے کہ بلاشبہ اس معاہدے کی صورت میں ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے صرف ایک مطالبہ یعنی علحیدہ صوبہ کے علاوہ کم و بیش تمام مطالبات کو پیپلزپارٹی سے منوا لیا ہے ۔ مثال کے طور پر معاہدہ کے اہم نکات کے مطابق لوکل گورنمٹ ایکٹ پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل ہوگا اور نئی حلقہ بن سرکاری ملازمتوں پر طے شدہ کوٹہ شہری اوردیہی سندھ کے مطابق عمل کیاجائیگا۔جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر دونوں جماعتوںکی جانب سے تمام فورمز پر جدوجہد کی جائے گی اور جعلی ڈومیسائل پر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہر جعلی ڈومیسائل کو منسوخ کردیاجائیگا۔
ایم کیوایم پاکستان اور پیپلزپارٹی کے درمیان’’چارٹر آف رائٹس‘‘ میں اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ سند ھ کی سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ کے حوالے سے دونوں جماعتیں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیںگی، جو گریڈ 1 سے 15 تک کی ملازمتوں میں سے 40 فیصد کوٹہ شہری سندھ کا ڈومیسائل کے حامل افراد کو فراہم کرنے کا انتظامی بندوبست کرے گی۔نیز امن وامان کی بہتری اور اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے مقامی پولیسنگ کانظام متعارف کرایاجائے گا اور اس میں بھی شہری سندھ کی نمائندگی یقینی بنائی جائے گی۔ جبکہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے مشترکہ کمیٹی کام کرے گی جس کے لیے خصوصی مالیاتی پیکج کا بھی اعلان ہوگا۔علاوہ ازیںمعاہدے کے مندرجات میں ایم کیو ایم کی جانب سے ایڈمنسٹریٹر اور کمشنر کراچی کی تعیناتی پر مشاورت کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر کے لیے بھی ایم کیو ایم حکومت کو 3 نام بھیجے گی اور بھیجے گئے اِن ناموں میں سے ہی کسی ایک شخص کو حیدرآباد کا ایڈمنسٹریٹر بنایا جائے گا۔
دونوں جماعتوں کے درمیان طے پانے والے اِس معاہدے کی سب سے اہم ترین شق یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی تشکیل کے لیے بھی ایم کیوایم سے مشاورت کرنا لازمی ہوگا۔یعنی ایم کیو ایم کی سندھ حکومت کی صوبائی کابینہ میں شمولیت بہر صورت یقینی ہوگی ۔اس کے علاوہ ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘میں ایم کیو ایم نے شہرِ قائد کراچی میں سرکاری جامعہ برائے خواتین بنانے، سیف سٹی پروجیکٹ کو فوری طور پر مکمل کرنے جیسی شرائط میں شامل کروائی ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو واقعی یہ ایک ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ ہے ۔جس میں انہوں نے اپنے ہر دیرینہ مطالبہ کو پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کاغذ پر لکھوا کر بطور سند، دستخط بھی کروالیے ہیں ۔ مگر کیا وہ مذکورہ معاہدہ پر پیپلزپارٹی کو عمل درآمد کرواسکیں گے؟۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ شاید جس کا جواب فی الحال ایم کیو ایم پاکستان کے اُن رہنماؤں کے پاس بھی نہ ہو،جنہوں نے ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ تک پہنچنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خالد مقبول صدیقی اور اُن کے ساتھیوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ کے معاہدہ کو سائن کرکے اپنے سیاسی کیریئر کا آج تک کا سب سے مشکل ترین فیصلہ کیا ہے ۔کیونکہ اگر پیپلزپارٹی اپنی سابقہ ساکھ اور روایت کے مطابق مختلف سیاسی حیلے بہانوں سے معاہدے سے روگردانی کی کوشش کرتی ہے تو یہ اقدام ایم کیوایم پاکستان کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا اور اگر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت غیر متوقع طور پر ’’چارٹر آف رائٹس‘‘ پر من و عن عمل درآمد کروانے کی جانب پیش قدمی کرتی ہے تو یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی سیاسی موت کے مترادف ہوگا ۔کیونکہ ’’چارٹر آف رائٹس‘‘ میں ایم کیو ایم پاکستان کے جتنے مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں اُن پر پیپلزپارٹی کے کارکنان کو شدید تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ مذکورہ کالم کی آخری سطریں تحریر کرتے وقت خبر موصول ہوئی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کو تیکنیکی بنیاد پر مسترد کردی اور صدپاکستان نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی ہیں ۔ یعنی اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا ہے کہ ’’چارٹر آف رائٹس‘‘ کے معاہدہ کی کلیاں بن کھلے ہیں مرجھاگئیں ہیں ۔ اَب بس یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو حالیہ غیر متوقع واقعہ پر صبرِ جمیل عطا فرمائے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر