... loading ...
دوستو،گزشتہ رمضان المبارک کے پہلے روزے کا سچاواقعہ ہے جو باباجی نے ہمیں مزے لے لے کر سنایا، بتانے لگے۔۔ دفتر میں کام زیادہ تھا،اس لیے روزہ وہیں ایک کھجور اور ایک گلاس پانی سے کھولا،جلدی جلدی کام نمٹانے لگاکیوں کہ تراویح بھی اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنی تھی،آدھے گھنٹے بعد ہی میں دفتر سے باہر اور اگلے آدھے گھنٹے میں گھر پہنچ چکا تھا، گھرمیں گھستے ہی اپنی زوجہ ماجدہ سے کہا۔۔بیگم جلدی سے کھانا لاؤ۔ میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔۔زوجہ ماجدہ بھاگی بھاگی گئیں اور دودھ کا گلاس لاکر باباجی کو دے دیا۔۔باباجی نے غصے سے پوچھا۔۔میں نے تم سے کہا کہ بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور تم کھانا دینے کے بجائے مجھے دودھ دے رہی ہو؟بیگم صاحبہ نے برجستہ کہا۔۔آپ کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ناں؟؟اس لیے دودھ میں چوہے مارنے والی گولیاں مکس کردی ہیں، یہ دودھ پی لیں، پیٹ کے سارے چوہے مرجائیں گے۔۔
ماہ رمضان اس بار چونکہ گرمیوں میں آرہا ہے، لہٰذا روزہ داروں کو گرمی سے بچنے کے لیے کچھ خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔اگر آپ ہماری چند تجاویز پر عمل کرلیں تو روزہ دار ہونے کے باوجود گرمی کی شدت سے بچ سکتے ہیں۔۔پہلا طریقہ تویہ ہے کہ اپنے پیروں کو یخ ٹھنڈے پانی میں ڈبو نا ہے، اس سے آپ کا پورا جسم پرسکون اور تروتازہ ہو جائے گا۔اس کے علاوہ گرمی کا احساس کم کرنے کے لیے اپنے جسم پر ٹھنڈے پانی کا اسپرے کریں،کھلے ڈھلے کپڑے پہنیں، کمپیوٹر اور موبائل فون کا استعمال کم کریں اور اس سے بچنے والے وقت میں آرام کریں۔ دن میں کئی بار نہائیں۔ کھیرے کو فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کریں اوراس کے قتلے کاٹ کر آنکھوں پر رکھیں۔ بال کٹوائیں، خواتین کھلے چھوڑنے کی بجائے اپنے بالوں کو سمیٹ کر رکھیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سحر و افطار میں تلی ہوئی، مصالحے دار، چٹ پٹی اشیاء کھانے اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے گریز کریں، شوگر، دل اور گردے کے امراض میں مبتلا مریض اپنے معالج کے مشورے پر روزہ رکھیں، روزے کے دوران سانس کے مریض تکلیف کی صورت میں ان ہیلر استعمال کرسکتے ہیں، آنکھوں میں ڈراپس ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ روزہ کے دوران کان اور ناک میں ڈراپس ڈالنے سے گریز کریں۔۔
رمضان المبارک آتے ہی اکثر لوگوں کی نیند ڈسٹرب ہوجاتی ہے۔پہلے ہفتے تو وہ اسی وجہ سے چڑچڑے پن کا شکار رہتے ہیں۔۔ نیند کا سرکل تبدیل ہونے سے مزاج گرم رہنے لگتا ہے۔ نیند پوری کرنے کے لیے ہمیں رات کو کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟ ایک برطانوی ماہر نے اس سوال کا حتمی جواب دے دیا ہے۔’ایچ نائٹ ڈاٹ کام‘ سے وابستہ سلیپ ایکسپرٹ کیرا پریچرڈ کا کہنا ہے کہ ہماری نیند ’چکروں‘ (Cycles)کی صورت میں ہوتی ہے۔ا ن میں سے ہر چکر لگ بھگ 90منٹ کا ہوتا ہے جس کی ابتدامیں ہلکی نیند ہوتی ہے، اس کے بعد گہری نیند اور پھر ’ریپڈ آئی موومنٹ‘ کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بعد نیند ایک بار پھر ہلکی ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرا چکر شروع ہو جاتا ہے۔ایکسپرٹ کا کہنا تھا کہ ’’ایک صحت مند بالغ شخص کے لیے 6سے 8گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے تاہم ہمیں نیند کے اس آخری چکر کے اختتام پر بیدار ہونا چاہیے جب نیند واپس ہلکی ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر ہم گہری نیند یا ریپٹڈ آئی موومنٹ کے مرحلے میں بیدار ہو جاتے ہیں تو ہم پر دن بھر غنودگی طاری رہتی ہے اور ہم تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں۔‘‘ دن میں کسی بھی وقت 10سے 20منٹ کا قیلولہ بھی تازہ دم ہونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ قیلولہ ہمیشہ 1سے 3بجے سہ پہر کے درمیان کرنا چاہیے۔ قیلولہ کئی طرح کے طبی فوائد کا حامل ہوتا ہے لہٰذا اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس سے ذہنی پریشانی اور تناؤ سے نجات ملتی ہے اور موڈ بہتر ہوتا ہے۔ اس سے یادداشت بہتر ہوتی ہے اور کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قیلولے سے بیمار افراد کو شفایاب ہونے میں بھی مدد ملتی ہے۔گہری اور پرسکون نیند جسم کے لیے شفا کا درجہ رکھتی ہے لیکن نیند کی خرابی سے کئی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ تازہ تحقیق کے مطابق خراب اور ناکافی نیند آپ کو فربہ کرتے ہوئے توند کی چربی بڑھاسکتی ہے۔امریکی ریاست منی سوٹامیں واقع مشہور طبی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ نیند کی کمی اور پہلو بدلتے ہوئے گزاری گئی رات سے جسم میں چربی بڑھنے کا رجحان 9 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ بدن کے دیگر اعضا مثلاً جگر اور آنتوں کے گرد جمع ہونے والے چھپی ہوئی یا وسسرل فیٹ بڑھنے کا خدشہ 11 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔دوسری قسم کی چکنائی نہ صرف اعضا کو متاثر کرتی ہے بلکہ امراضِ قلب اور میٹابولک بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ وجہ شاید یہ ہے کہ نیند کی کمی کے منفی اثرات ایک جانب تو جسمانی چکنائیوں کو بڑھاتے ہیں تو دوسری جانب وہ بدن کی گہرائیوں میں نفوذ کرنے لگتی ہیں۔ ان میں سے سب خوفناک بات یہ ہے کہ یہ چربی موٹاپا بڑھاتی ہے اور توند میں اضافہ کرتی ہے۔سائنسدانوں نے رضاکاروں کو دو گروہوں میں تقیسم کیا۔ ان میں سے ایک کو نو گھنٹے کی مکمل نیند دی گئی اور دوسرے کو صرف چار گھنٹے ہی سونے دیا گیا۔ اس سے قبل دونوں گروپ کا تفصیلی طبی معائنہ کیا گیا تھا۔ مطالعے کے دو ہفتے بعد دوبارہ ان کا طبی معائنہ کیا گیا اور تین ماہ بعد گروپ اراکین کا تبادلہ کرکے انہیں دوسری کیفیات سے گزار گیا۔ یعنی کم نیند والے افراد مکمل نیند والے گروپ کا حصہ بنیں اور اسی طرح یہ عمل دوسرے گروپ پر بھی آزمایا گیا۔ماہرین کے مطابق کم نیند والے افراد میں کھانے کا رحجان بڑھا یعنی وہ 300 زائد کیلوریز اضافی استعمال کرنے لگے۔ وہ 13 فیصد زائد پروٹین اور 17 فیصد زائد چکنائیاں کھانے لگے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے چھپی ہوئی چربی کی مقدار بڑھنے لگی اور توند میں بھی اضافہ ہونے لگا۔دوسری جانب گہری اور مکمل نیند دماغی صلاحیت، یادداشت اور فیصلہ سازی کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ خراب نیند ڈیمنشیا اور الزائیمر کی وجہ بن سکتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ساتھ نہ دینے والوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وقت پڑنے پر ناراض ہوجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔