وجود

... loading ...

وجود

خط سے ہلچل

هفته 02 اپریل 2022 خط سے ہلچل

تحرکِ عدمِ اعتمادکی کامیابی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کیونکہ ق لیگ کے سوانہ صرف تمام اتحادی حکومت سے الگ ہو چکے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے اپنے کئی ممبران جماعت سے ناطہ توڑکر الگ ہو چکے ہیں اِس لیے حکومت کی تبدیلی میں کوئی امر مانع دکھائی نہیں دیتا جمہوریت میں ایسی تبدیلی کوئی انہونی بات نہیں دنیا کے کئی ممالک میں اکثریت سے محرومی کی بنا پرحکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں بھی تبدیلی کو نارمل سمجھاجائے کیونکہ عدمِ اعتماد خلاف آئین نہیں بلکہ اِس کاباقاعدہ طریقہ کار موجود ہے پھر بھی حکومتی صفوں میں چیخ و پکار جاری ہے اور عدمِ اعتماد کی تحریک کے پسِ پردہ بیرونی عوaامل کارفرماہونے کا واویلا کیا جارہا ہے جس سے ایسے خدشات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ موجودہ حکمران ایک خط کو بنیاد بنا کر انتخابی ماحول پیداکرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنے سے نہ صرف ملکی سیاست میں تلخی فروغ پائے گی بلکہ عالمی طاقتوں سے تنائو میں بھی اضافہ ہو گا جس سے ملک کے معاشی ودفاعی مفادات متاثر ہو سکتے ہیں ۔
ایک بات تو طے ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والا خط ایک حقیقت ہے جسے کسی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتااور یہ حکومتی ایماپر نہیں لکھا گیا بلکہ سفیر نے جو سنا یا محسوس کیا وزارتِ خارجہ کو مطلع کردیا مگر اِس خط سے یہ جو رائے عامہ بنائی جارہی ہے وہ سراسرغلط ہے یہ درست ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی سے تحفظات ہیں اسی بنا پر دونوں ممالک کے اعلٰی سطح روابط میں کمی آچکی ہے اِس کی ایک وجہ تو افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان سے متعلق ضروریات ختم ہو نا ہیں دوم امریکی ترجیحات میں اب پاکستان سے زیادہ بھارت اہم ہوگیاہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے اِس بڑے ملک کے تعاون سے چین کا گھیرائو کرنے کا منصوبہ ہے اسی لیے اقلیتوں کی نسل کشی ہو یا اقوامِ متحدہ کے روبروکیے کشمیریوں کوحقِ خوداِرادیت کے وعدوں سے منحرف ہوکر متنازع علاقے کو یکطرفہ اقدام کے زریعے ضم کر لے امریکی محسوس نہیں کرتے بلکہ بھارت کو حق بجانب تصورکرتے ہیں لیکن امریکی نوازشات کے باجود بھارت فوری طور پر روس سے قطع تعلقی نہیں کر رہا کیونکہ اُس کے پاس زیادہ تر ہتھیاراور لڑاکا طیارے روس ساختہ ہیںحال میں جدید ترین میزائل سسٹم بھی خرید چکا ہے اسی لیے امریکی ناپسندیدگی کے باوجود روس سے دوستانہ مراسم برقرار رکھے ہوئے ہے مگر جانے پاکستانی رہنمایہ طریقہ کیوں کیوںنہیں اپناتے کیونکہ مملکتوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں کوئی ملک کسی پر بے لوث نوازشات نہیں کرتا اگر پاکستان بھی امریکا سے بگاڑے بغیر روس اور چین سے قریبی روابط بنانے کی کوشش کرے تو زیادہ بہتر ہے مگرموجودہ حکومت نے محدودسیاسی مفادات کے لیے امریکیوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے حالانکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مصنوعات کا وہ آج بھی سب سے بڑا خریدار ہے نیز یورپی یونین نے اپنی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کو خصوصی مراعات دے رکھی ہیں دونوں سے بیک وقت بگاڑمول لینے سے نہ صرف عالمی مالیاتی اِداروں سے نئے قرضوں کا سلسلہ منقطع سکتا ہے بلکہ تجارتی مفادات کو نقصان احتمال ہے عمران خان نے اپنی تقریر میں ایسا ماحول بنا دیا ہے جس کی تلخی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی بلکہ دونوں ملکوں میں بے اعتباری میں اضافہ ہوگا۔
ہر ملک اتحادیوں کو دوسرے کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے امریکا نے بھی عمران خان کو روس کے دورے پر جانے سے قبل باز رکھنے کی پوری کوشش کی اور سفارتی زرائع سے سخت پیغام بھی دیا لیکن کوئی پرواہ نہ کی گئی اور عمران خان تمام تر اعتراضات کے باوجود روس کے دورے پر چلے گئے بات یہاں تک ہی رہتی تو کوئی مسلہ نہ ہوتا بات تب بگڑی جب روس نے دورے کے دوران ہی یوکرین پر حملہ کر دیا یہ حملہ امریکا اور اُس کے اتحادی مغربی ممالک کو سخت ناپسندہے ایک تو پاکستانی وزیرِ اعظم باوجود منع کرنے کے ماسکو پہنچ گئے جنھیں گرمجوشی سے نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے مہمان سربراہوں کی طرح سلوک کی بجائے مزاکرات میں بلکل ساتھ نشست پر بٹھا یا گیا مزید خرابی یہ ہوئی کہ روس اور یوکرین جنگ کی پاکستان نے حمایت یا مذمت کرنے کی بجائے غیر جانبدار ی اختیارکرلی جس سے نہ صرف امریکا ناراض ہو ابلکہ مغربی ممالک میں بھی تشویش پیدا ہوئی عالمی امور پر یک زبان واشنگٹن اور لندن جو عرصہ سے پاک بھارت تنائو ختم کرانے کے متمنی ہیں تاکہ بھارت پوری توجہ چین پر دے سکے مگر دونوں ویٹورپاور عمران حکومت کے اقدامات سے بے چین ہیں برطانیہ میں مقیم کچھ اپوزیشن رہنمائوں سے دونوں کے اعلٰی حکام نے ملاقاتیں بھی کی ہیں اور امریکا میں پاکستانی سفارتکار کومیزبان ملک نے خاصے سخت اورتلخ لہجے میںکچھ ہدایات دیںجس کی تفصیلات سفیر نے تحریری شکل میں خط کی صورت میں اسلام آباد وزارتِ خارجہ بھیج دی گئیں یہ خط کمزورحکومت کو غیبی مدد محسوس ہوئی عمران خان نے ملک میں موجود امریکی نفرت کیش کرانے کا منصوبہ بنایا یہی منصوبہ ملکی سیاست میں اتھل پتھل کا باعث بننے والا ہے۔
ملک میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں جو آئے روز سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے اِس میں امریکا ملوث ہے اورخارجی سمت کے حوالے سے بھی ہمارے حکمرانوںکو دبائو کا سامنا رہتاہے یہ بات کسی حد تک درست ہے یہ مداخلت پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان سے ہی شروع ہو گئی جس کی بنیاد روسی دعوت نامے پر امریکا کو ترجیح سے ہوئی اِس دورے سے پاکستان کو کئی دہائیوں تک روسی نفرت کا سامنا کرنا پڑاپھر 1971کی پاک بھارت جنگ میں امریکی بیڑے کی وعدے کے مطابق آمد نہ ہونے سے عوامی حلقوں میں پنپتی نفرت کو مہمیز ملی روس کی افغانستان پر چڑھائی کو کفرواسلام کی جنگ قرار دے کر اسلام پسند حلقے کو امریکی ایماپرجہاد کی طرف راغب کیا گیا مگر روس کی شکست کے فوری بعد امریکا نے نظریں پھیر کر پاکستان کونظرانداز کرنا شروع کر دیا مختلف پابندیاں لگائیں دفاعی سازوسامان دیتے ہوئے بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کی شرائط عائد کی گئیں ایسی شرائط عوام میں موجود نفرت کو بڑھادیا ۔
نو گیارہ واقعات کے بعد امریکا نے افغانستان کو تباہ و برباد تو کر دیا ساتھ ہی پاکستان پر ڈرون حملوں سے سویلین آبادی و املاک کوشدیدنقصان پہنچایا اُسامہ بن لادن آپریشن ہو یا طالبان رہنمائوں کو نشانہ بنانا، پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو ان گنت بار پامال کیا گیا جس سے پاکستان کے طول وعرض میں امریکی نفرت کو عروج ملا بعد میں طالبان کو مزاکرات کی میز پر لانے اور پھر محفوظ انخلا یقینی بنانے کے باوجود جب امریکا کی طرف سے بھارت کا افغانستان میں کردار رکھنے کا مطالبہ ہواتو سویلین کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی بھونچکا رہ گئی کیونکہ یہ کسی کو پسند نہیں اسی نفرت کو ہوادیکر عمران خان پہلے بھی اقتدار میں آئے خط سے ہلچل میں بھی یہی خواہش ہے کسی طرح آئندہ الیکشن بھی اسی نفرت کو کیش کراکر جیتاجائے وہ بھٹو کی طرح امریکی نفرت کے سہارے مقبولیت بڑھانے کے خواہشمند ہیں مگر سچ یہ ہے کہ خط لکھا ضرورگیا ہے مگر لکھنے والا پاکستانی سفارتکار ہے خط میں احکامات نہیں بلکہ موجودہ خارجہ پالیسی کے متعلق چند ہدایات اور مطالبات ہیں دوسری بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں ہر ملک میں نرم گوشہ رکھنے والے سیاسدانوں سے رابطہ رکھتی ہیں اسی لیے نوازشریف سے ملاقاتیں عجوبہ نہیں چین ہو یاروس ،وہ بھی نرم گوشہ رکھنے والے سیاستدانوں سے راہ رسم قائم رکھتے ہیں خط سے پیدا ہونے والی ہلچل سے ایک بات طے ہے کہ موجودہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتیں البتہ امریکا سے نفرت کیش کر اکر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں ؟اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چند ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔
hameedullahbhati@gmail.com


متعلقہ خبریں


مضامین
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام وجود جمعه 01 نومبر 2024
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز

مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں

یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر