وجود

... loading ...

وجود

ہر پل بدلتا سیاسی منظر نامہ

بدھ 30 مارچ 2022 ہر پل بدلتا سیاسی منظر نامہ

پاکستان کے بارے عام خیال یہ ہے کہ اِس ملک میں کسی وقت بھی، کہیں بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے سیاسی تناظر میں دیکھیں تو یہ خیال بڑی حد تک درست معلوم ہوتاہے کیا یہ کبھی کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ کہ ن لیگ اور پی پی دونوں جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاج کرسکتی ہیں؟کیونکہ دونوں جماعتوں کے نظریات ہی مختلف نہیں بلکہ منشور بھی ایک دوسرے کی ضد ہے چندبرس پیشتر اول الذکر جماعت پر ضیا باقیات کا الزام لگا کر ہدفِ تنقید بنایا جاتا تھاجبکہ ثانی الذکرجماعت کی قیات کوملک توڑنے کی زمہ دار اور کرپٹ کہا جاتا عوامی اجتماعات سے خطاب کے دوران لاہور،لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے کے وعدے کیے جاتے نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے آمریت کے دوران جلاوطنی کے ایام میں مثاقِ جمہوریت ضرور کیا مگرجلد ہی سیاسی مفادات آڑے آگئے پھر ایسا ہواکہ عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف عوام میں مقبول ہوگئی تو رقیبانِ چمنِ سیاست زاتی رنجشیں بالائے طاق رکھ کر مشترکہ مقابلے کے لیے ایک ہوگئے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ملک میں پہلی بار اسلام پسند ، لبرل اور قوم پرست ایک جگہ یعنی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں ہرپل سیاسی منظرنامہ ایسا بدل رہا ہے کہ دنیا دنگ ہے یہ آگ اور پانی کا ملاپ انتہائی حیران کُن ہے لیکن اپوزیشن اتحاد کی یہ صورتحال کب تک رہے گی اور ایک دوسرے کے یہ رقیب کب تک سیر و شکراور متحد رہیں گے اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست ہرپل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور سیاسی زعمازاتی مفادکوہی ملک و قوم کا مفاد تصورکرتے ہیں سیاسی کامیابی کے لیے ابن الوقتی اور پینترے بدلنے کو سیاسی مہارت کا نام دیتے ہیں۔
تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہونے سے قبل ایسا معلوم ہورہا تھاووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی ملک کا اصل مسلہ ہے نعرہ لگاتے ہوئے مخصوص اِداروں کے بھی لتے لیے جاتے تھے پھر جانے اچانک کیا ہوا کہ لانگ مارچ کی تاریخیں دی گئیں پھرجلد ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پی پی کی تجویز پر عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی شروع میں بظاہر موجودہ حکومت بڑی مضبوط نظر آرہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں اوروہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائے گی مگر اپوزیشن کی طرف سے عدمِ اعتماد کی قرارداد کیا پیش ہوئی تمام اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے اب تو ایسا لگ رہا ہے جیسے موجودہ حکومت ریت سے بنی دیوار سے بھی کمزورہے یکے بعد دیگرے نہ صرف اتحادی الگ ہوچکے بلکہ حکومتی جماعت کے درجنوں ممبرانِ اسمبلی نے بھی اپوزیشن کی حمایت کردی ہے یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی سمجھنا مشکل نہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نے کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہو کر کسی کو اہمیت و عزت نہ دی دوسرا خوداعتمادی میں قریبی ساتھیوں کو بھی نظر انداز کرتے گئے جس سے جماعت میں بددلی پھیلتی گئی علاوہ ازیں عثمان بزدار کی بے جا حمایت کا بھی سیاسی تنہائی میں اہم کردار ہے جس سے حریفوں کو حکومتی جماعت میں نقب لگانے کا موقع ملا نیز بیک وقت تمام محاز کھولنے سے وسیع اتحاد بنانے کی راہ ہموار ہوئی ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کا زمہ دار قرار دینے کے لیے سیاسی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اپوزیشن کے کردار کے ساتھ عمران خان بھی کسی صور ت بر ی الزمہ یا معصوم نظر نہیں آتے ملکی اُفق پر جس سیاسی تنہائی کا آج وزیرِ اعظم کو سامناہے اِس میں نا تجربہ کاری اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا بھی کلیدی کردارہے ۔
اختر مینگل کی طرف سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کو نظر انداز کرنے کے بعد ہی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ممبران کوراہیں الگ کرنے کا حوصلہ ہوا اگر ریکوڈک معاہدے سے قبل جمہوری وطن پارٹی اور باپ کو اعتماد میں لے لیا جاتا تو حالات شایدآج سے قدرے مختلف ہوتے اعتماد میں لینے کے لیے مشاورت نہ کرنے کی بنا پر ہی حکمران سیاسی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں عمران خان ملک کے تیسرے وزیرِ اعظم ہیں جنھیں تحریکِ عدم ِ اعتماد کا سامنا ہے اِس سے قبل بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریکیں پیش کی گئیں لیکن دونوں باراوپوزیشن کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر موجودہ صورتحال حکومت کے لیے اچھی نہیں عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی یا ناکامی سے دوچار ، سیاسی مطلع ابر آلود ہونے کی بنا پر کچھ واضح نہیں البتہ ق لیگ کی طرح ایم کیوایم بھی ساتھ نہیں چھوڑتی اور حمایت کا اعلان کر دیتی ہے تو وزیرِ اعظم کی تبدیلی کے امکانات میں کمی آ سکتی ہے بشرطیکہ حکومتی جماعت کے ناراض اراکین کو بھی منالیا جائے ۔
اگر تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے توکئی جماعتوں کی حمایت سے بننے والی حکومت موجودہ حکومت سے بھی کمزور ہوگی کیونکہ چند ایک اتحادی جماعتوں کوجب عمران خان مطمئن نہیں رکھ سکے نئے حکومتی سیٹ اَپ میں تو نصف درجن سے زائدجماعتیں شامل ہوں گی اُنھیں متحد رکھناتو اور بھی مشکل ہوگا قوی امکان یہی ہے کہ نئی حکومت بمشکل ہی چند ماہ گزارپائے گی آخر کار نئے انتخابات کی طرف جا نا پڑے گا اور عوام سے نیا فیصلہ لیکر حکومتیں تشکیل دینے کا مطالبہ ہونے لگے گا ابھی عام انتخاب کی طرف جانے سے آصف زرداری گریزاں ہیں وہ چاہتے ہیںموجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں مگر عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام ہو یا کامیاب ، قبل از وقت عام انتخابات کا امکان ہر دوصورت میں موجود ہے سیاسی شاہراہ عام پر جاری حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جاری لڑائی کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب میں ایک بے ضرر و بے ثمر خاموش طبع راہگیرعثمان بزدار نشانہ بن چکا ہے مرکز میں ہوتا ہے اگلے ہفتے تک صورتحال واضح ہو جائے گی ۔
عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار شخص کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی دیکر ایسی چال چلی ہے جس سے خطرات میں کچھ حدتک کمی آسکتی ہے لیکن یہ فیصلہ کافی تاخیر سے کیا گیا ہے اگریہی فیصلہ چند ماہ پہلے کر لیا جاتا تو پنجاب کے ساتھ مرکز کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی چوہدری پرویز الٰہی جنھیں جوڑتوڑ کا ماہر کہا جاتا ہے اُنھیں وزیرِ اعلٰی بن کر چومکھی لڑائی لڑنا پڑے گی کیونکہ ایک طرف لاہور کا تخت بچانا تو دوسری طرف بڑی اتحادی تحریکِ انصاف کو مشکلات کے گرداب سے نکالنا ہو گا آصف زرداری اور مولانافضل الرحمٰن سے بھی اُن کے دیرینہ تعلقات ہیں یہ تعلقات بچانا بھی ایجنڈے میں سرِ فہرست رکھنا ہوگااُن کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ترین گروپ نے بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ووٹ دینے کا عندیہ دے دیا ہے البتہ علیم خان گروپ مشکلات پیدا کر سکتا ہے حالانکہ لاہوررنگ روڈ کی تعمیر کے دوران وہ زمینوں کی خریدوفرخت سے کافی مالی فائدہ لے چکے لیکن سیاست سے جذبات ،اخلاق یا اصول جیسے الفاظ کا کوئی تعلق نہیں یہاں دائو لگانے کے لیے تاک میں رہنا پڑتا ہے اور موقع ملتے ہی وار کرنا ہی خوبی ہے پنجاب میں اعتماد کا ووٹ لینے میں اُنھیں کسی خاص دشواری کا سامناتو نہیں ہو گا لیکن گُڈ گورننس کا تاثر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات اُٹھانا ہوں گے تاکہ آمدہ انتخابات میں سیاسی منظر نامے پر بہتر پوزیشن پر آسکیں ہر پل بدلتا سیاسی منظر نامہ اپنی جگہ، بڑی اتحادی جماعت تحریکِ انصاف کا اعتماد قائم رکھنے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر