... loading ...
پاکستان کے بارے عام خیال یہ ہے کہ اِس ملک میں کسی وقت بھی، کہیں بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے سیاسی تناظر میں دیکھیں تو یہ خیال بڑی حد تک درست معلوم ہوتاہے کیا یہ کبھی کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ کہ ن لیگ اور پی پی دونوں جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاج کرسکتی ہیں؟کیونکہ دونوں جماعتوں کے نظریات ہی مختلف نہیں بلکہ منشور بھی ایک دوسرے کی ضد ہے چندبرس پیشتر اول الذکر جماعت پر ضیا باقیات کا الزام لگا کر ہدفِ تنقید بنایا جاتا تھاجبکہ ثانی الذکرجماعت کی قیات کوملک توڑنے کی زمہ دار اور کرپٹ کہا جاتا عوامی اجتماعات سے خطاب کے دوران لاہور،لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے کے وعدے کیے جاتے نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے آمریت کے دوران جلاوطنی کے ایام میں مثاقِ جمہوریت ضرور کیا مگرجلد ہی سیاسی مفادات آڑے آگئے پھر ایسا ہواکہ عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف عوام میں مقبول ہوگئی تو رقیبانِ چمنِ سیاست زاتی رنجشیں بالائے طاق رکھ کر مشترکہ مقابلے کے لیے ایک ہوگئے بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ملک میں پہلی بار اسلام پسند ، لبرل اور قوم پرست ایک جگہ یعنی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں ہرپل سیاسی منظرنامہ ایسا بدل رہا ہے کہ دنیا دنگ ہے یہ آگ اور پانی کا ملاپ انتہائی حیران کُن ہے لیکن اپوزیشن اتحاد کی یہ صورتحال کب تک رہے گی اور ایک دوسرے کے یہ رقیب کب تک سیر و شکراور متحد رہیں گے اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے ملک کی سیاست ہرپل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور سیاسی زعمازاتی مفادکوہی ملک و قوم کا مفاد تصورکرتے ہیں سیاسی کامیابی کے لیے ابن الوقتی اور پینترے بدلنے کو سیاسی مہارت کا نام دیتے ہیں۔
تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہونے سے قبل ایسا معلوم ہورہا تھاووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی ملک کا اصل مسلہ ہے نعرہ لگاتے ہوئے مخصوص اِداروں کے بھی لتے لیے جاتے تھے پھر جانے اچانک کیا ہوا کہ لانگ مارچ کی تاریخیں دی گئیں پھرجلد ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پی پی کی تجویز پر عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی شروع میں بظاہر موجودہ حکومت بڑی مضبوط نظر آرہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں اوروہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائے گی مگر اپوزیشن کی طرف سے عدمِ اعتماد کی قرارداد کیا پیش ہوئی تمام اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے اب تو ایسا لگ رہا ہے جیسے موجودہ حکومت ریت سے بنی دیوار سے بھی کمزورہے یکے بعد دیگرے نہ صرف اتحادی الگ ہوچکے بلکہ حکومتی جماعت کے درجنوں ممبرانِ اسمبلی نے بھی اپوزیشن کی حمایت کردی ہے یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی سمجھنا مشکل نہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نے کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہو کر کسی کو اہمیت و عزت نہ دی دوسرا خوداعتمادی میں قریبی ساتھیوں کو بھی نظر انداز کرتے گئے جس سے جماعت میں بددلی پھیلتی گئی علاوہ ازیں عثمان بزدار کی بے جا حمایت کا بھی سیاسی تنہائی میں اہم کردار ہے جس سے حریفوں کو حکومتی جماعت میں نقب لگانے کا موقع ملا نیز بیک وقت تمام محاز کھولنے سے وسیع اتحاد بنانے کی راہ ہموار ہوئی ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کا زمہ دار قرار دینے کے لیے سیاسی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اپوزیشن کے کردار کے ساتھ عمران خان بھی کسی صور ت بر ی الزمہ یا معصوم نظر نہیں آتے ملکی اُفق پر جس سیاسی تنہائی کا آج وزیرِ اعظم کو سامناہے اِس میں نا تجربہ کاری اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا بھی کلیدی کردارہے ۔
اختر مینگل کی طرف سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کو نظر انداز کرنے کے بعد ہی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ممبران کوراہیں الگ کرنے کا حوصلہ ہوا اگر ریکوڈک معاہدے سے قبل جمہوری وطن پارٹی اور باپ کو اعتماد میں لے لیا جاتا تو حالات شایدآج سے قدرے مختلف ہوتے اعتماد میں لینے کے لیے مشاورت نہ کرنے کی بنا پر ہی حکمران سیاسی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں عمران خان ملک کے تیسرے وزیرِ اعظم ہیں جنھیں تحریکِ عدم ِ اعتماد کا سامنا ہے اِس سے قبل بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریکیں پیش کی گئیں لیکن دونوں باراوپوزیشن کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر موجودہ صورتحال حکومت کے لیے اچھی نہیں عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی یا ناکامی سے دوچار ، سیاسی مطلع ابر آلود ہونے کی بنا پر کچھ واضح نہیں البتہ ق لیگ کی طرح ایم کیوایم بھی ساتھ نہیں چھوڑتی اور حمایت کا اعلان کر دیتی ہے تو وزیرِ اعظم کی تبدیلی کے امکانات میں کمی آ سکتی ہے بشرطیکہ حکومتی جماعت کے ناراض اراکین کو بھی منالیا جائے ۔
اگر تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے توکئی جماعتوں کی حمایت سے بننے والی حکومت موجودہ حکومت سے بھی کمزور ہوگی کیونکہ چند ایک اتحادی جماعتوں کوجب عمران خان مطمئن نہیں رکھ سکے نئے حکومتی سیٹ اَپ میں تو نصف درجن سے زائدجماعتیں شامل ہوں گی اُنھیں متحد رکھناتو اور بھی مشکل ہوگا قوی امکان یہی ہے کہ نئی حکومت بمشکل ہی چند ماہ گزارپائے گی آخر کار نئے انتخابات کی طرف جا نا پڑے گا اور عوام سے نیا فیصلہ لیکر حکومتیں تشکیل دینے کا مطالبہ ہونے لگے گا ابھی عام انتخاب کی طرف جانے سے آصف زرداری گریزاں ہیں وہ چاہتے ہیںموجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں مگر عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام ہو یا کامیاب ، قبل از وقت عام انتخابات کا امکان ہر دوصورت میں موجود ہے سیاسی شاہراہ عام پر جاری حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جاری لڑائی کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب میں ایک بے ضرر و بے ثمر خاموش طبع راہگیرعثمان بزدار نشانہ بن چکا ہے مرکز میں ہوتا ہے اگلے ہفتے تک صورتحال واضح ہو جائے گی ۔
عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار شخص کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی دیکر ایسی چال چلی ہے جس سے خطرات میں کچھ حدتک کمی آسکتی ہے لیکن یہ فیصلہ کافی تاخیر سے کیا گیا ہے اگریہی فیصلہ چند ماہ پہلے کر لیا جاتا تو پنجاب کے ساتھ مرکز کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی چوہدری پرویز الٰہی جنھیں جوڑتوڑ کا ماہر کہا جاتا ہے اُنھیں وزیرِ اعلٰی بن کر چومکھی لڑائی لڑنا پڑے گی کیونکہ ایک طرف لاہور کا تخت بچانا تو دوسری طرف بڑی اتحادی تحریکِ انصاف کو مشکلات کے گرداب سے نکالنا ہو گا آصف زرداری اور مولانافضل الرحمٰن سے بھی اُن کے دیرینہ تعلقات ہیں یہ تعلقات بچانا بھی ایجنڈے میں سرِ فہرست رکھنا ہوگااُن کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ترین گروپ نے بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ووٹ دینے کا عندیہ دے دیا ہے البتہ علیم خان گروپ مشکلات پیدا کر سکتا ہے حالانکہ لاہوررنگ روڈ کی تعمیر کے دوران وہ زمینوں کی خریدوفرخت سے کافی مالی فائدہ لے چکے لیکن سیاست سے جذبات ،اخلاق یا اصول جیسے الفاظ کا کوئی تعلق نہیں یہاں دائو لگانے کے لیے تاک میں رہنا پڑتا ہے اور موقع ملتے ہی وار کرنا ہی خوبی ہے پنجاب میں اعتماد کا ووٹ لینے میں اُنھیں کسی خاص دشواری کا سامناتو نہیں ہو گا لیکن گُڈ گورننس کا تاثر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات اُٹھانا ہوں گے تاکہ آمدہ انتخابات میں سیاسی منظر نامے پر بہتر پوزیشن پر آسکیں ہر پل بدلتا سیاسی منظر نامہ اپنی جگہ، بڑی اتحادی جماعت تحریکِ انصاف کا اعتماد قائم رکھنے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔