... loading ...
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د ئیے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کوئی رکن ڈی سیٹ ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہو جاتی ہے لیکن حکمران جماعت اکثریت پھر بھی کھو دے گی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کا مقف ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا جا رہا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے سندھ ہاوس واقعے پر غیر معمولی سماعت کی تھی، اب آپ متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ سندھ ہاوس پر حملہ دہشت گردی ہے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کہتے ہیں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ ہاوس واقعہ پر بچگانہ دفعات لگائیں، وفاقی حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے، جو دفعات لگائیں گئیں وہ تمام قابل ضمانت تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت سیشن کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، مناسب ہوگا متعلقہ فورم ہی اس کا فیصلہ کرے، جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر ایکشن لیں، بچکانہ دفعات پر حملہ آوروں نے ضمانتیں کروا لیں،کیا کوئی ناقابل ضمانت دفعات لگائی ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ مقدمے میں ایک دفعہ ناقابل ضمانت ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ناقابل ضمانت دفعات پر گرفتاریاں کیوں نہیں ہوئیںایڈووکیٹ جنرل نے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل کو عدالت بلانے کا مشورہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی کو کہیں کہ اپنا کام کریں، یہ ہمارا کام نہیں کہ ہدایات دیں، منگل کو اس معاملے پر جامع رپورٹ دیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھا ہوا وہ عدالت کیسے پڑھے، اس نقطے پر سپریم کورٹ کے سال 2018 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی مانگا تھا، قانون میں بیان حلفی نہیں تھا عدالتی حکم پر لیا گیا۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کے بغیر کاغذات نامزدگی عدالت نے نامکمل قرار دیے تھے، عدالتی حکم پر کاغذات نامزدگی سے نکالی گئی معلومات لی گی، عدالت نے فیصلے میں کہا انتحابی عمل میں شفافیت کے لیے بیان حلفی لیے گیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو الگ نہیں پڑھا جاسکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں انتخابات کی ساکھ اور تقدس کی بات کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے آرٹیکل 62 ،63 کا حوالہ دیا، پارلیمنٹ نے کچھ شقیں ختم کیں تو اس حکم نامے میں سپریم کورٹ نے ان کی نشاندہی کی، سیاسی جماعت کے اراکین پارٹی نظم و ضبط کے پابند ہیں۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے ڈی سیٹ کی بات کرتا ہے، آپ کسی رکن کی ڈی سیٹ کی آئینی شق کو تاحیات نااہلی سے کیسے جوڑ رہے ہیں، وفاداری تبدیل کرنے پر مختلف فورمز موجود ہیں، آرٹیکل 63 اے کو تاحیات نااہلی سے جوڑنا محض مفروضہ ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ بددیانتی پر تاحیات نا اہلی کا اطلاق ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ خیانت کیا ہوئی اور کس کے خلاف ہوئی؟اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پورے عمل میں تین کھلاڑی ہیں، ووٹر، سیاسی جماعت اور وہ رکن جو منتخب ہوتا ہے، پارٹی ٹکٹ پر جیتنے والا رکن وعدہ کرتا کے کہ وہ سیاسی جماعت کے منشور پر عمل کرے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا مستعفی ہونے پر کوئی سزا ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی مستعفی ہی تو نہیں ہورہا یہی تو مسئلہ ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس ہے اسی تک محدود رہیں، کیا 63 اے کے نتیجے میں نشست خالی ہونا کافی نہیں، سپریم کورٹ کو سیاست میں مت الجھائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے، آرٹیکل 63 میں نااہلی 2 سے 5 سال تک ہے۔جسٹس اعجازا الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں، رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کو تبدیل کیا، آرٹیکل 63 اے میں پانچ سال تین سال یا وقتی نا اہلی ہو سکتی ہے؟قانونی بدیانتی پر تاحیات نا اہلی مانگ رہے ہیں؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی آئینی شق اور آرٹیکل 63 دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تاحیات نا اہلی کاغذات نامزدگی میں جھوٹے حقائق اور بیان سے متعلق ہے، منحرف رکن کے خلاف کارروائی الیکشن ہوجانے کے بعد کا معاملہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن موجود ہے، سب کچھ واضح ہے ہمارے پاس کیا لینے آئے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والا رکن ڈی سیٹ ہوجائے گا؟ جسٹس مظہر عالم نے دریافت کیا کہ نااہلی کی میعاد کتنی ہے یہ حکومت کیسے تعین کرے گی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسی لیے سپریم کورٹ آئے ہیں۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی کمالیہ میں کی گئی تقریر پر تشویش کا اظہار کیا۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آج اسمبلی اجلاس ہے بعض اوقات ہمارے سوالات پر بات ہوتی ہے، وزیر اعظم نے کمالیہ جلسے میں کہا کہ کوئی ججز کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، یہ کس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں، اخبارات میں کیسے کیسے بیانات چھپ رہے ہیں۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اگر وزیراعظم کو ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا ہو گا۔تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہم سوشل میڈیا میں ہونے والی بحث کے زیر اثر نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اخبارات نے خبریں چھاپیں کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریفرنس واپس بھیج دیتے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میں نے یہ کہا تھا کہ ریفرنس واپس بھیجنے کا آپشن موجود ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا اطلاق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپانے پر ہوتا ہے، سزا، مس کنڈکٹ کی کارروائی کے بغیر تا حیات نا اہلی کیسے کر دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کسی بھی وقت حکومت تبدیل کرنے کے لیے چند اراکین کا ادھر سے ادھر جانا مذاق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین پاکستان میں وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی اجازت دی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی رکن ڈی سیٹ ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہو جاتی ہے لیکن حکمران جماعت اکثریت پھر بھی کھو دے گی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکثریت کھو دینے کے معاملے پر آئین میں الگ سے طریقہ کا موجود ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس فیصلے کا آپ نے حوالہ دیا الیکشن سے پہلے کا ہے، الیکشن سے پہلے کا قانون بعد میں کیسے لاگو کردیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن قوانین آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے تو الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں، قانون میں طریقہ واضح کردیا ہے تو کیا چاہتے ہیں؟ ہوسکتا ہے کسی کا سچ میں ضمیر جاگ گیا ہو، الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ طریقہ کار سے متعلق کوئی سوال ریفرنس میں نہیں پوچھا، سوال نااہلی کی مدت اور ووٹ شمار ہونے کے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ کافی پچیدہ معاملہ ہے، پورے متعلقہ آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر 15 سے 20 اراکین ڈی سیٹ ہو جاتے تو وزیراعظم پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ کیسے لیں گے؟ کیا کم اکثریت پر بھی وزیراعظم برقرار رہ سکتے ہیں؟۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس صورت میں صدرمملکت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اگر تمام سیاسی جماعتوں کا نہیں تو معاملہ پارلیمنٹ سے حل کروائیں۔جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح بالکل واضح ہے، کیا آپ نہیں سمجھتے کی صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوال پر تشریح کی ضرورت نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک تو سب ہی ہوا میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں کو مختلف اوقات میں مواقع ملے انہوں نے منحرف اراکین کی نااہلی کا تعین کیوں نہیں کیا، 1997 میں تو سیاستدانوں کے پاس واضح اکثریت تھی، نااہلی کی مدت کا تعین اس وقت کیوں نہیں کیا گیا، جمہوریت ہمارے ملک کے آئین کا اہم۔ جز ہے، پارلیمان سپریم ہے، یہ انتہائی دلچسپ کیس ہے۔وکیل ن لیگ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ صاف شفاف لوگ ہی اٹارنی جنرل صاحب کی طرف کھڑے ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ سارے آلودہ لوگ ہماری طرف ہی کھڑے ہوں۔چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہو سکتا ہے جو اب اٹارنی جنرل ہیں وہ سابقہ ہوجائیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ حکومت بچانی ہے یا پارٹی بچانی ہے سوال یہ ہے کہ عوام کا فائدہ کس میں ہے۔سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت منگل کی دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔یاد رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا گیا تھا،صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے بھیجے گئے ریفرنس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...