وجود

... loading ...

وجود

یہ جارحانہ ہندتوا کی جیت ہے!

پیر 28 مارچ 2022 یہ جارحانہ ہندتوا کی جیت ہے!

اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑادی ہے جو تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے ۔بالخصوص یوپی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی واپسی پر سیکولر حلقوں میں غم کا ماحول ہے ۔اضطراب اور بے چینی کی ایسی لہر ہے جسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔انتخابی نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندتوا کی جارحانہ سیاست نے عوام کے ذہنوں پراپنا تسلط قایم کرلیا ہے اور وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کی طاقت کھوچکے ہیں۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کی گدی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر گزرتا ہے ۔اسی لیے یہاں کی ہر سیاسی سرگرمی پر پوری دنیا کی نگاہ ہوتی ہے ۔یوں تو اس بار پانچ صوبوں میں چناؤ ہورہے تھے ، لیکن سب کی نگاہ اترپردیش پر ہی مرکوز تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ اگر بی جے پی اترپردیش کا چناؤ ہارگئی تو پھر اس کے لیے 2024کے عام انتخابات جیتنا مشکل ہوجائے گا اور ملک میں تبدیلی کی لہر آجائے گی۔اسی لیے سیکولر حلقوں کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح یوپی میں بی جے پی کے قدموں کو روک کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے ، لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی اور بی جے پی ایک بار پھر یوپی کے اقتدار پر قابض ہوگئی۔ اس کے ساتھ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے 2024 کی راہ آسان ہونے کا اشارہ بھی دیا۔ان نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک میں اب سیکولر سیاست کی جگہ محدود ہوگئی ہے ۔ تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی اس بار ایک مضبوط اپوزیشن کے طورپر ابھری ہے اور اس کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔2017کے مقابلے اس کی سیٹیں تین گنا بڑھ گئی ہیں۔سماجوادی پارٹی کی کامیابی میں مسلم ووٹ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔دوسری اطمینان بخش بات یہ ہے کہ جس مسلم ووٹ بینک کو ختم کرنے کا بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا، وہ ایک بار پھر یوپی کی سیاست کے محور میں آگیا ہے ۔ اس مرتبہ مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد میں دس کا اضافہ درج ہوا ہے ۔ پچھلے الیکشن میں مسلم ممبران کی تعداد23تک محدود ہوگئی تھی، جواب بڑھ کر 33ہوگئی ہے ۔کئی حلقوں میں سماجوادی پارٹی کے مسلم امیدواروں نے بی جے پی کو دھول چٹائی ہے ۔
سبھی کو معلوم ہے کہ سنگھ پریوارنے اترپردیش کو ہی سب سے پہلے اپنی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا۔90کی دہائی میں جب یہاں رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا گیا تو ماحول پوری طرح ‘شانت’ تھا، لیکن جیسے جیسے بابری مسجد کے خلاف زہر افشانی شروع ہوئی تو ماحول پراگندہ ہوتا چلا گیا اور اس کے نتیجے میں بی جے پی کو اترپردیش کی کرسی ملی۔کانگریس یہاں سے صاف ہوگئی اور اس کا ووٹ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی میں منتقل ہوگیا۔آج اترپردیش میں کانگریس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے ۔ حد تویہ ہے کہ دلت ووٹوں کی واحد ٹھیکیدار مایا وتی بھی حاشیہ پر پہنچ گئی ہیں۔ نتائج کو دیکھ کر اندازہوتا ہے کہ مایا وتی نے اپنا ووٹ بی جے پی کو منتقل کرادیا ہے اور یہ کام کسی بڑی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ مایا وتی نے اپنی بدترین شکست کا ٹھیکرا ان مسلمانوں کے سر پھوڑا ہے ، جنھیں انھوں نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوپی میں یوگی سرکار کے خلاف عوام میں زبردست ناراضگی تھی اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ناکارکردگی کے نتیجے میں اس بار عوام یوگی کا تختہ پلٹ کراترپردیش کی کمان سماجوادی پارٹی کو سونپ دیں گے ، لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ سماجودای پارٹی کی سیٹوں میں خاصا اضافہ تو ہوا لیکن وہ اکثریت تک نہیں پہنچ پائی۔ 2012کے اسمبلی چناؤ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے اپنا سارا ووٹ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ حالانکہ پوری انتخابی مہم کے دوران اکھلیش یادو نے مسلمانوں سے ‘دوگز کی دوری’بنائے رکھی اور ان کی کسی میٹنگ یا روڈ شو میں مسلمان نام کی کوئی چڑیا بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے تو بی جے پی ان پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگائے گی۔ حالانکہ وہ اس الزام سے خود کو بچا نہیں پائے اور مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے متعدد ریلیوں میں ہندوؤں کو یہ خوف دلایا کہ اگر سماجوادی پارٹی اقتدار میں آئی تو طاقت کا توازن اعظم خاں، ناہید حسن اور مختار انصاری کے پاس ہوگا۔وہ ایسا تاثر دینا چاہتے تھے کہ 25کروڑ کی آبادی والے اس عظیم صوبے میں یہی تین داغدار ہیں۔ ظاہر ہے یہ برادران وطن کے ذہنوں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش تھی، جس میں بی جے پی کامیاب ہوگئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امت شاہ کے اس منفی پروپیگنڈے کے باوجود رامپور سے اعظم خاں، کیرانہ سے ناہید حسن نے جیل میں رہتے ہوئے زبردست کامیابی حاصل کی اور مختار انصاری کا بیٹا بھی کامیاب ہوا۔ایک دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی یوپی میں کسانوں کا اتحاد توڑنے کے لیے بی جے پی نے مظفرنگراور کیرانہ کا جو موضوع اچھالا تھا، اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ایک طرف جہاں کیرانہ میں ‘پلائن’کا موضوع اچھالنے والے بی جے پی لیڈر آنجہانی حکم سنگھ کی بیٹی کیرانہ سے ناہید حسن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی تو وہیں مظفر نگر فساد کے کلیدی ملزمان میں شامل بی جے پی کے تین ممبران اسمبلی سریش رانا، سنگیت سوم اور امیش ملک شکست فاش سے دوچار ہوئے ۔ دوبار کے ایم ایل اے سنگیت سوم کو سردھنہ حلقے میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار اتل پردھان نے 18ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ جبکہ دوسری طرف یوگی سرکار کے وزیر اور مظفرنگر فساد کے ملزم سریش رانا تھانہ بھون سیٹ سے آرایل ڈی کے اشرف علی خان نے شکست فاش سے دوچار کردیا۔ فساد کے ایک اور ملزم امیش ملک کو بڈھانہ حلقہ میں آرایل ڈی امیدوار راج پال بالیان نے شکست دی۔یہ وہ حلقے ہیں جہاں امت شاہ نے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے 650 برس پہلے ہونے والے جاٹوں اور مغلوں کے کسی معرکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح جاٹوں نے مغلوں سے لوہا لیا تھا، اس طرح ہم بھی لے رہے ہیں۔اگر آپ اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی مہم کا سرسری جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ مہم پوری طرح فرقہ وارانہ موضوعات پرمبنی تھی۔ امت شاہ نے بارہا ایسے بیانات دئیے جو بطور وزیرداخلہ انھیں زیب نہیں دیتے تھے ۔ الیکشن کے میدان میں وہ اس حقیقت کو فراموش کرچکے تھے کہ ان کے کاندھوں پر ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ داری بھی ہے ۔بی جے پی لیڈروں کی سب سے بڑی
شناخت یہی ہے کہ وہ الیکشن کے میدان میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے کسی بھی فردکے ساتھ بھیدبھاؤ نہ کرنے کا حلف اٹھایا ہے اور آئین کی پاسداری کی قسم کھائی ہے ۔
حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں دو ایسی باتیں ضرور ہوئی ہیں جنھوں نے سبھی کو چونکا دیا ہے ۔ ان میں پہلی یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی اس الیکشن میں پوری طرح صاف ہوگئی ہے ۔ چار مرتبہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ رہ چکی بہن جی کو اس الیکشن میں رائے دہندگان نے پوری طرح مسترد کردیا ہے ۔ حالانکہ 2019کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی نے لوک سبھا کی دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن اس بار ان کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔انھوں نے سب سے زیادہ 88 مسلم امیدوار یہ سوچ کر میدان میں اتارے تھے کہ مسلمان ان کی جھولی ووٹوں سے بھردیں گے ، مگر الیکشن کے دوران بی جے پی کی طرف ان کا جھکاؤ دیکھ کر لوگ سنبھل گئے تھے ۔ دوسری اچنبھے والی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ۔اس نے وہاں 97 سیٹیں جیت کر ریکارڈ قایم کردیا ہے ۔ برسراقتدار کانگریس پارٹی وہاں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی ہے ۔ خود وزیراعلیٰ چنی کو عام آدمی پارٹی کے ایک ایسے امیدوار نے شکست دی ہے جو ایک موبائل شاپ میں معمولی ملازم ہے ۔اس طرح عام آدمی پارٹی اب دہلی کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سازی کرنے جارہی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ پانچ اسمبلی انتخابات کے رزلٹ کے بعد اپوزیشن کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے ۔2024کے چناؤ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور وزیراعظم نے باقاعدہ اس کا بگل بجادیا ہے ۔اگر اپوزیشن نے متحد ہوکر اس کی تیاری ابھی سے شروع نہیں کی تو نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر