... loading ...
دوستو،امریکا میں گزشتہ دنوں ایک خاتون نے اپنے شوہر سے ایک ایسی وجہ سے طلاق لے لی کہ سن کر پاکستانی شوہر چونک اٹھیں۔ خبر کے مطابق واقعہ کچھ یوں ہے کہ امریکی ریاست اوہائیو کے رہائشی اس شخص کا نام میتھیو فرے ہے، جسے اس کی بیوی نے اس لیے طلاق دے دی کہ اس نے اپنے گندے برتن بغیر دھوئے سنک میں چھوڑ دیئے تھے۔ میتھیو ایک مصنف ہے جس نے اپنی نئی کتاب میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے مردوں کو متنبہ کیا ہے کہ آئندہ کوئی مرد سنک میں گندے برتن چھوڑنے سے قبل دو بار سوچے۔ میتھیو لکھتا ہے کہ ’’میری 34ویں سالگرہ میں سے چند دن ہی باقی تھے، جب میری بیوی میری اس حرکت پر اس قدر برانگیختہ ہوئی کہ گھر چھوڑ کر چلی گئی اور مجھے طلاق دے دی۔ وہ ہمارے دو سالہ بیٹے کو بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ہماری شادی کو 12سال گزر چکے تھے اور اتنے عرصے میں میں اپنی بیوی کے بارے میں اتنا نہیں جان سکا کہ اسے کیا اچھا لگتا ہے اور کیا برا، میرے خیال میں میری اس حرکت پر اس نے طلاق کا جو فیصلہ کیا وہ بالکل درست تھا۔ جب کسی کو مسلسل یہ احساس ہو کہ اس کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے اور دوسرا فریق اس کی پروا نہیں کر رہا تو اس کا الگ ہو جانا ہی بہتر ہے۔‘‘۔۔آپ اگر سچے اور پکے پاکستانی ہیں تو یہ واقعہ سن کر آپ کو بیوی پر بہت غصہ آرہا ہوگاکہ ایک دن برتن نہ دھوئے تو اتنی بڑی سزا کہ بارہ سالہ ازدواجی زندگی کو ہی خیرباد کہہ ڈالا۔۔ دوسری طرف بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر دھار میں بیوی کی جانب سے تنخواہ چھین کر روزانہ پٹائی لگانے پر شوہر نے خوفناک قدم اٹھا لیا اور پھندا لگا کر اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرلیا۔مرنے والے دیپک نے خودکشی کرنے سے قبل بیوی کے نام ایک نوٹ بھی چھوڑا جس میں اس نے خودکشی کی وجہ بیان کی۔ دپیک کے گھر والوں نے اس کی بیوی اور سالوں کے خلاف مقدمہ درج کرا لیا۔خودکشی کی اطلاع ملنے پر پولیس جائے واقعہ پر پہنچی اور دپیک کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ضلع ہسپتال منتقل کیا۔پولیس کے مطابق پورے معاملے کا انکشاف دیپک کی جیب سے لکھے گئے خودکشی نوٹ سے ہوا ہے، دیپک نے اپنے استحصال کے بارے میں نوٹ میں پوری بات لکھی ہے۔دپیکا کے بھائی شنکر نے بتایا کہ دپیک کی بیوی اپنے بھائیوں سے اس کو پٹواتی تھی، اس کی تنخواہ چھین لیتی تھی، ان تمام باتوں کو لے کر دپیک گزشتہ کئی دنوں سے پریشان تھا۔۔آپ اگر سچے اور پکے پاکستانی ہیں تو آپ کو یقینی طور پر دیپک سے دلی ہمدردی ہوئی ہوگی۔۔
کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا۔۔ آپ نے زندگی بھر شادی کیوں نہیں کی؟ ۔۔وہ مسکرا کر بتانے لگے۔۔ یہ میری جوانی کی بات ہے میں ایک شادی میں گیا ہوا تھا۔۔وہاں نادانستہ میرا پاؤں میرے پاس کھڑی لڑکی کی چادر پر پڑگیا،وہ سانپ کی طرح سسکاری مار کر ایک دم پلٹی اور شیر کی طرح دہاڑی۔۔بلڈی ہیل، اندھے ہو کیا؟۔۔میں گڑبڑا کر معافی مانگنے لگا،پھر اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو وہ بہت ہی پیارے اور مدھرسے دھیمے لہجے میں بولی۔۔اوہ معاف کیجیے گا، میں سمجھی میرے شوہر ہیں۔۔۔بس جناب اس دن کے بعد سے شادی کے نام سے ہی نفرت ہوگئی۔۔ایک یونیورسٹی میں ریسرچ ہو رہی تھی کہ ۔۔مرد کو دوسری شادی کی خواہش کب تک رہتی ہے۔۔پروفیسر صاحب نے کہا 60 سال سے نیچے والوں سے پوچھنا وقت کا زیاں ہے۔ ایسا کریں 60 سال سے اوپر والے مردوں سے پوچھیں۔چنانچہ طالبعلم ایک 60 سالا بزرگ نظام دین سے سوال کیا تو بزرگ نے کہا، کیا تمہارے پاس کوئی رشتہ ہے؟؟۔ طلبا جان گئے نظام دین کا نظام گڑبڑ لگ رہا ہے۔۔پھر طلبا نے ایک 70 سالہ بزرگ چراغ دین سے پوچھا، اس نے کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ ایسے ہی ایک 80 سالہ بزرگ سے پوچھا تو بھی ایسا ہی جواب ملا۔اس کے بعد ایک 90 سالہ بزرگ امام دین سے سوال کیا تو بزرگ بولے ۔۔آہستہ بات کرو ،تمہاری چاچی کے کان بہت باریک ہیں فورا سن لے گی۔ یعنی جواب ہاں میں تھا۔اب طلبا علاقے کے سب سے بڈھے کھوسٹ نیک محمد کے پاس گئے جس کے ہاتھ اور سر رعشہ سے کانپ رہے تھے۔ ان سے سوال کیا کہ مرد کو دوسری شادی کی خواہش کب تک رہتی ہے؟؟۔ تونیک محمد صاحب کے ہاتھوں اور سر کی حرکت ایک دم رک گئی اور فرمایا ۔۔میرا خیال ہے قُل تک تو رہتی ہے۔۔
ایک روز باباجی کے گھر سجی محفل میں ہم نے باباجی سے اچانک دریافت کیا۔ باباجی آپ کی کامیاب ازدواجی زندگی یا کامیاب شادی کا رازکیا ہے؟؟ وہ مسکراکربولے۔۔بھائی جی،سیدھا سا فارمولا ہے کہ ہم میاں بیوی نے اپنے اپنے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔۔ہم نے اختیارات والی بات کو انتہائی سنجیدہ طورسے لیا اور اگلا سوال داغا۔۔۔ اچھا وہ کیسے؟؟باباجی کہنے لگے۔۔بڑے اور اہم فیصلے میں کرتا ہوں اور چھوٹے موٹے فیصلے میری بیوی۔۔ہم نے اگلے ہی سانس میں پھر سوال کردیا۔۔ مثلا؟۔۔باباجی بولے۔۔مثلا گاڑی کونسی خریدنی ہے، بچے کون سے اسکول میں داخل کرانے ہیں، گھر کا رنگ روغن، فرنیچر، کب اور کیسا ہونا چاہیے، میری تنخواہ کہاں خرچ ہونی چاہیے،، مجھے کس دوست رشتہ دار سے ملنا چاہیئے اور کس سے نہیں، مجھے برتن پہلے دھونے چاہیں یا کپڑے وغیرہ،گھر میں کیا پکے گا؟ یہ سارے چھوٹے فیصلے میری بیوی کرتی ہے۔۔۔باباجی کی بات سن کر ہم سکتے میں آگئے،لیکن سوال کئے بنا نہ رہ سکے،۔۔ اچھا تو باباجی ،آپ کن معاملات پر فیصلہ کرتے ہیں؟؟باباجی بولے۔۔ میں بڑے فیصلے مثلا، نیٹو کو یوکرائن میں روس پر حملہ کرنا چاہئیے یا نہیں، عالمی منڈی میں تیل کا ریٹ کیا ہونا چاہیئے۔ اگلے سال اولمپک منعقد ہوں گے یا نہیں، امریکا کا اگلا حکمران کون ہونا چاہیئے وغیرہ۔او آئی سی اجلاس میں ایجنڈا کیا ہونا چاہیئے؟ ان سارے عالمی امور پر میرا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔۔۔باباجی ایک روز اپنی یادوں کے دریچوں سے پردہ اٹھا کر بتانے لگے۔۔میرے ایک بزرگ دوست جوکہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ،کہا کرتے تھے کہ یار! ساری عمر ہی ڈرتے ہی رہے ہیں۔ پہلے والدین سے ،پھر پڑھائی کے زمانے میں استادوں سے، اب سروس میں افسروں سے اور موت کے خوف سے خدا سے۔ ۔میں نے کہا کہ ملک صاحب! آپ نے بیوی سے ڈرنے کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ۔۔کہنے لگے ۔۔۔ڈر کے مارے نہیں کیا ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سست شوہروں کی بیویاں پرسکون زندگی گزارتی ہیں،انہیں اس بات کا پکا یقین ہوتا ہے کہ جو بندہ اٹھ کر کمرے کا پنکھا نہیں چلا سکتا،وہ کسی سے چکر کیا چلاسکتا ہے؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔