... loading ...
عمومی طور پر میں ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید کو کہیں مثال کے طور پر پیش نہیں کرتا ان کی جملہ بازی اور ان کا طریقہ گفتگو کبھی بھی پسند نہیں کیا مخالفین کے حوالے سے ان کے منہ سے جو “پھول” جھڑتے ہیں اور حکومت وقت کے لیے جو قصیدہ گوئی کرتے ہیں یہ ان کا ہی خاصا ہے ۔ اتفاق سے ان دنوں وہ آئے روز بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر گھنٹے بعد ٹی وی سکرینوں کو لال پیلا کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن کے لیے ان کی آنکھوں سے نکلتے شعلے ان کے اپنے جملے منیلا کی بجلیاں اور ہانگ کانگ کے شعلوں کی حقیقی تصویر دکھائی دیتے ہیں ۔ شیخ رشید ہوں یا شہباز گل۔ فردوس عاشق اعوان تھیں یا شہزاد اکبر تھے یہ سبھی ایک کلاس اور قماش کے لوگ ہیں جو کسی بھی حکمران کو بانس پر چڑھانے میں مہارت رکھتے ہیں اور پھر وقت آنے پر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں لیکن اس بار کچھ الٹ ہوگیا ان شخصیات کو اب کوئی پارٹی لینے کو تیار نہیں اس لیے ان کی چیخیں چھپر پھاڑتی سنائی دیتی ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنے مخالفین کو للکارتے دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی ہر تقریر اور ہر بیان میں کہتے ہیں تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہونے والے جلسے میں پوری قوم پہنچے میں اس میں اپوزیشن کو “سرپرائز” دینے جا رہا ہوں ان کا یہ سرپرائز کیا ہوگا یہ تو اس دن ہی پتہ چلے گا البتہ ان کی یہ بات سن کر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو یاد آگئے جو اپنے جلسوں میں کہا کرتے تھے تاشقند کے “راز” فاش کروں گا اور پھر ان کے جلسوں میں عوام کا سیلاب امڈ آتا تھا ۔
میرے سینئر دوست ظفر حجازی اکثر اپنے فیس بک فرینڈز کو اپنے مختصر مگر جامع جملوں سے تاریخ کے اوراق پلٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں انہیں نے آج وزیراعظم کے اس “سرپرائز” کو جب بھٹو کے اس جملے کہ تاشقند کے راز فاش کر دوں گا سے جوڑا تو مجھے بھی تاریخ کے ورق پلٹنے کا موقع مل گیا۔ قارئین اس پہلے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بات کروں میرا خیال ہے ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر دوڑا لیں تاشقند کے راز کیا تھے اور بھٹو اس کا بار بار ذکر کیوں کرتے تھے ۔ پاکستان اور بھارت کی 1965 میں ہونے والی جنگ کے حوالے سے 10 جنوری 1966 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا ۔ 4 جنوری سے شروع ہونے والے پاک بھارت مذاکرات میں سابق سوویت یونین کے وزیراعظم الیکسی کوسیجن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اقوام متحدہ۔ امریکا اور سوویت یونین نے دونوں متحارب ممالک کو تاشقند میں مذاکرات کی میز پر بٹھایا پاکستان میں ایک آمر جنرل ایوب خان صدارت کی کرسی پر براجمان تھا اس نے پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اس حکومت کے وزیر خارجہ تھے اور اس حیثیت میں وہ ان مذاکرات کا حصہ تھے جبکہ بھارت کے وزیراعظم لعل بہادر شاستری تھے ۔ مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا کہ پاکستان اور بھارت 1949 کی جنگ بندی لائین تک محدود رہیں گے۔ دونوں افواج 25 فروری 1966 سے پہلے کے مقام پر واپس چلی جائیں گی۔ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اقتصادی و سفارتی تعلقات بحال ہوں گے۔ دونوں رہنما دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ معاہدے کو بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ کشمیر میں کوئی جنگ یا گوریلا جنگ بارے کوئی شق شامل نہ تھی ۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی اس معاہدے پر شدید تنقید شروع ہوگئی اور ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے واپس آتے ہی سخت زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔ یہ معاہدہ ہونے کے بعد دو اہم واقعات ہوئے ایک تو بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا جس پر آج بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا واقعی وہ دل کے دورے سے چل بسے یا کوئی سازش ہوئی جبکہ پاکستان میں ایوب خان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جسے بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے لیڈ کیا وہ اپنے ہر جلسے سے پہلے کہتیتاشقند کے راز “فاش” کروں گا ان کی اس بات کو سن کر عوام کا سمندر امڈ آتا۔ آج جب ایسی ہی بات وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں آپ میرے جلسے میں آئیں میں آپ کو سرپرائز دوں گا تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح جلسہ گاہ بھرنا چاہتے ہیں انہیں خدشہ ہے کہ مہنگائی بے روزگاری اور لاقانونیت سے تنگ آئے لوگ شائد جلسے میں نہ آئیں اس لیے وہ بھٹو کی طرح”راز” فاش کرنے کے نام پر “سرپرائز” دینا چاہتے ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقت میں کوئی راز فاش کرنے جا رہے ہیں یا صرف عوام کو اکٹھا کرنے کے لیے سرپرائز کا بار بار ذکر کررہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔