وجود

... loading ...

وجود

اوآئی سی کانفرنس اور اعلامیہ

هفته 26 مارچ 2022 اوآئی سی کانفرنس اور اعلامیہ

اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)وزرائے خارجہ کونسل کا دوروزہ اجلاس اسلام آباد میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے بعد اختتام پزیر ہو گیا ہے اِس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ وزرائے خارجہ کانفرنس کے اکثر شرکا نے نہ صرف یومِ پاکستان کی تقریب میں شرکت کی بلکہ پریڈ اور ہتھیاروں کی نمائش بھی دیکھی اتنی بڑی تعداد میں برادر مسلم ممالک کی یومِ پاکستان کی تقریب میں شرکت منفرد واقعہ ہے اِس سے پاکستان کی مسلم ممالک میں اہمیت اُجاگر ہوئی دوسرا نہایت اہم پہلو چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کی بطورخاص مہمان شمولیت ہے یہ چین کے کسی وزیرِ خارجہ کی پہلی شرکت ہے جسے ماہرین مسلم ممالک میں بڑھتے چینی کردار کا عکاس قرار دیتے ہیںمیزبان عمران خان کا چینی مہمان کو دائیں طرف جگہ دینا پاکستان کے چین کی طرف جھکائو کو ظاہر کرتا ہے حالیہ اوآئی سی کانفرنس سے پاکستان کی فعالیت تو ظاہر ہوئی مگر کیا اسلامی دنیا کے مسائل حل کرنے میں بھی سُرعت کا مظاہرہ ہوگا؟ اِس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ستاون مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی کا ماضی مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے کچھ زیادہ تابناک نہیں اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کا اعزاز ہونے کے باوجودغیر فعالیت اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیاجس سے عالمی طاقتوں کی طرفدار یا ذیلی تنظیم ہو نے کا تاثر بنا اسی لیے اِس کے فیصلوں کو وہ اہمیت یا پزیرائی نہیں ملتی جو یورپی یا افریقی تنظیموں کے فیصلوں کو عالمی سطح پر دی جاتی ہے۔
مسلمانوںکو اِس وقت کشمیر،فلسطین،میانمار میں منظم نسل کشی کا سامنا ہے بوسنیا میں اقوامِ متحدہ کی فوج کی موجودگی میں مسلمان بچے ،بوڑھے اور نوجوانوں کا قتلِ عام اور خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی مگرآج بھی او آئی سی آئندہ ایسے جرائم کو روکنے کے لیے کسی لائحہ عمل پر اتفاق نہیںکرسکی حالانکہ ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو نظر انداز کرنے کی بجائے ہر طاقت کی مجبوری بن سکتے ہیں مگر اتحاد و اتفاق کی فضا بنانے میں تفرقہ بازی اور عالمی طاقتوں کے مفادات رکاوٹ ہیں غیر مسلم ممالک میں بڑھتااسلاموفوبیا سے مسلمانوں کی زندگی الگ اجیرن ہے نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والا سانحہ اسی کا شاخسانہ ہے مسلمانوں کومساجد اور عوامی مقامات پر نشانہ بنایا جاتا ہے فرانس سے لیکر ہنگری تو ایسی جماعتوں کو مقبولیت ملنے لگی ہے جن کی شناخت مسلم مخالف پالیسیاں ہیں بھارت جیسا ملک جو بظاہرمزہبی ریاست کی بجائے سیکرلرازم کا علمبردار ہے کوئی مسلم طالبہ حجاب تک نہیں لے سکتی گوشت رکھنے کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو تشددسے قتل کر دیا جاتا ہے کشمیر میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلم آبادی کاتشخص اور اکثریت ختم کرنے پر کام جاری ہے لیکن اِ ن مظالم کے باوجود او آئی سی لاتعلق نظر آتی ہے۔
مسجدِ اقصٰی پر21اگست 1969کو ہونے والے حملے اور نذرِ آتش کرنے کا سانحہ اسلامی ممالک کی تنظیم بنانے کی وجہ بنامراکش کے شہر رباط میں25 ستمبر 1969کو اسلامی تعاون تنظیم کا وجود عمل میں آیا جس میں اُس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کا کلیدی کردارہے اِ س تنظیم کا دوسرا سربراہی اجلاس 1973کے ماہ فروری کی تاریخوں بائیس اور چوبیس کو ہواسعودی شاہ فیصل اور وزیرِا عظم زوالفقار علی بھٹو نے اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کی اسی پاداش میں دونوں ہی غیر طبعی موت کا شکار ہوئے اب عمران خان دوبارہ اسلامی بلاک بنانے کی باتیں کرنے اور مسلم ممالک کو اتفاقِ رائے سے چلنے کی تجویز دے رہے ہیں حالانکہ عملی طور پر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ایک وجہ تو سعودیہ و ایران مناقشہ ہے دوسرا کچھ اسلامی ممالک کے حکمران سرمایہ کاری کرتے ہوئے مخصوص سوچ پرکاربندہیں مثال کے طور پربھارت میں متحدہ عرب امارات ستراب ریال کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکا علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر جو پاک بھارت تنازعات کی بنیا د ہے حالیہ اڑتالیسویں وزرائے خارجہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میںفلسطین کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے ساتھ پانچ اگست 2019 کا یکطرفہ اقدام واپس لینے کا مطالبہ کیا گیاہے لیکن ایسی باتیں منصہ شہود پر آچکی ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھاری سرمایہ کاری کے کئی معاہدے طے پا چکے ہیںاِس لیے اسلامی بلاک کی باتیں کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودیہ اور یواے ای ایسے کسی مجوزہ منصوبے کا حصہ نہیں بن سکتے اورمزکورہ دونوں ممالک مستقبل میں اپنی معیشت کو تیل آمدن کے متبادل بنانے کے لیے پُرعزم ہیں اسی لیے عالمی اور دفاعی حوالے سے اپنی حکمتِ عملی بدل چکے تو پھر کیونکریہ دونوں امیر ملک اسلامی بلاک کی تشکیل میں کردار ادا کرسکتے ہیں؟۔
وزرائے خارجہ اجلاس میں چھالیس ممالک نے شرکت کی جبکہ بقیہ ممالک کی نمائندگی اعلٰی حکام نے کی اجلاس میں آٹھ سو کے لگ بھگ مندوبین بھی شریک ہوئے بظاہر اوآئی سی کا حالیہ اجلاس بڑا بھرپوررہا مگر ظلم وناانصافیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورغاصبانہ قبضوںکے خلاف اتفاقِ رائے کی صورتحال بنتی نظر نہیں آتی آپس کی نا چاکی سے مسلم دنیا کو بدترین حالات کا سامنا ہے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اوآئی سی کے رابطہ گروپ کے اراکین نے ملاقاتیں جاری رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر دوامیر اسلامی ملکوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کی بنا پر رابطہ گروپ کاکسی نتیجہ خیز کاروائی پر اتفاق محل نظر ہے منگل کے روز جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میںاسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس جاری تھا تو عین اُنھی لمحات میں اہم عرب ملک مصر کے بحرہ احمر کے کنارے آباد سیاحتی شہر شرم الشیخ میں تین ملکوں کا اجلاس ہورہا تھا جس میں مصر کے فوجی حکمران الفتاح السیسی ،اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی بینٹ اور ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النیہان نے شرکت کی میزبان کو درمیان میں بٹھا کر دائیں ابوظہبی کے ولی عہد اور بائیں طرف والی نشست اسرائیلی وزیرِ اعظم نے سنبھالی ایسے حالات میں ظاہر ہے اوآئی سی کا کسی فیصلے پرکامل اتفاق ممکن نہیں۔
مشترکہ علامیے میں کشمیر،فلسطین سمیت مالی،افغانستان،صومالیہ،سوڈان ،جیبوتی،بوسنیا ،قبرص ،مشرقی افریقی ملک کوموروس ، مغربی افریقی جمہوریہ کوٹ ڈیوائرکے عوام سے یکجہتی کا اعادہ ضرور کیا گیا ہے مگر قبرص کا ایک فریق یونان نہ صرف یورپی یونین کا حصہ ہے بلکہ نیٹو کا بھی رکن ہے اِس لیے کوشش کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم مداخلت کرنے کی پوزیشن میں نہیںاس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یورپی یونین معاشی اور دفاعی دونوں حوالے سے دنیا کی ایک طاقتور تنظیم ہے جس سے مقابلہ اسلامی تعاون تنظیم کے بس کی بات نہیں البتہ بھارت پر دبائو ڈال کر کشمیرکا مسئلہ حل اور ہندوجنونیت سے مسلمانوں کو بچایا جا سکتا ہے لیکن محدود مفادات کے لیے سعودیہ اور یو اے ای کی سرمایہ کاری نے یہ آپشن بھی ضائع کردیا ہے غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیت کا تحفظ تبھی ممکن ہے جب مسلم ممالک معاشی ،دفاعی اور تجارتی حوالے سے مستحکم اور درپیش مسائل کے حوالے سے یک زبان ہوں آپس کی نا اتفاقی دراصل اغیارکو سازشیںپروان چڑھانے کا موقع دیتی ہے ایک تو یو این او میں کسی اسلامی ملک کے پاس ویٹو پاور نہیں مگریہ بڑی بات نہیں دلیل سے موقف منوایا جا سکتا ہے اگر امیر مسلم ممالک اپنی دولت بینکوں میں رکھنے کی بجائے رُخ غریب اسلامی ممالک کی طرف موڑیں اقتصادی ،سائنسی اور تکنیکی ترقی کی طرف دھیان دیں جب تک اجلاس محض ملنے ،بیٹھنے اور تبادلہ خیال تک محدود رہیں گے اسلامی دنیا کی اہمیت وحثیت نہیں بن سکتی اِس وقت عالمی حالات خاصے غیر معمولی ہیں اِن حالات کا سامنا غیر معمولی فیصلوں سے ہی ممکن ہے او آئی سی نے اگر نئی تونائی حاصل کرنی ہے تو اعلامیے کی صورت میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بناناہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
قیامت کی چاپ:اسرائیل اورعالمی جنگ

مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
مقبوضہ وادی میں صدر راج ، کشمیریوں کی شہادتیں

ڈاکٹر ذاکر نائیک چبھے گا ضرور! وجود جمعه 18 اکتوبر 2024
ڈاکٹر ذاکر نائیک چبھے گا ضرور!

کراچی میں 'را' کی دہشت گردی وجود جمعرات 17 اکتوبر 2024
کراچی میں 'را' کی دہشت گردی

بھارتی مسلمانوں کی آبادی سے ہندو خوفزدہ وجود بدھ 16 اکتوبر 2024
بھارتی مسلمانوں کی آبادی سے ہندو خوفزدہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر