... loading ...
دوستو،ٹی بیگ کی چائے پینے والے ہو جائیں خبردار۔۔جرمن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹی بیگز میں ایسے اجزا شامل ہیں جن کا استعمال انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔جرمن محققین کا کہنا ہے کہ جس کاغذ سے ٹی بیگ بنایا جاتا ہے اس میں انسانی صحت کے لیے مضر مادے پائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔تحقیقی رپورٹ کے مطابق جرمن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ریسرچ کے لیے چھ کمپنیوں کے ٹی بیگز کو مختلف طریقے سے جانچا گیا جن میں تین مہنگی اور تین ٹی بیگ سستی کمپنی کے تھے۔تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں کم از کم چار ایسے اجزا شامل تھے جو کیڑے مار ادویات میں شامل ہوتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’ایپی کلورو ہائیڈین‘ نامی ایک مادہ اس کاغذ میں شامل ہوتا ہے جو ٹی بیگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہی اس کو صحت کے لیے نقصان دہ بناتا ہے۔جرمن سائنسدانوں کے مطابق ٹی بیگ کو تھیلیوں میں لپیٹنے اور ان کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈالنے سے نقصان دہ مادہ پانی میں مل جاتا ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ پتی کو براہ راست استعمال کرنا پیکٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
کافی کے کئی طبی فوائد سامنے آتے رہتے ہیں اور اب ایک تازہ خبر یہ ہے کہ کافی الزائیمر اور دماغی تنزلی کو سست کرتے ہوئے یادداشت کو بہتر بناتی ہے۔پوری دنیا میں رغبت سے نوش کی جانے والی کافی ایک جانب تو طبیعت میں تازگی پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تو دوسری جانب امنیاتی نظام کو تقویت دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کافی میں موجود کئی اقسام کے فلے وینوئڈز اور دیگر مفید اجزا دماغی افعال پر مثبت اثرڈالتے ہیں۔اس سے قبل ہم کافی کے دیگر طبی فوائد دیکھ چکے ہیں جن میں وزن کم کرنے کی صلاحیت، ڈپریشن میں کمی، امراضِ قلب سے بچانے اور دیگر بیماریوں سے بچانے والے خواص شامل ہیں۔سب سے پہلے ایک عشرے قبل جرنل آف الزائیمر میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس میں فن لینڈ کے سائنسدانوں نے کہا تھا کہ درمیانی عمر کے افراد اگر پابندی سے تین یا چار کپ کافی روزانہ پئیں تو اس سے دماغی افعال اچھے رہتے ہیں اور عمر کے ساتھ ساتھ اعصابی کمزوری کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ماہرینِ غذائیات کے مطابق سیاہ کافی اس ضمن میں بہت مفید ہوتی ہے اور اس میں معمولی سی کریم ملاکر پینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن بہت زیادہ چینی سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔2014 میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بھی تصدیق کی تھی کہ کافی میں موجود کیفین سے یادداشت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق مائیکل یاسا نے کی تھی جس کی تفصیلات نیچر نیوروسائنس میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے مطابق کافی پینے کے 24 گھنٹے تک یادداشت پر اس کے مثبت اثرات موجود رہتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے کئی رضاکاروں کو روزانہ 200 ملی گرام کیفین دی گئی اور ان کے ڈبل بلائنڈ میموری ٹیسٹ کیے گئے۔ان میں سے جن افراد نے باقاعدگی سے کیفین پی تھی ان کی یادداشت میں بہتری پائی گئی تھی۔ستمبر 2021 میں پرتگال کے سائنسدانوں نے ایک تحقیقی مقالہ شائع کرایا جس میں کہا گیا کہ تھا کہ کافی میں 1000 کے لگ بھگ مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کیمیکل حیاتیاتی طور پر بہت ہی مؤثر ہوتے ہیں۔ کافی میں موجود بعض اجزا دماغی اعصاب کی حفاظت کرتے ہیں۔
ملک بھر میں مختلف علاقوں سے چائے کے اپنے مختلف ذائقے اور مختلف قسمیں ہیں، پاکستانی چائے ثقافت انتہائی متنوع حسین امتزاج دیتی ہے۔ کراچی میں، کالی چائے اور مسالا چائے مقبول ہیں لیکن کوئٹہ ہوٹل والوں کی چائے کا تو جواب ہی نہیں، شہر بھر میں جگہ جگہ کھلنے والے یہ ہوٹل سرشام رش کی وجہ سے بھرجاتے ہیں، اور عوام اس کے عادی ہونے لگے ہیں۔۔ گاڑھی دودھ والی دودھ پتی کو پنجاب میں زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ بسکٹ اور پان، پکوڑے، سموسے، برفی وغیرہ عام پکوان ہیں جو چائے کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ ملک کے شمالی اور مغربی علاقوں میں، بشمول خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اکثر کشمیر، مقبول عام سبز چائے ہے جسے’’قہوہ‘‘ کہا جاتا ہے، ان خطوں کی غالب اکثریت پیتی ہے۔کشمیر میں، کشمیری چائے یا نون چائے، ایک گلابی، دودھیا چائے مع پستہ اور الائچی،خاص مواقع پر بنیادی طور پر استعمال کی جاتی ہے، جیسے شادیوں میں اور موسم سرما کے مہینوں کے دوران میں یہ بہت سی چھوٹی دکانوں پر فروخت کی جاتی ہے جب کہ مزید شمال میں چترال اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں، وسطی ایشیائی ترکیب والی نمکین مکھنی تبتی طرز چائے استعمال کر رہے ہیں۔کتاب چائے کے تین کپ، ایک کثیر فروخت ہونے والی کتاب ہے جسے امریکی کوہ پیما اور معلم گریگ مورٹنسن نے لکھا ہے، اس کتاب کا عنوان شمالی پاکستان کی بلتی زبان کی کہاوت سے لیا گیا ہے۔۔پہلی بار آپ کسی بلتی کے ساتھ چائے میں شریک ہوتے ہیں، تو ابھی آپ اجنبی ہیں۔ دوسری بار آپ چائے لیتے ہیں تو، اب آپ ایک معزز مہمان ہیں، تیسری مرتبہ آپ نے ایک کپ چائے میں شرکت کی تو، آپ خاندان کے ایک فرد بن جاتے ہیں۔
جب ہمارے پیارے دوست نے باباجی کو کہا کہ۔۔میری چائے میں ایک مکھی ہے۔۔باباجی سے مسکرا کر برجستہ بولے۔۔۔’’یار! دل چھوٹا نہ کرو ایک مکھی زیادہ سے زیادہ کتنی چائے پی لے گی؟‘‘۔۔جب باباجی کی زوجہ ماجدہ نے ان سے کہا۔۔اجی سُنو، چائے بنا لاؤں تمہارے لیے یا کافی، اور رات کو وہ تمہاری پسند کے مٹر قیمہ بنا لوں آج۔باباجی جلدی سے بولے۔۔یا اللہ خیر، کتنے چاہئیں؟۔۔(یعنی کتنے پیسے مانگنے کا ارادہ ہے)۔۔ایک بار باباجی سے اپنے فضول دوستوکے ساتھ ڈرائنگ روم میں گپ شپ کررہے تھے، اور ساتھ ہی یہ سوچ رہے تھے کہ انہیں خالی پیٹ ہی ٹرخانا ہے، زوجہ ماجدہ سمجھیں کہ پرانے سنگتی ہیں انہوں نے اسی غلط فہمی میں بیٹھک جس کو اوطاق بھی کہتے ہیں کے دروازے پر دستک دی اور بولی جی چائے کے ساتھ اور بھی کچھ بنا لاؤں اور آپ کے دوست اگر رات بھی یہی گزاریں گے تو آپ کی پسند کی بریانی اور قورمہ بنا دوں ؟؟اگر دوستو کی کوئی فرمائش ہوتو وہ بھی پوچھ لیں۔۔باباجی نے جب زوجہ ماجدہ کے ارادے سنے تو لپک کر ڈرائنگ روم کے دروازے تک پہنچے اور فوراً سے پہلے دروازے کو کھول کر بولے ۔۔۔ میرے کول ہن 5تاریخ تک کوئی پیسا نہیں۔۔(باباجی جب شدیدغصے میں ہوں تو پنجابی بولنا شروع کردیتے ہیں۔۔شوہر نے جب بیوی سے کہا۔۔چائے گرم ہی دینا تو بیوی جل کر بولی۔۔منہ میں ہی چھان دوں کیا؟؟ استاد نے شاگرد سے پوچھا۔۔بتاؤ دودھ کے دانتوں کے بعد کون سے دانت نکلتے ہیں؟؟ شاگرد کہنے لگا۔۔ جناب چائے کے دانت۔۔لڑکی نے اپنی والدہ سے پوچھا، امی مہمانوں کے لیے چائے بناؤں یا شربت؟ماں بولی۔۔ پہلے تم بنا لو پھر جو بھی بنے گا اس کو بعد میں نام دے دیں گے۔۔ہم نے باباجی سے سوال کیا۔۔ چائے کی پتی اور پتی (شوہر) میں کیا چیز مشترکہ ہے؟ باباجی سے کہنے لگے۔۔ دونوں کی زندگی میں جلنا اور ابلنا لکھا ہے وہ بھی عورت کے ہاتھوں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مسکراتے رہا کریں، دنیا اسی بات سے کنفیوز رہے گی کہ یہ کس بات پر اتنا خوش ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔