... loading ...
سیاسی صورتحال لمحہ لمحہ بدل رہی ہے اسی لیے مستقبل میں کیا ہوگا؟ یقینی جواب کسی کے پاس نہیں عمران خان اعتماد کا ووٹ لے سکیں گے یاناکامی کی صورت میں اقتدار سے الگ ہو جائیں گے؟ اگر تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو مستقبل کا سیاسی منظرنامہ کیا ہو گا آیانئی حکومت تشکیل دی جائے گی یا اسمبلیاں توڑ کرنئے انتخابات کرائے جائیں گے؟ حیران کُن طورپرچاہے کسی کا اقتدار کی غلام گردشوں سے تعلق ہے یا نہیں سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں اِس بے یقینی کی وجہ سیاسی منظر نامے پرحیران کُن ہلچل ہے مگرجب مخلص رفقا ساتھ چھوڑ جائیں تو سمجھ لیں کہانی کا اختتام ہونے والاہے عمران خان کوآجکل اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے ۔
موجودہ حالات کیوں بنے اوراِس کا ذمہ دار کون ہے ؟سمجھنے میں کوئی دورائے نہیں حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشیوں کی بناپر حالات سیاسی کہانی کے اختتام کے قریب ہیں کیونکہ بظاہرعدمِ اعتماد کی کامیابی میں اپوزیشن سے زیادہ حکمران جماعت کا کردار ہے اِس کردار کی وجہ سے آنے والے دنوں میں حکومتی جماعت میں شکست وریخت مزید بڑھ سکتی ہے جس کی وجوہات واضح ہیں ساتھیوں کو نظرانداز کرنے ،روابط میں فقدان اورہر سیاستدان کی تذلیل سے یہ دن آگیا ہے کہ نہ صرف اتحادی کنارہ کشی کے قریب ہیں بلکہ اقتدار کے باوجود حکومتی ممبرانِ اسمبلی کا جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے ظاہر ہے جہاں عزت نہ ہو وہاں کسی صاحبِ فہم و دانش کا ٹھہرنا مشکل ہوجاتا ہے گزشتہ چند دنوں سے ناراض اراکین کو منانے کی کوشش ہوئیں مگریہ کوششیںاتنی تاخیرسے شروع کی گئیں کہ اب مثبت نتیجہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے ویسے عام انتخابات میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں رہا اسی لیے ممبرانِ اسمبلی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کو نظرانداز نہیں کر سکتے لہذا جو پنچھی اُڑ گئے ہیں شاید ہی واپس لوٹ سکیں۔
ٹھوکر لگے تو بندہ سیکھتا اور احتیاط کرتاہے مگر کئی ٹھوکریں لگیں لیکن حماقتوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا سندھ میں گورنر راج لگانے کی باتیں حماقت ہی تو ہیں ایسے کسی قدم سے ملکی وحدت کمزور ہوگی کیونکہ صوبے میں منتخب حکومت کام کر رہی ہے ایمرجنسی یا گورنر راج کی صورت میں عدالتوں سے باآسانی ریلیف مل سکتا ہے پاکستان بار کونسل سمیت ماہرینِ قانون کی طرف سے گورنر راج جیسی تجویز کی شدید مخالفت کا عندیہ بھی سامنے آچکا ہے عوامی تائید وحمایت سے تہی دست ایک نشست رکھنے والے شیخ رشید جیسے لوگ تو اہمیت بنانے کے چکر میں تباہ کُن مشورے دیتے ہیں مگر سُننے والوں کو تو عمل سے قبل حالات کا جائزہ لیکر مشاورت سے فیصلہ کرنا چاہیے جماعتی فیصلے کے منافی وفاداریاں تبدیل کرنے والے ممبرانِ اسمبلی کے خلاف 63 اے کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے مگر حکومت بضد ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے قبل ہی الیکشن کمیشن اِس بارے فیصلہ سنادے ظاہرہے ایسا ممکن نہیں علاوہ ازیںسپریم کورٹ میں 186 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کی ایک تجویز پر غورجاری ہے تاکہ واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ سے حاصل ووٹ کی حثیت کے تعین اوروفاداریاں بدلنے والے کودوبارہ انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کی راہ نکالی جا سکے بظاہر حکومت کے حق میں ایسا کوئی فیصلہ آناآسان نظر نہیں آتا 63اے کے تحت کاروائی کے لیے جس ثبوت کی ضرورت ہے وہ ابھی موجود نہیں کیونکہ کسی نے جماعت کے خلاف ابھی تک ووٹ نہیں دیا نیز کسی کوتاحیات نااہلی کے سوانیا مینڈیٹ لینے سے روکا بھی نہیں جا سکتا لہذابہتر یہ ہے کہ سیاسی کہانی کے اختتام مزید کچھ وقت ٹالنے کے لیے اگر کچھ لکھنا ہے توسوچ سمجھ کر قلم کو حرکت دی جائے وگرنہ اندھادھند تحریرتو پہلے لکھے کوبھی بے اثر بنا سکتی ہے۔
عیاں حقیقت ہے کہ جہانگیر ترین کو عمران خان سے دور کرنے کی وجہ وزیرِ اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بنے جنھوں نے اپنی اہمیت قائم رکھنے کے لیے وزیرِ اعظم کو دوستوں سے دورکیا چینی اسکینڈل میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جہانگیر ترین کوملوث اور کرپٹ ثابت کیا گیاجس پر عمران خان حکومت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے دوستوں سے بدظن ہوئے اب عدمِ اعتماد کا کاری وار ہوا ہے توجہانگیر ترین کی یاد آئی ہے لیکن دوریوں کی خلیج اتنی وسیع ہو چکی جس کاآسانی سے خاتمہ نظر نہیں آتا لیکن وہی اعظم خان جن کا عمران خان کے ہر فیصلے میں بنیادی کردار ہے نے اپنے سرپرست کو سہارہ دینے کی بجائے کہانی کا اختتام اور بگڑتے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ کر لیا ہے نہایت زمہ دار زرائع کے مطابق انھوں نے بڑی رازداری سے خودکو ورلڈ بینک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تعینات کرانے کی سمری منظور کرالی ہے پھر بھی آپ کا خیال ہے کہ کہانی کا اختتام نہیں ہواتو آپ کاخیال غلط ہے اور ہاں جولیس سیزر نے تو پھر بھی قریبی دوست بروٹس کی طرف سے تشددسے قتل کرنے کی کوشش پر یوٹو بروٹس جیسا تاریخی جملہ بول دیاتھا مگر عمران خان میں تو اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ تمام فیصلوں کے کلیدی کردار سے جواب طلبی ہی کر سکیں۔
چلیں جہانگیرترین کانام تو چینی اسکینڈل میں آگیاتھا اِس لیے چند لمحوں کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ وہ عمران خان اور جماعت سے مخلص نہیں بلکہ مفادپرست ، کرپٹ اور بدنامی کا باعث بنے لیکن علیم خان کا مسئلہ سمجھ نہیں آتاوہ کاروبار ی ایک صاحبِ ثروت اور لاہور کے نمایاں سیاسی چہروں سے اچھے مراسم رکھتے ہیں اُن کی سرمایہ کاری میڈیا تک وسیع ہے عثمان بزدارکی طرف سے مسلسل نظر انداز ہونے کی بناپر وزارت سے مستعفی ہوئے اور عدمِ اعتماد کے نازک پر لندن جا کر نواز شریف سے مل کراپناسیاسی مستقبل محفوظ بنا چکے ہیں عثمان بزدار کو بچاتے بچاتے نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اپنا بچائو بھی محال ہو گیاہے جب صاحبِ اختیارکاقریبی حلقہ احباب متنفر ہوجائے اور بے اختیار حریفوں سے ناطہ استوارکرنے لگے توزرادل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں سیاسی کہانی کے اختتام میں کوئی شک رہ جاتا ہے؟
قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت اور اتحادیوں کو وقت دینے سے گریزاں عمران خان سیاسی نائو ڈوبتی دیکھ کر اسمبلی ممبران سے انفرادی روابط میں مصروف ہیں پارلیمنٹ لاجز میں جی ڈی اے کے ارکان سے مل کر حمایت کی درخواست کی مگر اسی شب نجی چینل کے ایک پروگرام میں فہمیدہ مرزانے تمام شکایات رفع ہونے کی تردید کردی باپ پارٹی کی طرف سے حمایت کے متعلق ایک وضاحتی بیان آچکا ہے اسی طرح مسلم لیگ ق نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اپنی جماعت کے اراکین کو اکٹھا کر لیں توہی حمایت کر سکیں گے بصورتِ دیگر الگ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں چوہدری مونس الٰہی کا نازک حالات میں بیرونِ ملک سفرا لگ اہمیت اختیارکر گیا ہے۔
عدمِ اعتماد کی تحریکیں پہلے بھی پیش ہوتی رہی ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ اپوزیشن کی بجائے حکومتی جماعت بکھرنے لگی ہے اور جس کا جدھر منہ آتا ہے بھاگ نکلتا ہے جنھیں قابو کرنے یا تادیبی کاروائی کی قیادت میں ہمت نہیں حالات اِس نہج پر چلے گئے ہیں کہ حکومتی جماعت کے ممبران سندھ ہائوس میں پناہ لینے پر مجبورہیں اِن حالات میں عالمی رہنما کہلوانا تو ایک طرف ملک کی قیادت سے بھی محرومی کاخطرہ ہے آزمائش میں جن پر تکیہ تھا وہ کنارہ کش ہونے کا سامان کر چکے مگر عمران خان کو آج بھی اعظم خان عزیزہیں حالانکہ کوئی ایک شخص نظام کے لیے ناگزیر نہیں ہوتابلکہ جمہوریت میں اکثریتی رائے سب سے مقدم ہوتی ہے مگر عمران خان کو اعظم خان ،مرادسعید اور فیصل وائوڈا جیسے لوگ ہی بھلے لگتے ہیں چاہے سیاسی کہانی کا اختتام ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔