... loading ...
دوستو، باباجی فرماتے ہیں دنیا گول ہے اور سب کا ڈبل رول ہے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں، دنیا ایک ہے لیکن سب کی الگ الگ ہے۔۔۔ڈبل رول والی بات سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں، کیوں کہ ہر انسان کے دو چہرے ہوتے ہیں، ایک وہ جو دنیا کے سامنے ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اکیلے میں آئینہ کے سامنے ہوتاہے۔۔اس کی آسان سی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک علاقے میں مدرسے یا مسجد کا مولوی سب کے لیے واجب الاحترام ہوتا ہے ،یہ اس کا ایک ’’رول‘‘ ہے لیکن اچانک ایک دن پتہ چلتا ہے اس نے کسی بچے یا بچی کے ساتھ زیادتی کردی، اسے ’’ڈبل رول‘‘ کہتے ہیں۔۔
ڈبل رول کے حوالے سے کچھ مزید اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں تاکہ آپ کے ’’گوڈے،گھٹوں‘‘ کی نالج میں اضافہ ہوسکے۔۔ ماؤں کا ڈبل رول ہوتا ہے۔۔اپنے گھروالوں کو اپنی اولاد کے سامنے فرشتہ صفت بناکر پیش کرتی جب کہ شوہر کے گھر والوں کے حوالے سے بچوں کے کان بھرتی رہتی ہے۔ ہمیشہ آپ نے نوجوان نسل سے ’’پھوپھو‘‘ کی برائیاں سنی ہوں گی، خالہ ایسی فرشتہ صفت کرہ ارض پر کوئی نہیں ہوتی۔ ۔یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو باپ کو اپنی ہی اولادکے سامنے ’’جلاد‘‘ بناکر پیش کرتی ہیں۔۔آنے دو تمہارے باپ کو پٹائی لگواؤں گی تمہاری۔۔ ذرا اس کے باپ کو آلینے دو وہی اس سے پوچھے گا۔۔سب سے دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آتی ہے چاہے ان کا بچہ بھوسی ٹکڑا ہی کیوں نہ ہولیکن وہ بہو چاند کا ٹکڑا ہی تلاش کرتی ہے۔۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد سچ ہے کہ بچہ بالغ اور ملازمت پیشہ ہوجائے تو ماں باپ اس کی بیوی لانے کا سوچتے ہیں اور وہی بیوی گھر آکر شوہر کے والدین کو بے گھر کرنے کا سوچتی ہے۔۔نوے کے عشرے کی لڑکی اس بات سے پریشان رہتی تھی کہ نجانے ساس کیسی ملے گی، اب دوہزار بائیس کی ساسیں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی جارہی ہیں کہ بہو نجانے کیسی نکلے گی؟؟ یہ وہی ساسیں ہیں جو نوے کے عشرے میں بہوئیں تھیں۔۔اسی لیے تو کہتے ہیں ساس بھی کبھی بہو تھی۔۔ سہاگ رات کی بیوی اور آگے کی ہر رات والی بیوی میں بڑا فرق ہوتا ہے ویسے ہی جیسے ڈھکن کھول کر فوری پیپسی پینے اور بعد ازاں فریج میں رکھی پیپسی پینے میں ہوتا ہے۔ کہتے ہیں اچھی بیوی زبان سے پہچانی جاتی ہے۔ زبان کہاں چلانا ہے یہ اچھی بیوی اچھی طرح جانتی ہے۔۔ کچھ شوہر بیوی کی لسانی کارروائی سے طلوع آفتاب تک کانوں میں روئی ڈال کے رکھتے ہیں۔۔ اکثر شوہر خوش لباس بیویوں کو پسند کرتے ہیں اور لباس میں دیکھ کر زیادہ خوش رہتے ہیں۔ دوسری بیوی وہیں لائی جاتی ہے جہاں پہلی والی کچن یا بیڈ میں ایکٹو نہ ہو۔ بیوی کے ساتھ بہت سارے فرائض منسوب ہیں جیسے روزانہ کھانا اور دماغ پکانا، گھر اور بستر صاف رکھنا، سالانہ بچے دینا اور شوہر کو خوش رکھنا۔ آخرالذکر کام ایسا ہی ہے جیسا کہ اپوزیشن کاکام وزیراعظم کو خوش رکھنا۔
کراچی میں ان دنوں مچھروں کی بھرمار ہے۔۔ ماہرین نے مچھروں سے بچنے کا آسان طریقہ بھی بتادیا ہے۔۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بالخصوص ڈینگی پھیلانے والے مچھر’’ ایڈیز ایجپٹائی‘‘ سرخ اور سیاہ رنگوں کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مچھر پسینے اور خود ہماری سانسوں کی جانب بھی راغب ہوتے ہیں۔ اس طرح نارنجی، سرخ اور سیاہ رنگ ان مچھروں کو کشش کرتے ہیں جبکہ سبز، بنفشی، نیلے اور سفید رنگ کی طرف وہ نہیں آتے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن میں حیاتیات کے ماہر جیفرے رِفل کہتے ہیں کہ خود ہماری جلد مچھروں کو ہماری جانب بلاتی ہے۔ جب مچھر اپنی آنکھوں سے ہماری جلد کو دیکھتے ہیں تو وہ انہیں شوخ نارنجی دکھائی دیتی ہے۔ اس سگنل سے مچھر ہمارے جلد کی طرف لپکتا ہے۔اسی طرح منہ سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی مچھروں کو راغب کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے نیچر کمیونکیشن میں شائع رپورٹ کے مطابق مچھر سونگھنے کی شاندار حس رکھتے ہیں اور ہمارے پسینے کو محسوس کرکے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ مجموعی طور پر مچھر تین اشاروں سے انسانوں تک پہنچتے ہیں۔ اول پسینہ، دوم سانس اور تیسرا جلد کا درجہ حرارت۔ لیکن اب چوتھی شے یعنی سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑوں کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر مچھروں سے بچنا ہے تو ہلکے رنگوں کے کپڑے زیب تن کیجئے۔صرف مادہ مچھر خون چوستی ہیں اور یوں چکن گنیا، ملیریا اور ڈینگی جیسے جان لیوا مرض کی وجہ بنتی ہیں۔ ماہرین نے چھوٹے چیمبر میں مچھروں کو رکھ کر ان کے سامنے مختلف رنگ پیش کیے۔ اس کے علاوہ مختلف بو اور گیسوں کا اسپرے بھی کیا۔ مچھروں نے سبز، سفید اور نیلے رنگ کو چھوڑ دیا لیکن سیاہ اور سرخ رنگ کی جانب مائل ہوئے۔ لیکن جیسے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج ہوئی مچھر اس کی طرف بھاگنے لگے۔
آج جمعہ مبارک ہے، ہفتہ وار نمازیوں سے مساجد بھری ہوں گی۔۔باباجی نے رات سوال کیا تھا۔۔یار یہ نماز پڑھتے وقت اللہ سے رابطہ کیوں نہیں ہوتا؟؟سوال اتناالجھا ہوا تھا کہ ہم سے جواب نہ بن پڑا، ہم نے پوچھا باباجی آپ بتائیے؟؟اپنے موبائل کی اسکرین ہمارے طرف کرکے کہنے لگے۔۔وجہ میں بعد میں بتاتا ہوں پہلے ذرا وسیم صاحب کا یہ جو نمبر لکھا ہے،اسے تو پڑھ کر سناؤ۔۔ہم نے نمبر پڑھا۔۔ کہنے لگے۔ پھر پڑھو۔۔دوبارہ نمبر پڑھ کر سنایا۔۔باباجی ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ وسیم صاحب سے رابطہ ہوگیا آپ کا؟؟۔۔ہم نے کہا۔۔باباجی،آپ نے تو نمبر پڑھنے کا کہا تھا، نمبر پڑھنے سے کہاں رابطہ ہوتاہے؟۔ نمبر ڈائل کروں گا تو رابطہ ہو گا نا۔۔۔کہنے لگے۔۔بس، ہمارے بڑوں سے یہی غلطی ہو گئی انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے پر لگا دیا۔۔۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ کہتا ہے۔۔اور نماز قائم کرو۔۔رابطہ قائم کرو۔۔ آپ اور ہم بس نمبر کی طرح نماز پڑھتے ہی جا رہے ہیں۔۔ دیکھو آپ اپنے بچوں سے کہو کہ اللہ سے رابطہ قائم کریں، بچہ کوشش کرے گا رابطے کی۔۔۔ اور جب نہیں کر سکے گا تو بھاگتا ہوا آپ کے پاس آئے گا۔۔ کہ بابا اللہ سے رابطہ نہیں ہو رہا۔۔ آپ پوچھو گے بیٹا کہیں آپ جھوٹ تو نہیں بولتے، غیبت تو نہیں کرتے، حق تو نہیں مارا کسی کا؟؟ یہ سب چھوڑو گے تو اللہ سے رابطہ ہوگا۔۔ ہم کو کسی نے کہا ہی نہیں اللہ سے رابطے کا، بس پڑھنے کا کہا بس پڑھتے ہی جارہے ہیں۔۔ نماز قائم نہیں کریں گے تو رابطہ کیسے ہوگا۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی ایک کتاب کی طرح ہے جس کے دو صفحے مالکِ کائنات نے پہلے سے لکھ رکھے ہیں، پہلا صفحہ ’’پیدائش‘‘اور دوسرا’’موت‘‘درمیان کے تمام صفحات خالی ہیں، انھیں آپ نے خود بھرنا ہے،پھر اوپر اس کا حساب بھی دینا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔