... loading ...
’’قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں،ادیبوں کے ہاتھوں میں پروان چڑھتی ہیں ،جبکہ وہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آکر مرجاتی ہیں ‘‘ عظیم ، شاعر،مصلح اور مفکر جناب علامہ اقبال ؒکی ذاتی ڈائری میں رقم یہ جملہ یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی پر پوری طرح سے منطبق ہوتاہے کہ جن کے صرف ایک غلط فیصلے نے جہاں ہنستی بستی یوکرینی قوم کو عذابِ دربدری کی دوزخ میں دھکیل دیا ہے وہیں خوب صورت اور پرشکوہ ملک یوکرین کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔یاد رہے کہ یوکرینی قوم روس کے ساتھ جنگ کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی اور یہ بات یوکرینی صدر زیلنسکی اور اس کی کابینہ کے افراد بھی روزِ اوّل سے جانتے تھے مگر یوکرینی صدر کو زعم تھا کہ جیسے ہی روسی افواج نے یوکرین کی سرحد پر اپنا پہلا قدم رکھنے کی غلطی کی تو اگلے ہی لمحے امریکااور یورپی یونین کا عسکری اتحاد یعنی نیٹو افواج روس پر ہر طرف سے حملہ آور ہوجائیں گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین میں لشکرکشی کیے ہوئے دو ہفتے سے زائد ہونے کو آئے ہیں لیکن یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی، ابھی تک اِسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ روس کو شکست دے کر یہ جنگ باآسانی جیت سکتے ہیں۔
خدا جانے یوکرینی صدر کے نزدیک جنگ میں جیت کا اصل معنی و مفہوم کیاہے ۔شاید ولادمیر زیلنسکی تباہ حال سرکاری و رہائشی عمارتوں پر یوکرینی جھنڈا لہرانے کو جیت سمجھتے ہیں ؟ یا پھر وہ لاشوں اور زخمیوںسے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے سامنے کھڑے ہوکر وکٹری کا نشان بنا کر ویڈیو ،سوشل میڈیا ویب سائیٹ یوٹیوب پر اَپ لوڈ کرنے کو اپنی جیت گردانتے ہیں ؟ یا جیت سے اُن کی مراد پورا ملک روسی افواج کی دسترس میں دے کر یورپی ممالک سے امداد سمیٹنا ہے ؟۔اگر اِن ہولناک اور دل خراش واقعات کے رونما ہونے کو دنیا کی کسی بھی لغت میں جیت کہا جا سکتاہے تو پھر واقعی یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں واضح اور غیرمعمولی’’ جیت ‘‘حاصل ہوچکی ہے۔ لیکن اگر دو حریف ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں جیت کا اصل مطلب حریف ملک کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر اپنے ملک اور عوام کی جان و مال کا بھرپور انداز میں تحفظ کرنا ہوتا ہے توپھر یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کا حقیقی فاتح روس ہے اور ولادی میر زیلنکسی کی حیثیت ایک مفتوح ملک کے شکست خوردہ صدر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یوکرینی صدر کے پاس اپنے ملک کو جنگ کے عفریت کے منہ میں جانے سے بچانے کے بے شمار آپشن موجودتھے ۔ جس میں سب سے بہتر آپشن امریکا ، نیٹو اور روس کے درمیان موجود تنازعات میں اپنے ملک کو مکمل طور پر غیر جانب دار رکھنا تھا۔ ویسے بھی روسی صدر ولادی میر پوٹن کا یوکرینی قیادت سے صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ امریکا اور روس کے معاملہ میں اپنی غیرجانب دارانہ حیثیت کو واضح کرے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے سے ایک روز قبل غیر متوقع طور پر یوکرینی صدر زیلنکسی نے اِس بات پر اپنی آمادگی کا اظہار بھی کردیا تھا کہ ’’یوکرین کے لیے بہتر یہ ہی ہوگا کہ وہ ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دے جس میں روس اور امریکا کے ساتھ ایک جیسے سفارتی تعلقات برقرار رکھنا ممکن ہوسکے‘‘۔ یوکرینی صدر کا یہ ہی وہ بیان تھا ، جس سن کر دنیا کے اکثر تجزیہ کاروں کو یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اَب روس اور یوکرین درمیان کے باقاعدہ جنگ کی نوبت نہ آئے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ یوکرینی صدر زیلنکسی اپنے اس بیان پر چند گھنٹے بھی قائم نہ رہ سکے اور امریکی صدر جوبائیڈن کی جھوٹی سچی یقین دہانیوں میں آکر روس کو اپنے ملک پر حملہ آور ہونے کے لیے للکار بیٹھے۔ جس کے بعد روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے بلاکسی تاخیر اپنی افواج کو یوکرین پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کردیئے۔ آخری موصولہ اطلاعات تک روسی افواج یوکرین کے تمام بڑے اور شہروں پر اپنا قبضہ مستحکم کرچکی ہے ۔نیز اِس جنگ میں یوکرینی افواج کی 90 فیصد سے زائد عسکری تنصیبات بھی تباہ و برباد کردی گئی ہیں ۔ جبکہ یوکرین میں موجود تمام ایٹمی ری ایکٹر ز پر بھی روس قابض ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں یوکرین کے تمام قابل ذکر ساحلی شہر اور بندرگاہیں روس کے قبضے میں چلے جانے سے یوکرین مکمل طور پر ایک لینڈ لاک ملک بن چکا ہے۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد صدر زیلنسکی کا یہ کہنا کہ ’’مغرب نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے ،جبکہ یورپی ممالک نے یوکرین کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے لیے روس کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے‘‘۔اعترافِ شکست نہیں تو اور کیا ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کے درج بالا بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے رویے سے کس قدر مایوس ہو چکے ہیں۔ مگر دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اَب اُن کی جانب سے کسی بھی قسم کی پشیمانی یا مایوسی کا اظہار یوکرینی عوام کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ بظاہر مغربی ذرائع ابلاغ یوکرینی صدر زیلنسکی کو دنیا بھر کے سامنے ایک ہیرو بنا کر پیش کر نے کے لیے دن رات مصروف ِ عمل ہے لیکن اگر اپنا پورا ملک گنوانے اور اپنی قوم کو دربدر کرنے کے بعد اُنہیں ’’ہیرو‘‘ کا خطاب حاصل بھی ہوجاتا ہے تو ایسے’’کاغذی ہیرو‘‘ کو یوکرین کی تاریخ میں ایک قومی مجرم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ تاریخ کے طالب بخوبی جانتے ہیں کہ تاریخ اپنا فیصلہ اور نتیجہ جنگ کے دوران نہیں بلکہ جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد سنایا کرتی ہے۔
اگرچہ اس وقت ساری دنیا روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا ذمہ دار ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو بتا رہی ہے لیکن میری دانست میں یوکرین کو جنگ کا ایندھن بنانے کی تمام تر ذمہ داری اگر کسی ایک شخص پر عائد کی جانی چاہیے تو وہ یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ملک کی عسکری بے سروسامانی اور اپنی قوم کی ناتوانی کو یکسر نظر انداز کر کے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے اتحاد نیٹو کے بھروسے پر یوکرین کو روس کے خلاف میدان ِ جنگ میں اُتار دیااور اَب جنگ کا بدترین نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ یوکرین مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکا ہے اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کسی محفوظ بم پروف بنکر میں چھپ کر روزانہ مغربی اور یورپی ممالک سے مدد و اعانت کی بھیک مانگنے کی اپنی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈکرکے سمجھ رہے کہ یوکرین یہ جنگ جیت رہا ہے۔بقول شاعر
بڑا شاطر سیاست دان ہے وہ
اُسے معلوم ہے بھاؤ سروں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔