... loading ...
تحریکِ عدمِ اعتماد کے حوالے سے سیاسی منظر نامہ ہیجان انگیز ہو نے سے ملک میں بے یقینی کی فضا بڑھ رہی ہے جس سے حزبِ اقتدارکی صفوں میں موجوداعتماد ختم ہونے کے ساتھ حکومتی رٹ بھی متاثر ہوئی ہے پھربھی بحران کو ختم یا کم کرنے کے لیے کوئی خاص کوشش ہوتی دکھائی نہیں دیتی حالانکہ عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے سے ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوسکتا ہے ناکامی کی صورت میں بھی حکومتی رٹ مزید کمزور ہو جائے گی یوں انجام کا ر عام انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے اِس طرح فاتح اور شکست خوردہ کا فیصلہ کرنے کا ختیار ایک بارپھر عوام کے پاس آجائے گا۔
اپوزیشن حلقوں کے مطابق ایک ہفتہ قبل تحریکِ عدمِ اعتماد کا مسودہ تیار کر لیاگیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی زبوں حالی کا شکارہے لیکن معاشی بحرانوں سے نکلنے کاحکومت کے پاس کوئی واضح روڈ میپ نہیں خارجہ پالیسی کی ناکامی اورسیاسی عدمِ استحکام اور بے یقینی کوبھی جواز بناتے ہوئے کہاگیا ہے کہ قائدِ ایوان اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں لہذاگُڈ گورننس کے لیے موجودہ حکومت کو ہٹانا ضروری ہو گیا ہے پی پی ،ن لیگ،جمعیت علمائے اسلام ،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گرو پ اورعوامی نیشنل پارٹی کے اراکین نے مسودے پر دستخط کیے ہیں جن کی تعداد اسی کے قریب ہے قومی اسمبلی ہو یا پنجاب کی صوبائی اسمبلی،حکومتی اور اپوزیشن بینچوں میں کچھ زیادہ فرق نہیںحکومتی جماعت میں تشکیل پانے والے گروپوں اور اتحادیوں کو ساتھ ملا کر تحریک کو کامیاب بنانا کوئی مشکل نہیںمگر ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے دوران بے یقینی کی یہ فضا کسی طور ملک کے لیے بہتر نہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے جس سے سیاسی تلخی بڑھتی جا رہی ہے اب تو سنجیدہ عناصربھی مایوس ہوکرافہام و تفہیم کی راہ نکالنے کی بجائے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں ویسے بھی سیاسی تلخی کم کرنے کی زیادہ زمہ داری حکومتی حلقوں کی ہے مگر وہ ایوانوں کی لڑائی جلسے ،ریلیوں اور مظاہروں تک لے جا چکی ہے جس سے خدشہ ہے کہ کہیں ملک میں لاایند آرڈر کی صورتحال مزیدخراب ہوجائے کیونکہ ماضی میں جب بھی اقتدار کی جنگ شروع ہوئی اور ایوانوں کی لڑائی نے جلسے جلوسوںاور سڑکوں پر جلائو گھیرائو کی صورت اختیارکی تو غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنے کا موقعہ ملا عدمِ اعتماد کی موجودہ تحریک غیر جمہوری نہیں بلکہ اقتدار کی تبدیلی کا پُرامن راستہ ہے مگر ملک میں جس قسم کی غیرجمہوری فضا بنادی گئی ہے یہ ملک کی جمہوریت کے لیے بہتر نہیں۔
ناقص حکومتی کارکردگی سے اگر قائدِ ایوان اکثریت کے اعتماد سے محروم ہو جائیں تو حزبِ اختلاف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک کوبحرانوں سے نکالنے کے لیے آگے آکر تبدیلی کا جمہوری راستہ اپنائے ابھی تو عدمِ اعتماد پیش ہوئی ہے لیکن حکومتی بزرجمہروں کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں میلسی کے عوامی اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے جو لب و لہجہ اختیار کیا اُس کی کسی صورت تحسین نہیں کی جا سکتی جنوبی پنجاب کوالگ صوبہ بنانے کا بل پیش کرنے اور پانچ سو ارب کا ترقیاتی پیکج دینے کا اعلان اچھی بات ہے ہر حکمران کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے کرپٹ عناصر کے خلاف خون کے آخری قطرے تک جنگ کرنے کا علان بھی غلط نہیں مگریہ کہنا کہ اپوزیشن کی عدمِ اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کو تیار ہوں اور اِس کی ناکامی کے بعد جو میں اُن کے ساتھ کروں گا وہ بھی اِس کے لیے تیار رہیںیہ دھمکی آمیز لہجہ کسی جمہوری حکمران کو زیب نہیں دیتا جمہوریت میں لڑائی جھگڑے ،مارپیٹ اور خون خرابے کی بجائے جب انتقالِ اقتدار کے پُرامن راستے موجود ہیں تو غیر جمہوری راستے پر چلنے ،حریفوں کو دیوارسے لگانے اور اقتدار بچانے کے لیے خونریزی کو دعوت دینا کہاں کی حُب الوطنی ہے۔
پی پی کا لانگ مارچ اسلام آبادکی طرف رواں دواں ہے جگہ جگہ خطاب کرتے ہوئے لاہور پہنچ کر بلاول بھٹو کے موقف میںلچک آگئی ہے انھوں نے حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کوایک ہدف کہتے ہوئے کامیابی کی کی سوفیصد گارنٹی دینے سے انکار کیا ہے اِس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن اب بھی تلخیاں بڑھانے سے گریزاں ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جب حریف سیاستدانوں کو بیماری ،فضلواور چوروڈاکو کہا جائے گا تو کیا کوئی دستِ تعاون بڑھا نے پر آمادہ ہوگا؟ظاہر ہے کسی کے لیے ایسے حالات میں تعاون کرنا مشکل ہے تبھی ملک کو برداشت،عدم برداشت،اعتماد اور بداعتمادی جیسے حالات کا سامنا ہے ایسے ہی حالات مزید عرصہ رہتے ہیں تو ملک کی معاشی حالت میں بہتری کے امکانات کم ہو سکتے ہیںمسائل کو گرداب سے نکالنے کا اولیں فرض حکمرانوں کا ہے انھیں اپنے رویے میں رواداری اوربرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہورہا ایک جمہوری قرارداد کا سامنا جمہوری انداز میں کرنے کی بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر لانا تلخی بڑھانے کے مترادف ہے ۔
عدمِ اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے بارے ابھی وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اپوزیشن صفوں میں بھی اختلافِ رائے ڈھکی چُھپی نہیں مگرحکومتی جماعت میں بھی سب اچھا نہیں بلکہ سب سے بُری صورتحال حکومتی جماعت کی ہے جہاں پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کی تبدیلی کی خواہش لیکر کئی ایک گروپ سامنے آچکے ہیں جہانگیرترین کے بعد علیم خان کا الگ گروپ بنانااورپھر یکجا ہوکر عثمان بزدارپر تحفظات کا اظہار کرناحکومتی مشکلات بڑھانے کا باعث ہے گورنر سندھ عمران اسماعیل منانے لاہور پہنچ گئے ہیں مگر پنجاب حکومت سے مایوس لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکے عثمان بزدارکے خلاف حکومتی جماعت کے گروپ بددستور مورچہ زن ہیں ویسے بھی جولوگ وزیرِ اعظم کی بات سُننے سے گریزاں ہیں وہ مطالبات کی منظوری سے پہلے عمران اسماعیل کے کہنے پر سرنڈر نہیں کرسکتے مگرجو بھی ہو اپنی صفوں میں اتحادو اتفاق کی فضا بنانے کا طریقہ کار حکومتی جماعت نے ہی طے کرنا ہے علاوہ ازیں حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اب توواشگاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ عمران خان جلد بڑے فیصلے کر یں حالات تیزی سے اُن کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں پھربھی عثان بزدار سے دستِ شفقت رکھا جاتا ہے تو حکمران جماعت کو کسی بڑے سانحے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔
ممکن تھا عدمِ اعتماد کی بجائے اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ تک محدود رہتیں مگر حکمرانوں کا پنے ساتھیوں کو نظر انداز کرنا اور اتحادیوں سے بے رُخی نے اُنھیں سڑکوں اور چوراہوں کی بجائے ایوانوں میں طاقت کامظاہرہ کرنے کی راہ دکھائی ہے ن لیگ اور ق لیگ کی قیادت کو اسی رویے نے ایک میز پر لا بٹھایا ہے جہانگیر ترین کے بعد علیم خاںنے بھی مسلسل نظراندا ز کرنے پر ہی گروپ تشکیل دیے خرابی بسیار کے بعد وزیر اعظم نے اپنی جماعت کے ناراز ض اراکین سے ملاقاتیں شروع کی ہیں اگر یہ کام پہلے ہوتا یا ناراض کرنے کی نوبت ہی نہ آنے دی جاتی تو زیادہ بہتر تھالیکن حکمران خطرات کا سنجیدگی سے سامنا کرنے کی بجائے گرجنے اور برسنے کی روش پر عمل پیرا ہیںاگر اِس خود اعتمادی کی وجہ یہ ہے کہ شہاز شریف ،آصف زرداری اور فضل الرحمٰن کسی ایک طریقہ کار پر متفق نہیں تو حکمران جماعت میں کونسا اتحاد واتفاق کی مثالی فضا ہے ؟ملک کورواداری اور برداشت کی ضرورت ہے ٹکرائو کی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔