وجود

... loading ...

وجود

اسٹریٹ کرائم اور سندھ حکومت کی ذمہ داریاں ؟

پیر 07 مارچ 2022 اسٹریٹ کرائم اور سندھ حکومت کی ذمہ داریاں ؟

کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ کراچی میں پولیس اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شہر قائد میں جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے کسی خوف و خطر کے بغیر دن دیہاڑے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے واقعات روزہ مرہ کا معمول بن کر رہ گئے ہیں۔یعنی روزانہ کراچی کے باسیوں کو راہ چلتے نقدی، موبائل فون، موٹر سائیکل اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ بے چارے کچھ کر نہیں پاتے۔جبکہ کراچی کے باسیوں سے چھینی یا چوری شدہ موبائل فونز، موٹر سائیکلیں اور گاڑیاںکراچی سے باہر لے جا کر کوڑیوں کے مول بیچ دی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی وجہ جہاں سندھ پولیس کی ناقص کارکردگی ہے وہاں شہر بھر میں بگڑتے ہوئے معاشی حالات، منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور قانونی کمزوریاں بھی اسٹریٹ کرائمز بڑھنے کا سبب ہیں ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں نو عمر بچے یا نوجوان سٹریٹ کرائمز میں سب سے زیادہ ملوث ہوتے ہیں، جو اپنے خوابوں کی تعبیر محنت، تعلیم، قلم و کتاب کی بجائے اسلحہ کے زور پر تلاش کرنے لگے ہیں۔ جس عمر میں ان کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئیں وہ چاقو اور پستول تھامے ہوئے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ نوعمر بچے بالخصوص لڑکے جن کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں وہ معمولی چوری چکاری، جیب تراشی، اٹھائی گری میں ہی ملوث نہیں بلکہ بڑی ڈکیتیوں، گھروں، گوداموں اور دکانوں میں چوری کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ رہزنی، کار و موٹر سائیکل چوری کرنے جیسی سنگین وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ ایسے جرائم جو گلی محلوں میں انجام دیے جاتے ہیں، جن میں عام لڑکے، لڑکیوں، بچوں، بزرگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، انھیں’’اسٹریٹ کرائمز‘‘کہا جاتاہے۔
کراچی پولیس کے مطابق گلی محلوں میں 11 سے 12 سالہ بچوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، یہ بچے موٹر سائیکل اور موبائل لوٹ کربہت ہی کم قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اور اس عمر کے بچوں میں جرائم بڑھنے کی بڑی وجہ ان کی نشے کی عادت ہے۔ نشہ آورادویات بچوں کو باآسانی دستیاب ہیں، جس کے حصول کے لیے بچے چند ہزارروپے کے عوض چوری کی موٹر سائیکل فروخت کردیتے ہیں۔
تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کے تحت رواں سال کے صرف ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں 11 ہزار سے وارداتیں کراچی کے شہریوں کی جانب سے رپورٹ کرائی جا چکی ہیں۔شہر قائد کے باسیوں کی جانب سے درج کرائی جانے والی رپورٹس کے تحت یکم جنوری سے 17 فروری تک کے درمیانی عرصے میں کراچی کی سڑکوں پر شہریوں سے 3 ہزار 845 موبائل فونز چھینے جا چکے ہیں۔نیز اس ڈیڑھ ماہ کے دوران اسلحے کے زور پر 672 موٹرسائیکلیں اور 20 گاڑیاں چھینی گئی ہیں جب کہ شہریوں کی 6 ہزار 87 موٹرسائیکلیں اور 296 گاڑیاں چوری بھی ہو چکی ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسٹریٹ کرائمز اور لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر پولیس اہلکار اور صحافی سمیت 13 افراد کو جرائم پیشہ عناصر جاں بحق بھی کر چکے ہیں۔ بہر دیر آید درست آید مقولہ کے عین مطابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر عادی مجرموں کی ای ٹیگنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے پولیس کو ہر ضلعے میں رینجرز کی مدد سے کارروائی کرنے کی ہدایت کردی۔اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ’’ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ عادی مجرموں کی الیکٹرونک ٹیگنگ کی جائے، اس طرح کے مجرموں کے ساتھ ایسی ڈیوائس لگائی جائے تاکہ وہ کسی علاقے میں جائے تو پولیس کو اس کے بارے میں پورا علم ہو۔‘‘انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ’’ میں اکثر خاموشی سے شہر کے دورے کرتا ہوں لیکن پولیس اور رینجرز سڑکوں اور متعلقہ علاقوں پر کہیں نظر نہیں آتے، اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں اب بالکل برداشت نہیں کی جائیں گی۔کیونکہ شہر میں وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور اِن واقعات میں شہریوں کی قیمتی جانیں بھی جار ہی ہیں۔‘‘
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ بھی عندیہ دیا کہ’’ میں اب شہر کے اچانک دورے کروں گا، پولیس اور رینجرز کی جو بھی حکمت عملی ہے وہ بنائیں اور مجھے نتائج چاہئیں۔کیونکہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔‘‘یقیناً وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے سدباب کے لیے جو انتظامی فیصلے اور احکامات رواں ہفتے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ وہ وقت کی ضرورت ہیں اور اِن فیصلوں سے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام میں کافی مدد بھی حاصل ہوگی ۔لیکن اِن اقدامات کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام جن کا آغاز کیے بغیر کراچی سے اسٹریٹ کرائمز کا مکمل خاتمہ کا خواب کبھی پور ا نہیں سکتا۔ جیسے اسٹریٹ کرائمز کی زیادہ تر رپورٹیں تھانے میں نہیں لکھوائی جاتیں۔ زیادہ تر لوگ پولیس کی جانب سے صحیح اور بروقت اقدام نہ کیے جانے، رشوت ستانی اور ملزمان کو پکڑنے کی بجائے سائل کو بے جا تنگ کرنے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے خوف سے پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والے جرائم سے آگاہ نہیں کرتے۔
یوں بڑی تعداد میں جرائم کے کیس سرے سے درج ہی نہیں ہو پاتے۔ جو کہ غلط ہے، ہر شہری کو کیس لازمی رپورٹ کروانا چاہیے، اور پولیس کو بھی عوام کے ساتھ اعتماد کی فضا قائم کرنی چاہیے، تاکہ حکام کے پاس اس علاقے اور طریقہ واردات کا ریکارڈ موجود ہو، جو مستقبل میں ایسے کیس روکنے کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔ اسی طرح ہمارے ہاں، مجرمان تک پہنچنے اور تفتیش کا نظام اتنا مثالی اور جدید نہیں، جتنا آج کے زمانے میں ہو چکا ہے، اس طرف بھی توجہ دیتے ہوئے نظام کو جدید بنانا ہوگا۔ اس سنگین معاملے میں بہت زیادہ قصور وار ہمارے تمام حکمران بھی ہیں، جنھوں نے کئی دہائیوں سے قوم کے نوجوانوں کی تعمیر کے لیے صرف نعرے لگائے ہیں مگر ان کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت نے اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی پیش نہیں کی، اور نہ ہی نوجوانوں کو مجرمانہ سرگرمی سے دور رکھنے کے لیے کوئی خاطرخواہ اقدامات کئے۔جس کا خمیازہ ہمیں اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر