... loading ...
روسی صدر پوتن نے جس وقت یوکرین کے خلاف ایٹمی فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا تو دنیامیں کم ہی لوگوں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ تیاری ایک ایسے ملک کے خلاف کی جارہی ہی جو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے بہت پہلے دستبردار ہوچکا ہے۔صدر پوتن کے اعصاب پر جو جنگی جنون سوار ہے اس نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔یوکرین کے خلاف روسی جارحیت نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے تک پہنچادیا ہے اور اس میں سب سے بڑا خطرہ نیوکلیائی جنگ کا ہی ہے۔روسی وزیرخارجہ لاوروف نے بھی وارننگ دی ہے کہ اگر تیسری جنگ عظیم چھڑتی ہے تو یہ جنگ ایٹمی اور تباہ کن ہوگی۔خدانخواستہ اگر یہ جنگ اس انجام تک پہنچی تو دنیا کتنی بدصورت ہوجائے گی، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ روسی جارحیت کا مقابلہ کررہے یوکرین نے اقوام متحدہ اورروس کی نگرانی میں ہوئے ایک عالمی معاہدے کے تحت خود کو پوری طرح ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرلیا تھا۔ 1996سے 2001کے درمیان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کی جو کارروائی یوکرین نے انجام دی تھی، اس کے بارے میں اب بہت سے یوکرینی باشندوں کا خیال ہے کہ یہ ان کے ملک سے سرزد ہونے والی ہمالیائی غلطی تھی۔
جس وقت صدر پوتن یوکرین کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے رہے تھے تو انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال خود ان کے لیے بھی اتنا ہی تباہ کن ہوگا،جتنا کہ یوکرین اور باقی دنیا کے لیے۔ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت اور تباہ کن کارروائیوں نے اس وقت پوری دنیا کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر یوروپی ملکوں پر ہے، جو روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔گزشتہ اتوار کو جب روسی صدر پوتن نے اپنی ایٹمی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھنے کا حکم دیا تو ان تمام لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، جو ایٹم کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔بلاشبہ ایٹم دنیا کی تباہی وبربادی کا آخری ہتھیار ہے جس کی باقیات جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔
اس دوران یوکرین کے خلاف جاری پوتن کے فوجی آپریشن کی زد ہندوستان پر بھی پڑی ہے اور وہاں ایک ہندوستانی طالب علم کی ہلاکت نے یوکرین میں زیرتعلیم ہزاروں ہندوستانی طلبا کے مستقبل پر سوالیہ نشان قایم کردیا ہے۔ حالانکہ یوکرین نے پہلے ہی ان خطرات سے دنیا کو آگاہ کردیا تھا اور بیشتر ملکوں نے اپنے شہریوں کو یوکرین سے واپس بلالیا تھا، لیکن ہماری حکومت چونکہ اسمبلی انتخابات میں مصروف تھی، اس لیے اسے یوکرین میں پھنسے ہوئے اپنے نوجوانوں سے زیادہ ان ووٹوں کی فکر تھی جو اسے تاحیات اقتدار میں رہنے کے لیے مطلوب ہیں۔ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 600سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں ایک درجن سے زیادہ کمسن بچے بھی شامل ہیں۔یوکرین کے سینکڑوں فوجی روسی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں اور شہری علاقوں میں تباہی وبربادی کے دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف پر میزائل حملوں اور زبردست بمباری کے نتیجے میں زبردست تباہی مچی ہے۔یوکرین کے صدر نے روسی جارحیت کو کھلی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی سا لمیت کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے راجدھانی مسلسل خطرے میں ہے۔یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے اور تقریبا /لاکھ آبادی کے شہر خارکیف سے موصولہ ویڈیو میں صاف نظر آرہا ہے کہ رہائشی علاقوں میں بمباری ہورہی ہے۔ زوردار دھماکو ں سے اپارٹمنٹ اور عمارتیں مسلسل لرز رہی ہیں۔ آسمان پردھوئیں کا غبار نظرآرہا ہے۔ گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی دلدوز تصویریں منظرعام پر آنے کے باوجود روسی فوج نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جنگ میں سب سے بڑا خون سچائی کا ہوتا ہے اور وہ ہمیں یوکرین میں نظر بھی آرہا ہے۔ روس اس بات سے لاکھ انکار کرے کہ اس نے یوکرین کے بے قصور باشندوں کو نشانہ نہیں بنایا ہے، لیکن یوکرین کے مختلف شہروں سے آنے والی درجنوں دلخراش تصویروں نے اس دعوے کو منہ چڑایا ہے۔روسی جارحیت کے نتیجے میں اب تک سات لاکھ یوکرینی باشندے نقل مکانی کرچکے ہیں۔پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے سربراہ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس کے فوجی حملے جاری رہے تو یوکرین میں اپنے گھروں سے بھاگنے والے غیرمحفوظ لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔واضح رہے کہ یوکرین میں سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جنھیں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے کیونکہ بمباری سے پانی فراہم کرنے والی لائن، بجلی کی سپلائی اور بنیادی خدمات تباہ ہوچکی ہیں۔ اب تک چھ لاکھ 77 /ہزار لوگ یوکرین سے پڑوسی ملکوں میں بھاگ گئے ہیں۔ ان میں تقریبا آدھے لوگ فی الحال پولینڈ میں ہیں۔ سرحد پار کئی کلومیٹر لمبی قطاریں دیکھی گئی ہیں اور کچھ لوگ کئی روز سے انھیں عبور کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جس سے جنگ کرنے والا بے خبر نہیں ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ میں فریقین سے فوری طورپر جنگ بندی اور گفتگو سے حل نکالنے کی اپیل کی گئی ہے۔ یواین او کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ روسی ایٹمی فوجوں کو ہائی الرٹ پر رکھا جانا رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ ہے۔ایٹمی جنگ کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ اعلی فوجی حکام کے ساتھ اپنی میٹنگ میں روسی صدر پوتن نے وزیردفاع اور ملٹری اسٹاف کے سربراہ کو حکم دیا کہ ایٹمی فوجی ٹکڑیوں کو جنگ سے متعلق ذمہ داریوں کے لیے تیار رکھا جائے۔ ٹی وی پر نشر کیے گئے بیان میں پوتن نے کہا کہ معربی ممالک نہ صرف ہمارے ملک کے خلاف معاشی پابندیاں لگارہے ہیں بلکہ ناٹو کے اہم ممبران ملکوں کے اعلی افسران نے ہمارے ملک سے متعلق جارحانہ بیان بھی دئیے ہیں۔
دراصل پوتن نے ایٹمی ہتھیاروں سے آراستہ فوجی ٹکڑیوں کو تیار رہنے کا حکم دراصل ان سخت پابندیوں کے بعد ہی دیا ہے جن کے نتیجے میں روس معاشی بائیکاٹ جھیل رہا ہے اور وہ مغرب میں بالکل یکا وتنہا رہ گیا ہے۔ وائٹ ہاس کے ترجمان نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روسی صدر پوتن یوکرین کو شکست دینے کے لیے ممنوعہ کیمیائی اورایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی جرائم کی عدالت یوکرین کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگر پوتن اور ان کی حکومت جنگی جرائم میں ملوث پائی گئی تو اسیسنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایٹمی حملہ کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، لیکن روس نے امریکہ، مغربی ملکوں اور ناٹو کی دھمکیوں کے بعد جس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس سے خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے تک تو یوں لگ رہا تھا کہ اگر جنگ چھڑی بھی تو زیادہ نہیں چلے گی، لیکن روس کے دھاوا بولنے کے بعد پچھلے ایک ہفتہ میں حالات جس تیزی سے ابتر ہوئے ہیں، اس کے پیش نظر کوئی بھی قیاس آرائی آسان نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خوفناک نتائج دنیا پہلے ہی بھگت چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ نے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گراکر دنیا کو اس کے حتمی انجام سے باخبر کردیا تھا۔ اس تباہی وبربادی کی دلخراش یادیں آج بھی رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں۔ وہ پہلا ایٹمی تجربہ تھا جس سے پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ پچھلے 75 برسوں میں دنیا کے کچھ ملکوں نے جس قسم کے مہلک ایٹمی ہتھیار بنالیے ہیں، ان سے ہونے والی تباہی وتاراجی کا تصور ہی محال ہے۔اکیلے اس وقت روس کے پاس تقریبا 6/ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ امریکہ کے پاس اس سے کچھ ہی کم ہیں۔چین اپنے پاس 350/ ایٹمی ہتھیار ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ فرانس، برطانیہ، ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک بھی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ شمالی کوریا کی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ بھی کم ڈرانا نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس کے پاس جتنے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں وہ خود کو اتنا ہی محفوظ تصور کررہا ہے، لیکن یہ محض خام خیالی ہے کیونکہ ایٹم دنیا کے لیے مکمل تباہی کا ہتھیار ہے-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔