... loading ...
’’یوکرین میں جاری تمام تر افراتفریح کی ذمہ داری امریکا اور اس کے حلیفوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ واشنگٹن نے ہی یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کو بڑھا کر خطے میں جنگ کی آگ بھڑکائی ہے‘‘۔چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والا یہ اہم ترین بیان روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ پر اَب تک سب سے حقیقت پسندانہ ’’سفارتی تبصرہ ‘‘ ہے۔ دراصل یوکرین کو ہلاکت خیز جنگ کا سامنا صرف اِس لیے کرنا پڑرہا ہے کہ اُس کی قیادت نے دودہائی قبل ،بلاسوچے سمجھے مغربی ممالک ،خاص طور پر امریکا کی یقین دہانیوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیا تھا۔ اَب امریکی پالیسیوں کو دل و جان سے اختیار کرنے کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہورہاہے کہ یوکرین روس کے خلاف جنگ میں شکست کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور امریکا سمیت کوئی بھی مغربی ملک یوکرینی عوام کی مدد کرنے کا اپنا برسوںپرانا وعدہ پورا نہیں کررہا۔
واضح رہے کہ یوکرین پہلے روس کا ہی حصہ تھا۔یوکرین1919 میں روس میں شامل ہوا تھا اور پھر 1991 میں روس سے الگ ہوگیاتھا۔ یوکرین روس سے علیحدگی کے وقت ایک ایٹمی طاقت تھا ۔ امریکا اور مغربی ممالک کے نیٹو اتحاد نے یوکرین سے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی درخواست کی اوراُس وقت کی یوکرینی قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ’’ اگر یوکرین نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کردیتا ہے تو نیٹو اتحاد میں شامل تمام مغربی و یورپی ممالک ہر مشکل موقع یا کسی دشمن ملک کی جارحیت کے وقت یوکرین کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘۔ یعنی جب بھی کسی ملک نے یوکرین پر جنگ مسلط کی تو تمام نیٹو ممالک مل کر یوکرین کا ساتھ دیں گے اور یوکرینی افواج کے شانہ بشانہ اُس کے دشمن سے جنگ لڑیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عین وہی زمانہ تھا جب امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے معاشی ترغیبات کے ساتھ ساتھ ،سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جاری تھیں اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی پورے شد و مد کے ساتھ ’’رول بیک ایٹمی پروگرام ‘‘ جیسے جملوں کی گونج سنائی دینا ایک معمول کا واقعہ بن چکا تھا ۔ لیکن ریاستِ پاکستان نے امریکا اور مغربی ممالک کی بات سننے اور ماننے سے صاف انکار کردیا اور تمام تر عالمی پابندیوں کے باوجود اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ مگر پاکستان کے برعکس یوکرین نے ایک ایٹمی قوت ملک ہونے کے باوجود، امریکا اور اس کے حلیفوں کی یقین دہانیوں میںآکر اپنا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر رول بیک کرنے کی حامی بھر لی۔ساری دنیا نے یوکرین کے اِس فیصلہ کی خوب ستائش کی اور یوکرینی عوام نے بھی مغربی اقوام کی جانب سے پیش کردہ پرکشش ترغیبات کو قبول کرکے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے فیصلہ پر زبردست مسرت کا اظہار کیا تھا۔
اگرچہ یوکرین نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرکے امریکا اور نیٹو اتحاد کے ساتھ کیا گیا وعدہ نبھادیا تھا، مگر جواب میں یوکرینی عوام کے ساتھ کیے گئے عہد کبھی بھی نبھائے نہ جاسکے۔ المیہ تو یہ رہا کہ نائن الیون کے دل خراش واقعہ کے بعد دنیا کے ہر چھوٹے ،بڑے اور غیر اہم ملک کو بھی نیٹو اتحاد میں شامل کرلیا گیاتھا ،لیکن افسوس!یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کی علامتی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی ۔ اگرآج یوکرین کے بعض دفاعی تجزیہ کار عالمی ذرائع ابلاغ پر یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’اگر یوکرین بھی ایٹمی طاقت ہوتا تو کیا روس اس پر یلغار کر سکتا تھا؟‘‘۔اور پھر خود ہی جذباتی انداز میں جواب دے رہے ہوتے ہیں کہ ’’ یقینا ہرگز نہیں ‘‘۔سچ تو یہ ہے کہ یوکرین اور روس کی جاری جنگ نے برسوں پرانا مقولہ بالکل سچ کردکھا یا کہ ’’اپنی جنگ خود لڑنا پڑتی اور کوئی دوسرا آپ کی جنگ کبھی نہیں لڑتا‘‘۔یوکرین کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اُس کی قیادت اور عوام آخری لمحات تک اس وہم اور مغالطہ کا شکار رہی کہ ’’ امریکا اور اُس کے حلیف اپنے وعدے کے مطابق یوکرین کی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے اپنی افواج یوکرین میں اُتاریں گے‘‘۔
اس لیے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا امریکا اور مغربی ممالک کو مخاطب کرتے یہ شکوہ کرنا بالکل بجا ہے کہ ’’دنیا نے یوکرین کو روس کے سامنے بالکل تنہا اور بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے‘‘۔جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں عالمی ذرائع کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ ’’امریکا کسی بھی صورت یوکرین میں امریکی افواج کو نہیں اُتارے گا‘‘۔ مشکلات و آلام میں گھرے ہوئے یوکرینی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اگرچہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے روس پر سخت معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ مگر کیا یہ پابندیاں دربدر ہونے والے لاکھوں یوکرینی عوام کے دُکھ کا مداوا کرسکیںگی؟یا اُن کی اشک شوئی کے لیے کافی ہوں گی؟۔یقینا یہ پابندیاں یوکرین کو اُس کی آزادی دوبارہ واپس نہیں دلاسکتی ۔جبکہ کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یورپی اور مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد ہونے والی معاشی پابندیاں کب تک برقرار رہتی ہیں ؟۔ غالب اِمکان یہ ہی ہے کہ جیسے ہی تھوڑا وقت گزرے گا ،امریکا اور مغربی ممالک اپنے فوائد کے لیے جلد ہی روس پر سے معاشی پابندیاں ہٹانے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ کیونکہ امریکا اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کے لیے کسی ملک پر پابندیاں لگانے اور ہٹانے کا کھیل ماضی میں بھی بے شمار بار کھیل چکاہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ یوکرین ہی نہیں دنیا کا کوئی بھی ملک امریکا کی طرف سے روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔
دراصل روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر دنیا کی تقسیم بالکل واضح ہے ۔یعنی امریکا،برطانیا اور یورپی ممالک تو مکمل طور پر اِس تنازعہ میں عسکری میدان میں نہ سہی بہرحال سفارتی میدان میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔لیکن دنیا کے دیگر اکثر ممالک کی طرف سے روس کو خاموش سفارتی حمایت حاصل ہے۔نیز بیشتر مغربی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کا اصل حمایتی چین ہے اور یہ سارا مسئلہ چین نے ہی کھڑا کیا ہے جب چین نے تائیوان کی طرف پیش قدمی کی تو امریکہ سمیت اکثر ممالک نے تائیوان کی حمایت کی اور چین کی مذمت کی تھی۔ ایسے میں چین نے امریکااور روس کو آمنے سامنے کر دیا۔یوں یکلخت تائیوان کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا اور یوکرین سامنے آ گیا جبکہ بیجنگ کی طرف تائیوان کا برّی و بحری محاصرہ جاری ہے اور چینی لڑاکا طیارے تائیوان کی فضائی حدود میں بدستور محو پروازہیں۔ مگر عالمی میڈیا میں چونکہ اِس وقت یوکرین کا مسئلہ چھایا ہوا ہے، اس لیے کچھ بعید نہیں کہ یوکرین جنگ کی افراتفریح میں اچانک چین ،تائیوان کو اپنے ملک میںشامل کرکے دنیا کو حیران و پریشان ۔واقعہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں کسی کو دوست نہیں مانتی ہیں۔ چین کیوں امریکا کو ایک عالمی طاقت کے طور پر برداشت کرے جبکہ وہ خود بھی عالمی سپرپاور بننے کا اُمید وار ہو۔
دوسری جانب یوکرین پر روسی حملے کے چند گھنٹے بعد روس کا دو روزہ دورہ کرنے والے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے ماسکو میں ہونے والی تین گھنٹے کی طویل ملاقات بھی، پوری دنیا کو اپنی جانب مبذول کرنے کا غیرمعمولی حوالہ بن گیا۔ خصوصاً بھارتی میڈیا نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ ماسکو کے اہداف اور مقاصد منفی انداز میں اچھالا۔ وزیراعظم پاکستان کے حوالے یوکرین کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، کیونکہ یوکرین پر حملے والے دن وزیراعظم پاکستان عمران خان کی روس کی موجودگی سے دنیا بھر کوپیغام مل گیا ہے کہ پاکستان اِس تنازعہ میں کس ملک کے ساتھ کھڑا ہے۔
اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے چند دنوں میں روسی حملہ نیٹو، یورپین یونین، برطانیا اور ان کے ہمنوا حلیفوں کا ’’ردِعمل‘‘ روس کو کب اور کتنے بڑے خسارے سے دو چار کرتاہے۔نیزہمارے لیے سب سے اہم یہ کہ پاکستان جو خالصتاً دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر، روس کے اتنے قریب آچکا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے ،جس کا وزیراعظم عین اُس لمحے ماسکو میں تھا، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنی افواج کو یوکرین میں لشکر کشی کے احکامات جاری کررہے تھے۔ اس متعلق بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس سے غیر معمولی فوائد حاصل ہوئے ہیں اور اَب مستقبل میں دیکھنا یہ ہوگا کہ یوکرین کی جنگ میں اتنی واضح سفارتی پوزیشن لینے سے پاکستان کتنے فوائد سمیٹ پاتاہے؟۔
یاد رہے کہ پاکستان کو حاصل ہونے والے فائدہ اور نقصان زیادہ تر انحصار یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے حتمی نتائج پر ہوگا۔ اگر تو اِس جنگ میں روس ایک فاتح کے طور پر نمودار ہوتاہے تو پاکستان کو روس کی جانب سے غیر معمولی سیاسی ،سفارتی اور دفاعی فوائد حاصل ہونا ایک یقینی اَمر ہوگا ۔ کیونکہ نازک ترین حالات میں جب دنیا کا کوئی بھی ملک کھل کر روس کی اعلانیہ حمایت کرنے سے قاصر نظر آرہا تھا ،ایسے مشکل وقت میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب روسی صدر ولادی میر پوٹن کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کا سفارتی احسان روس کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش اور یادگار واقعہ بن کر ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔ لیکن اگرخدانخواستہ جنگ کا نتیجہ مختلف بھی برآمد ہوتاہے ، تب بھی پاکستان زیادہ خسارہ اور نقصان میں اس لیے نہیں رہے گا کہ چین جیسی بڑی معاشی طاقت پاکستان کی پشت پر موجود ہے۔ ہماری ناقص میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں یوکرین شکست قبول کرلے گا کیونکہ روس کی فوجی طاقت کے سامنے یوکرین کی فوجی قوت بہت کمزور ہے۔ 4کروڑ 40لاکھ آبادی والے ملک یوکرین کی کل فوجی نفری اڑھائی لاکھ بتائی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں روس کی عسکری طاقت چھ گنا زیادہ اور روس نے تین ا طراف سے حملہ کرکے جہاں یوکرین کے فوجی اڈوں اور تنصیبات کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے وہیں یوکرین کا راستہ ساری دنیا سے کاٹ دیاہے۔ یعنی یوکرین اپنی شکست کو چند روز تک ٹال تو ضرور سکتاہے مگر یہ جنگ بہرحال جیت نہیں سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔