... loading ...
یوکرین پر روس کا حملہ شیطانی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ ماسکو مشرقی یورپ میں اپنی بلادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا روسی عناد میں ان ممالک میں سیاسی و عسکری سرائیت کی پالیسی پر گامزن ہے۔ نتیجتاً یوکرین جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ وہاں کے عوام بڑی طاقتوں کے مکروہ خونی سیاست کا شکار بن چکے ہیں۔ یوکرین1919ء میں سویت یونین کا حصہ بنا۔ افغانستان پر روسی فوجی جارحیت کے دوران اس ملک کے فوجی مظلوم افغان عوام کی آزادی، اقتدار اعلیٰ روندنے اور سنگین انسانی جرائم میں حصہ دار تھے۔ 8اکتوبر2001ء کو افغانستان پر امریکی اور نیٹو افواج کے حملے کی ماسکو نے حمایت و ساتھ دیا تھا۔ امریکا و نیٹو کے افغانستان میں جاسوسی کے مربوط نیٹ ورک اورفوجی قوت و اسباب دیکھ کر ماسکو کی نیندیں حرام ہوئیں تو اپنی پالیسیوں سے رجوع کرلیا۔ ملا محمد عمر مجاہد مرحوم کی حکومت گرانے میں ماسکو امریکا کا اتحادی بنا تھا ،جبکہ اب یوکرین پر فوجی حملے پر سیخ پا ہے۔اس تناظر میں افغانستان نے کسی جانبدرانہ ردعمل کی بجائے زور دیا ہے کہ دونوں ملک بات چیت کا راستہ اپنائے اور غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی پالیسی پاکستان نے بھی اپنائی ہے۔ بلاشبہ اس جنگ کی طوالت سے دنیا نئی مشکلات اور آزمائشوں میں مبتلا ہوگی۔ خصوصاً یوکرین کے ہمسایہ ممالک اور قدرے دور واقع مالک بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ امریکا یوکرین کے لیے بھاری فوجی امداد کا کہہ چکا ہے، تاکہ مدافعت کر سکے۔امریکا9 2فروری2020ء کے دوحامعاہدہ نہ صرف فراموش کر بھیٹا ہے،کابل حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہے، بلکہ ان کے جائز اثاثوں تک پر قابض ہے۔ افغانستان کو سیاسی ، معاشی اور اقتصادی پابندیوں کے چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔اس کے بر عکس امارت اسلامیہ دوحا معاہدے کے ذریعے امریکا اور دنیا کو ضمانت دے چکی ہے کہ ان کی سرزمین امریکا، ہمسائیوں سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر قائم ہے۔
مشرقی یورپ میں جنگ کے ان ایام میں واشنگٹن 26 فروری 2022ء کوکچھ نرمی کا اعلان کرچکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ’’ انتھونی بلنکن‘‘ کے مطابق افغان حکومت اور اس کے اہم ارکان جن پر بین الاقوامی پابندیاں ہیں، کو نجی کمپنیوں سے کاروبار کی اجازت ہوگی۔ کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہا افغانستان میں کاروباری سرگرمیاں شروع ہوں۔ اور افغانستان میں کمرشل اور ذاتی بینکنگ نظام میں بہتری ہو تاکہ کاروبار اور امداد میں آسانی ہو اور مختلف شعبوں میں کاروبار کے فروغ کاعندیہ دیا ہے۔ البتہ یہ بھی قرار دیا ہے کہ افغان حکومت پر پابندیاں بدستور رہیں گی۔ اعلان محض نجی کمپنیوں اور امدادی اداروں پر ان پابندیوں میں نرمی لانے سے متعلق ہے۔امریکی چوہدراہٹ اور سامراجیت کا یہ اظہار بتاتا ہے کہ ابھی افغانستان کے لیے اطمینان کے دن قریب نہیں ہیں۔ امریکا اب بھی شر کی نیت رکھتا ہے ، جہاں سے نظام کی تبدیلی کی باتیں افغانستان کو مصیبت کے ایک اور پڑائو میں داخل کرنے کی تخریب کا اظہار ہے۔افغانستان یقینا مزید کسی بحران و ابتلا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمسایہ ممالک کے لیے بھی ایسی کوئی صورت غیر یقینی صورتحال کا باعث بنے گی۔ چین، پاکستان، ایران، بالخصوص افغانستان میں نظام کی مضبوطی کی ضرورت سے غافل نہ ہوں۔ کابل کی حکومت اگر چہ اس پورے منظر و پس منظر سے آگاہ ہے۔چناں چہ ا سے افغانستان کے اندر ہم آہنگی کی فضا بنانے کا ماحول پیدا کرے اس کے لیے پالیسوں اور رویوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی ۔ انتشار کا باعث بننے والے اسباب کے تدارک و سدباب کے لیے سیکورٹی نظام کو وسعت دینی چاہیے۔ یقینا حکومت نچلی سطح تک سیکیورٹی نظام رکھتی ہے۔تاہم ایران کے بالخصوص عوامی رضا کار فورس( بسیج) اور دوسرے اقدامات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ افغان اقتدار اعلیٰ کی حفاظت کی خاطر اپنے طرز کی حکمت عملی اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔یعنی ایران کی نظیر رہنما بن سکتی ہے۔ ایران نے اپنے مفاد کے لیے افغانستان پر حملے میں امریکا و نیٹو کا ساتھ دیا۔ تہران کا مقصد شمال کے صوبوں اور مسلکی و لسانی اکائیوں کو اقتدار دلانا تھا۔ مقصد کی خاطر بھاری سرمایہ لگایا۔ بلوچستان کے پشتون سیاسی افراد تک کو حمایت و تعاون کی غرض سے رقوم دیں۔ شمالی صوبوں کا بہت زیادہ انحصار ایران پر تھا۔ مابعد افغانستان میں امریکی و نیٹو مخالفت کے باوجود ایران شمال کی معاونت اور ان کے مفادات کے تحفظ کی پالیسی سے دستکش نہ ہوا۔
2010ء میں تیونس میں عوامی بیداری کی تحریک جو عرب بہار کے عنوان سے معروف ہوئی ،مصر ، لیبیا اور دوسرے ممالک تک پہنچ گئی۔ ایران نے عرب بہار کی حمایت کی۔ جب بیداری کی لہر شام کے اندر اٹھی تو اس سے ایران مضمحل ہوا۔ یوں تہران اور حزب اللہ نے شام کے اندر خاندانی نظام کو تقویت دی۔ تبدیلی کی تحریک دار و گیر اور شامی عقوبت خانوں میں دب گئی۔ داعش، جبہ النصرہ، احرار الشام کی صورت میں مسلح کارروائیاں شروع ہو ئیں،یہ گروہ داعش میں ضم ہوئے۔ جس نے شام کے 80فیصد حصے کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ تمام زمینی سرحدوں پر تصرف قائم کرلیا۔ عراق کے اندر ایران نے امریکا کے ساتھ ملکر صدام حکومت کا خاتمہ کر کے عراقی خطرہ ٹال دیا۔ جس کے بعد وہاں سیاسی نظام اور معاشرتی توازن بگڑ گیا۔ دراصل ان حالات نے مسلکی و قومی مزاحمت کو ماحول مہیا کیا ، داعش کے ظہور عوامل یہی بتائے جاتے ہیں ، جسے کہا جاتا ہے کہ امریکی مالی تعاون حاصل ہوئی۔ شام کے اتار چڑھا? سے تہران کو یقین ہو چلا کہ داعش کی کامیابی کی صورت میں اس گروہ کا اگلا ہدف ایران ہوگا۔ ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای کہہ چکے ہیں کہ اگر مدافعین حرم جہاد نہ کرتے تو ہمیں یعنی ایران کو ہمدان، کرمان شاہ اور تہران میں داعش کا سامنا ہوتا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے ماسکو کا دورہ کیا۔ روس کے صدر کو حالات کی سنگینی پر قائل کرلیا۔جنرل قاسم سلیمانی کی تدبیر سے روس ،ایران، عراق، شام اور حزب اللہ پر مشتمل اتحاد نے داعش کا راستہ رو کا۔ روس نے اپنا میزائل سسٹم S300ایران کے سپرد کردیا۔ اس طرح داعش شام میں شکست کھا گیا۔ ایران نے بشار الاسد کی حکومت بچا کر دراسل خود کو اور خطے میں اپنے اثرات و مفادات کا تحفظ یقینی بنایا۔ ادھر مصر میں اخوان المسلمین کی، عوام کی بھاری اکثریت سے بننے والی حکومت امریکا اور آل سعود کے اشتراک سے جنرل السیسی کی آمریت میں تبدیل کردی گئی۔ امریکی صدر بارک حسین اوباما نے کہا کہ اگر اخوان سو فیصد ووٹ بھی لیتی تب بھی انہیں حکومت کرنے نہیں دیا جاتا۔سعودی ملوک نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ ہر چند کہ کابل کی حکومت کے لیے چیلنجز قدرے مختلف ہیں۔ تاہم افغانستان میں امن، ترقی اور معاشی خوشحالی اور اقتدار اعلیٰ کا تحفظ جیسی صورتحال کا سامناہے۔ حالیہ روس امریکا کشیدگی اور تنا ئو میں مذکورہ اہداف پائے جاسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔