وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کیخلاف تحریک ِ عدم اعتمادناکام ہو گی؟

اتوار 27 فروری 2022 عمران خان کیخلاف تحریک ِ عدم اعتمادناکام ہو گی؟

خبرگرم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر ِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کافی ہوم ورک مکمل کرلیاہے سابق صدر ِصف علی زرداری کے ذمے جو ٹاسک تھا وہ پورا کر کے کراچی گئے تھے۔ بہت سی چیزیں طے ہوچکی ہیں، قیادت نے اب صرف وقت کا تعین کرنا ہے شنیدہے کہ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد مارچ کے پہلے ہفتے میں جمع کرائی جائے گی اس حوالہ سے اگلے دوتین روز بہت اہم ہیں اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے آصف زرداری کی تجویز سمیت ق لیگ کے مطالبات پر بھی غور کرنے کے لیے نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں اہم فیصلے کریں گے شہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی ، مریم نواز ، حمزہ شہباز سے بھی اس میں مشاورت کی جائے گی۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے ق لیگ کی جانب سے پیش کی گئی شرائط غیرمتوقع نہیں تھی کیونکہ ق لیگ نے ہمیشہ حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور انپے کارڈ کادرست استعمال کیاہے یہی وجہ ہے مسلسل انکارکے باوجود عمران خان مونس الہی کو وفاقی وزیر بنانے پر مجبورہوگئے اسی لیے کہا جاتاہے سیاست میں کوئی چیزحرف آخرنہیں ہوتی جبکہ مسلم لیگ Q کے مطالبات کے حوالے سے ن لیگ میں بھی تقسیم موجود ہے۔ چوہدری شجاعت کی مشروط حمایت سے بھی واضح ہے کہ حکومتی اتحادی جماعت اپنی راہ جدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے موجودہ حالات کے تناظرمیں 27مارچ کو بلاول بھٹوزرداری کی قیادت میں کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ بھی خاصا اہمیت کاحامل ہے یہ بات بھی قابل ِ ذکرہے کہ ق لیگ کی حمایت کے ساتھ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اس کے بعد کا منظر نامہ پی ٹی آئی کی بجائے اْن لوگوں کے لیے تھوڑا پیچیدہ ہو جائے گا جو عمران خان کیخلاف ایک دوسرے کا ساتھ بہ امرمجبوری دے رہے ہیں کیونکہ ہر جماعت کے الگ الگ مسائل ہیں نون لیگ چاہتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے نئے انتخابات کرائے جائیں، پیپلز پارٹی اور ق لیگ موجودہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی سندھ اور مسلم لیگ Q کی پنجاب میں اقتدارمیں شمولیت کے بغیرکوئی اہمیت ہے نہ حیثیت اور مزے کی بات یہ ہے کہ فضل الرحمان تو اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں چاہے ان کے عہدے کی مدت ایک دن ہی کیوں نہ ہو یعنی ہر اپوزیشن جماعت کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔
جب سے PTIاقتدارمیں آئی ہے عمران خان حکومت کو قومی اسمبلی میں کبھی بھی عددی اکثریت نہیں ملی یہی وجہ ہے کہ عمران خان مختلف جماعتوںکے اتحاد کی بدولت حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے دوسری طرف اپوزیشن میں سے کوئی بھی وزیراعظم بن جائے، نئی بننے والی حکومت اپنے اتحادی پارٹنرز کے ساتھ انتہائی کمزور ہوگی کیونکہ ان لوگوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ق لیگ کے لیے موجودہ صورتحال ایک سنہرا موقع ہے جس میں وہ پرویز الٰہی کے لیے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا عہدہ چاہتی ہے۔ پرویز الٰہی حکومت کا باقی رہ جانے والا ڈیڑھ سال کا عرصہ پنجاب کے حکمران کی حیثیت سے پورا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی پارٹی میں دوبارہ جان ڈال سکیں لیکن یہ بات نون لیگ کے لیے انتہائی ناقابل قبول ہے کیونکہ وہ اپنا گڑھ سمجھا جانے والے صوبے سے اپنی مخالف سمجھی جانے والی جماعت کے حق مین دستبردار ہو کر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی شریف خاندان جانتا ہے کہ پنجاب کو پرویز الٰہی کے حوالے کرنے کا مطلب اپنی سیاست کو نقصان پہنچانا ہوگا اسی لیے جب شہبازشریف وزیر ِ اعلیٰ تھے انہوں نے ایک باربھی چوہدری برادران کو گھاس نہیں ڈالی نہ وہ مستقبل قریب میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کااحساس مسلم لیگ Q کوبھی ہے اسی لیے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لیے چودھری برادران نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ شرائط ماننے کی صورت میں پنجاب اور مرکز میں ان ہاؤس تبدیلی کی یقینی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔
محمد زبیر نے کہا کہ ق لیگ کے رہنما پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ہماری ترجیح تو نہیں ہوسکتی، اس حوالے سے بات چیت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ن لیگ قیادت نے فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جن پر اتفاق کرآسان نہیں ہوتا کوشش کی جارہی ہے کہ ایسا فیصلہ کریں جو ملک کے لیے بہتر ہو۔ اْن کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی عدم اعتماد میں ساتھ دیں، 172 ارکان کی حمایت اتحادیوں کے بغیر بھی ہمیں حاصل ہے، جن میں پی ٹی آئی کے ناراض ارکان شامل ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میرے خیال میں موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ ق کو دیا جانا ممکن ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن حالات بتاتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی اور حکومت مخالف جماعتیں اور رہنما اپنی اپنی بولیاں بول کراڑ جائیں گے اور ان آئندہ عام انتخابات تک اسی تنخواہ پرگذاراہوگا کیونکہ اسی میں ان کی سیاسی بقاہے اب یہ لوگ اتنی بھی سردردنہ لیں تو انہیں خدشہ ہے ہماری سیاست کہیں دم ہی نہ توڑجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر