... loading ...
گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی مسلح افواج کے سربراہ کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا تھا،جسے بھارتی ذرائع ابلاغ میںسعودی عرب اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تجارتی و دفاعی تعلقات کے تناظر میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جارہاہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی سعودی آرمی چیف کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دورہ کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی یہ سوال اُٹھا یا جا رہا ہے کہ کیا سعودی عرب مستقبل قریب میں پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات استوار کرنا چاہتاہے ؟ ۔کم ازکم بھارتی تجزیہ کاروں کی جانب سے تو یہ ہی دعوی کیا جارہا ہے کہ اس دورے میں سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ بڑے دفاعی معاہدے کرنے میں اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
ہماری دانست میں یہ دعوی مکمل طور پر نہیں تو جزوی سطح پر اس لیے بھی بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں بھارت اور سعودی عرب کے مابین دفاعی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر 2020 میں بھارتی افواج کے سربراہ جنرل ایم ایم نروانے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا تھا۔مذکورہ دورہ کی مانند یہ بھی کسی بھارتی فوجی سربراہ کا سعودی عرب کا پہلا دورہ تھا اور اس دورہ کے کچھ عرصہ بعد ہی اگست 2021 میں خلیج عرب کے پانیوں میں مشرقی بحری بیڑے کی نمائندگی کرنے والی رائل سعودی بحری افواج اور ہندوستانی بحری افواج کے درمیان مشترکہ بحری مشقیں کی گئیں تھیں۔ سعودی عرب کی رائل نیوی اور بھارتی بحریہ کے درمیان ہونے والی مشترکہ مشقوں کا مقصد مشترکہ آپریشن کے نفاذ کے دوران کمانڈ، کنٹرول اور مواصلات کے عمل کی ترقی دینا اور خلیج عرب کے پانیوں میں ورٹی کو مضبوط کرنا بتایا گیا تھا۔مذکورہ بالا بحری مشق کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب میں مشرقی بحری بیڑے کے کمانڈر ریئر ایڈمرل ماجد بن حزہ القحطانی نے کہا تھاکہ ’’بحر ہند مشق سعودی اور ہندوستانی بحری افواج کے درمیان اپنی نوعیت کی پہلی مشق ہے۔ جس کا مقصد بحری آپریشنز کے میدان میں سعودی عرب اور بھارت کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دینا، تجربات کا تبادلہ کرنا، فوجی کارروائی، کمانڈ، کنٹرول اور مواصلات کے طریقہ کار اور تصورات کو یکجا کرنا ہے۔‘‘
سعودی عرب میں مشرقی بحری بیڑے کے سربراہ کا بیان ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ’’ سعودی عرب بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات مستحکم کرنے کا پختہ ارادہ کرچکا ہے‘‘ اوراَب سعودی مسلح افواج کے سربراہ کے تین روزہ دورہ بھارت کے بعد تو اس بات پر پوری طرح سے مہرتصدیق ثبت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب تاریخ میں پہلی بار اپنی دفاعی ضروریات کے لیے بھارت کی جانب دستِ تعاون دراز کرنے جارہا ہے۔ ورنہ اس سے قبل ماضی میں ریاض اور نئی دہلی کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات تو ضرور تھے لیکن دفاعی تعلقات سرے سے پائے ہی نہیں جاتے تھے ۔ کیونکہ سعودی عرب کے اپنے دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکمل طور امریکا یاپھر پاکستان پر انحصار کرتاتھا۔ یہ وہ دور تھا جب نئی دہلی خواب و خیال میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ پاکستان کی موجودگی میں کبھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات بڑھانے کی بات بھی کر پائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر سعودی عرب اپنے برادر اسلامی ملک پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانا چاہتاہے ۔اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے بیچ گہرے معاشی ،سیاسی اور دفاعی تعلقات کی موجودگی میں بھارت سے قربت اختیار کرنے کی بنیادی وجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے دو فیصلے ہیں۔ ان میں اولین فیصلہ2015 میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کا سعودی قیادت میں یمن جانے والی اتحادی افواج کے حصے کے طور پر پاکستانی دستوں کو بھیجنے سے انکار کا تھا۔ جبکہ دوسری اہم ترین وجہ پاکستان کے ایران کے ساتھ روز بہ روز مضبوط تر ہوتے ہوئے سفارتی و دفاعی تعلقات ہیں۔
یاد رہے کہ 2015 میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے سعودی عرب کے ایما پر اتحادی فوج کے ہمراہ پاکستانی فوجی دستے بھیجنے سے صرف انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے کو بحث کے لیے پاکستانی پارلیمان میںلے گئے تھے، جہاں اس مسئلے پر سیاست دان کئی دنوں تک گرما گرم بحث و مباحثہ کرتے رہے اور یہ تو آپ بخوبی جانتے ہی ہیں کہ ہمارے سیاست دان جوشِ خطابت کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں ۔ لہٰذا بعض سیاست دانوں کی جانب سے کی جانے والی غیر شائشہ اور غیر ضروری گفتگو سعودی حکم رانوں کو سخت گراں گزری اور انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے شکوہ کیا کہ ’’اگر آپ نے ہمیں انکار ہی کرنا تھا تو خاموشی کے ساتھ بھی کرسکتے تھے ، اُس کے لیے پاکستانی پارلیمانی میں ہمارے خلاف طوفانِ بد تمیزی برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے کی جانے والی شکایت بالکل بجا تھی ، مگر مصیبت یہ تھی کہ ہمارے سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سعودی شاہی خاندان کے احسانات تلے دبے ہوئے تھے اور وہ خاموشی کے ساتھ انکار کرکے اپنے محسنوںکے سامنے ذاتی امیج خراب نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ صرف اپنے تاثر کو بہتر رکھنے کے لیے وہ یہ معاملہ کمال چالاکی سے پارلیمان لے گئے اور یوں ریاستِ پاکستا ن کا امیج سعودی عرب کے شاہی خاندان کے نگاہ میں تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔ ریاض اور اسلام آباد کے سفارتی و سیاسی تعلقات میں جو گرہ اُس وقت پڑی تھی ، اُسے تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک کھولا نہیں جاسکاہے۔
علاوہ ازیں پاکستان اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی دوستی بھی ریاض کی اسلام آباد سے مایوسی کی ایک بڑی وجہ ہے۔حالانکہ پاکستان کبھی بھی غیر معمولی حد تک ایران کے قریب نہیں رہا، نیز چند برسوں میں سعودی عرب اور ایران بھی ایک دوسرے کے کافی حد تک قریب آچکے ہیں ۔ تاہم ریاض اور تہران کی آپسی رقابت کی خلیج اتنی گہری ہے کہ اُسے دو ،چار ملاقاتوں سے پاٹا نہیں جاسکتا۔ بہرحال سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دو اسلامی ملکوں کی تاریخی رقابت نے پاکستان کو عجیب و غریب سفارتی مخمصے میں مبتلا کردیا ہے۔ یعنی اسلام آباد بیک وقت ریاض اور تہران سے اپنے سفارتی ، سیاسی و دفاعی تعلقات مستحکم ،مضبوط اور متوازن رکھنا چاہتاہے لیکن پاکستان کی یہ خواہش کبھی اسے سعودی عرب اور کبھی ایران کی نظر میں مشکوک بنادیتی ہے اور ہماری اسی کمزوری کا سفارتی و سیاسی فائدہ بھارت اُٹھانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیتا۔
حالانکہ پاکستان کا ایران سے تعلق محض سعودی عرب کے بھارت سے بڑھتے ہوئے تعلقات کا ردعمل نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان اور ایران مشترکہ سرحد رکھتے ہیں، اور پاکستان سے بڑی تعداد میں اہل تشیع افراد ایران میں مقامات مقدسہ کی زیارت کیلیے اکثر جاتے رہتے ہیں۔ نیز افغانستان میں امریکی جنگ کے خاتمے پر بھی ایران پاکستان کے حامی کے طور پر ابھر کے سامنے آیا ہے کیونکہ دونوں ممالک ایک مستحکم افغانستان چاہتے ہیں اور ایسے کابل کو ترجیح دیتے ہیں، جو تہران اور اسلام آباد دونوں کو مثبت نگاہ سے دیکھے۔مگر شاید اسلام آباد اپنی بات کا ابلاغ زیادہ بہتر انداز میں ریاض کے ساتھ کرنے سے قاصر ہے۔اِن دو وجوہات کے علاوہ بھی دیگرکئی چھوٹے بڑے ایسے معاملات ہیں جن کو نمایاں کرکے بھارت ، روز بروزسعودی عرب کے قریب سے قریب تر آتا جارہاہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے اپنی تیل کی درآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان ملک بھر میں بجلی کی پیداوار کے لیے قطر سے مائع قدرتی گیس ایل این جی اور چینی، کوئلے کے کارخانے درآمد کرنے پر بھی غور کر رہا ہے جو کہ ریاض کی تشویش کی وجہ ہے۔
نیز گزشتہ برس جب سعودی عرب نے پاکستان سے اپنے ایک بلین ڈالر قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو چین کا اس کے متبادل قرضے کے ساتھ میدان میں اُتر آنے کے واقعہ نے بھی ریاض کو کافی حد تک ناراض کیا تھا۔اگرچہ سعودی عرب، چین کے ساتھ مخاصمت پر مبنی تعلقات نہیں رکھتا تاہم معاشی امداد اور مذہبی اثرورسوخ کے باوجود موجودگی میں اُس کے اور پاکستان کے جاری معاملات میں چین کا کود پڑنا اُسے سخت گراں گزرا تھا۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ بھارت خلیجی ممالک کیلیے اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر ابھر رہا ہے، بھارت کے کشمیر میں لاک ڈائون کیخلاف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی جانب سے کوئی بیان جاری نہ کیے جانے کی کلیدی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ درحقیقت، لاک ڈائون کے محض چند ہفتے بعد ہی یواے ای نے امارات سے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے میں بھارتی کوششوں کے اعتراف میں وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا تھا۔ پاکستان یقیناًخلیجی ممالک میں ہونے والی اِن سرگرمیوں کے متعلق اپنے سخت تحفظات رکھتا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ کے ممالک پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے زیادہ قریب آنے چاہتے ہیں تو اسلام آباد کو اس پر کسی صورت معترض نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے بناتاہے ۔ اس تناظر میں اگر سعودی عرب کے حکم رانوں کو لگتاہے کہ اُن کے ملک کے لیے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم کرنا زیادہ بہتر ہے تو اُنہیں یہ تجربہ بھی کر کے ضرور دیکھ لینا چاہیے ۔ بہرحال ہمارے لیے یہ ہی ایک بات اطمینان کے لیے کافی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان برادرانہ تعلقات کی جڑیں اتنی گہریں ہیں کہ بھارت اگر اپنا پورا زور بھی لگالے تب بھی وہ قیامت تک اُس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔