... loading ...
عام انتخابات 2018ء کے لیے بند کمروں میں بلوچستان عوام پارٹی کے نام سے بنائی جانے والی ’کنگ‘ جماعت سے منسلک پارلیمنٹرین کا گاہے وفاقی حکومت کی مخالفت میں اظہارات دراصل قطعی ان کی مرضی یا اختیار کے تحت نہیں ہوتا ہے۔ بدیہی طور اس کا تعلق اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل یا اتھل پتھل کے امکانات سے ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو حد میں رکھنے کے دائو گیر کے قیاسات کچھ معروضی حقیقت دکھائی د یتے ہیں۔ مزید کوئی سنجیدہ پیشرفت ہوتی ہے تو سردست کنگ جماعت بلوچستان عوامی پارٹی آنکھیں موڑنے میں دیر نہیں کرے گی۔ یقینا بی اے پے کی بلوچستان میں حکومت ، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عمران خان کو آنکھیں دکھا کر یکسربے گانی بن جائے گی۔ 11فروری2022ء کو ایوان بالا سے احتجاجاً واک آئوٹ وفاق میں نمائندگی نہ ملنا،70بورڈز میں بلوچستان کی محرومی ، کچھی کینال منصوبے کا معطل ہونا وغیرہ پر خفگی اصولی کی بجائے محض تھڑی ہے، جو دلوائی گئی ہے۔ وگرنہ بلوچستان کے حق و ضروریات، مسائل اورمحرومیاں تو ستر سالوں پر محیط ہے۔ اٹھارہویں آئینی تر میم کے ذریعے کسی حد تک صوبائی خود مختاری تو موجود ہے۔ مگرمضبوط وفاق کو یہ آئینی اختیارات راس نہیں آتے۔ وزیراعظم عمران خان دوسری باریعنی13فروری کو بھی قرار دیا ہے کہ وفاق کو اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انہیں آئینی ترامیم کا مینڈیٹ حاصل ہوتا تو اٹھارہویں آئینی ترمیم سے جان خلاصی کی سبیل نکال ہی لیتے۔ ویسے بھی یہ آئینی اختیارات بہت سو کو کھٹکتے ہیں۔اور ایسی کسی صورت میں بلوچستان کی بی اے پی ہر طرح کی تعاون کرتی۔ غرض کہ بی اے پی کے سینیٹرز کا مذکورہ دکھاوے کا شور اور مختلف سطح پر مشاورتی اجلاس موجودہ سیاسی چہ میگوئیوں اورحدت سے تعلق رکھتا ہے، وگرنہ ان چہروں مہروں کی کیا مجال کہ خود سے کوئی فیصلہ کریں۔
بات اصولی ہوتی تو ساڑھے تین سال بعد کی بجائے حکومت کے قیام کے وقت ہی اپنا حصہ تسلیم کرایا جاتا اور لے لیا جاتا۔ اور اس گروہ کو نظریات کے پاکیزہ الفاظ کی ورد بھی نہیں جھجتے۔ نظریہ بہت مقدس لفظ ہے۔اور نظریات کے حامل سیاستدانوں کی حیات و جدوجہدعظیم نصب العین کے لیے ہوتی ہے۔ دراصل بلوچستان فی الواقع اپنے جائز حق سے محروم ہے،صوبہ بڑے سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شریک ہی نہیں کہ جس سے صوبے اور عوام کی بقاء کا تعلق ہے۔ سیندک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کی مثال لے لیجیے کہ جس سے سال2003ء سے2017ء تک یعنی پندرہ سالوں میں بلوچستان کو محض 7ارب روپے ملے ہیں۔اور اس کے برعکس وفاق نے صرف2021میں6ارب روپے سے زائد کما یا ہے۔ آگے ریکوڈک کے سو نے اور تانبے کے ذخائر کے مبہم معاہدے میں صوبے کا استحصال متوقع ہے۔ان وسائل اور حقوق کا دفاع سردست اس جیسی جما عتوں اور پارلیمانی نمائندوں کا نہ درد سر ہے نہ ان میں رکاوٹ ڈالنے اور مزاحمت کی جرات ہے۔ گویاوہ حکومتیں عوام کی کیا نمائندہ ہوں گی جو مال و زر کے عوض تشکیل پائی ہو۔ راندہ درگاہ کئے ہوئے سردار یار محمد رند نے تو یہاں تک کہا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو تین ارب روپے ادا کرکے وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ ساحلی شہر گوادر کے اندر گزشتہ پانچ ماہ سے یعنی کہ قدوس بزنجو کے زیراعلیٰ بننے کے بعد 21 ارب روپے سے زائد کی ترقیاتی اسکیمیں تعطل کا شکار ہیں۔ ساڑھے 16 ارب روپے کے منصوبے مالی سال 2019 ء سے 21 20 ء تک اسی طرح ساڑھے پانچ ارب روپے کے منصوبے مالی سال 22-2021 کے ہیں۔جس میں واٹر سپلائی ، تعلیم ، صحت ، سیاحت ، انفراسٹرکچر کی اسکیمیں 6 گرلز کالج ، تین سرکاری اسپتال شامل ہیں۔
ان ترقیاتی منصوبوں پر ستر فیصد کام مکمل تھا۔سردار یار محمد رند کے الزام کی البتہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ کیوںکہ وہ خود جام مخالف سیاست میں پوری طرح شامل تھے۔ جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد امریکا سے کوئٹہ پہنچ کر وزارت اعلیٰ کے حصول کی دوڑ میں شامل ہونے کی لا حاصل کوشش کی ،یہ ان کی خواہش تھی۔ حالاں کہ سیاسی حلقوں میں ان کے لیے پسندیدگی نہیں دیکھی جاتی۔ جام کمال کی کابینہ میں وزارت تعلیم کا قلمدان سونپا گیا تھا۔ اسی دوران بھی اعتراضات اٹھاتے، ناراض بناتے۔ چناں چہ عبدالقدوس بزنجو نے استعمال کرنے کے بعد پوری طرح کھڈے لائن لگایا۔ دیکھا جائے تو جام کمال دور میں سردار محروم نہ تھے۔ان کے حلقے کو ہر بجٹ میں خطیر فنڈز جاری ہوئے۔ ان کی سیاسی اپروچ کا یہ عالم کہ جام کمال کے سامنے ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کا مطالبہ رکھا۔ اپنی مرضی کا ڈپٹی کمشنر لگوایا۔ ان کے چارج سنبھا لنے کے بعد یعنی 12نومبر2021ء کو ضلع کچھی کے مقام اعوان گوٹھ میں سابق صوبائی وزیر عاصم کرد گیلو کی زمینوں پر مسلح تصادم ہوا۔ پانچ افراد جاں بحق ہوگئے اور مقدمات عاصم کرد گیلو ان کے بھائی سمیت و افرادنامزد کرلیے گئے۔ عاصم کرد گیلو ضمانت پر ہیں۔ سردار یار محمد رند نے 16 اور 17 فروری کو دو روز ڈھاڈر میں قومی شاہراہ پر سینکڑوں لوگ بٹھا کر دھرنا دیا۔ شاہراہ ٹریفک کے لئے بند رہی۔ اس کے بعد 18 فروری کو بلوچستان اسملی کے سامنے دھرنا دیا گیا۔ مطالبہ نامزد افراد کی گرفتاری کا ہے، جبکہ عاصم کرد گیلو عدالت ہی سے ضمانت لے چکے ہیں۔ پہلو یہ مد نظر رہے کہ جب ڈپٹی کمشنر اور دوسرے ماتحت افسران ان کی مرضی کے تعینات کرلیے گئے تو مزید تصادم کے عوامل کیا ہو سکتے ہیں؟ اب سیاسی اختلافات قبائلی نفرتوں کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، جس سے اجتناب ہونا چاہیے۔ گویا سردار ریار محمد رند جام کمال کو ہٹانے اور مخالف دھڑے کے لیے راہ ہموار کرنے کے کھیل میں شریک تھے۔ ممکن ہے انہیں بہت ساری باتوں کا علم بھی ہوگا۔سردار رند البتہ بلوچستان حکومت کے نہ تحریک انصاف کے رہیں۔یہاں تک کے سیاسی دائو پیچ اور رموز سے بھی نا بلد ثابت ہوئے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صوبے میں کار سرکار و حکومت کی درگت بنی ہوئی ہے۔