وجود

... loading ...

وجود

سندھ بدامنی اورلاقانونیت کی زد میں کب تک رہے گا؟

پیر 21 فروری 2022 سندھ بدامنی اورلاقانونیت کی زد میں کب تک رہے گا؟

اَمن و امان کا قیام ہر جمہوری حکومت کا بنیادی وظیفہ ہوتا ہے اور جو حکومت اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکا م ہوجائے تو پھر اُس کی انتظامی کارکردگی پر ہر طرف سے سوالات اُٹھنا بالکل ایک فطری اَمرہے ۔ ویسے تو صوبہ سندھ میں اَمن و اَمان کی صورت حال کبھی بھی ایسی نہیں رہی کہ جسے مثالی قرار دیا جاسکے لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے سندھ کے کئی علاقوں میںبدامنی اور قانون شکنی کے واقعات میں جس غیر معمولی تیزرفتاری کے ساتھ اضافہ ہو اہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔پہلے سانحہ ٹندو الہ یار اور اَب نواب شاہ کے مرزا پور تھانے میں زرداری اور بھنڈ برادریوں کے درمیان زمین کے تنازعے میں ایک ایس ایچ او سمیت 6 افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہونے کا واقعہ سندھ حکومت کی انتظامی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
بظاہر یہ واقعہ دو برادریوں میں کچے کے علاقے میں واقع زرعی زمین پر حق ملکیت کا تنازعہ دکھائی دیتا ہے لیکن جس طرح سوشل میڈیا میں سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی پر اِس واقعہ میں ملوث ایک برادری کی پشت پناہی کا مبینہ الزام لگایا جارہا ہے ۔اُس سے سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ یاد رہے کہ نواب شاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا آبائی ضلع ہے جہاں ان کے رشتے دار اور زرداری برادری کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔چونکہ یہ تنازعہ بھی زرداری برادری اور بھنڈ برادری کے درمیان تھا،لہٰذا اس وقت سب کی تنقید کا مرکز محور بھی سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ذات بن چکی ہے اور ملکی ذرائع ابلاغ عام تاثر یہ ہی لیا جارہا ہے کہ مذکورہ واقعہ میں زرداری برادری کو سندھ حکومت کی غیر معمولی حمایت اور تعاون دستیاب تھا۔
واضح رہے کہ یہ ہول ناک تنازعہ کچے کی کم ازکم 800 ایکٹر زمین کے حقِ ملکیت پر زرداری برادری اور بھنڈ برادری کے درمیان 2009 سے جاری ہے۔ دونوں برادریاں دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ زرعی زمین اُن کی ملکیت ہے ۔بھنڈ برادری کا مؤقف ہے کہ یہ ان کی آبائی زمینیں ہیں اور یہاں ان کا قبرستان بھی موجود ہے جبکہ ’زرداریوں کا کچھ بھی نہیں ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس پوری زمین میں ان کی برادری کے بہت سے کھاتے دار ہیں جن کے پاس چار سے پانچ ایکڑ تک زمین ہے۔دوسری جانب زرداری برادری کے مطابق یہ ساری زمین انھوں نے 2009 میں لغاری خاندان سے خریدی تھی اور ان کے پاس اس زمین کی تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن بھنڈ برادری مختلف حیلوں بہانوں سے انھیں تنگ کرتی رہتی ہے اور اس زمین پر قابض ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھنڈ برادری نے اس سے قبل گزشتہ سال نومبر میں اس معاملے پر 40 روز تک دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کے بعد نواب شاہ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی موجودگی میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اس متنازع زمین سے فیصلہ ہونے تک دونوں فریقین پیچھے ہٹ جائیں گے اور یہاں پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔اس پر دونوں فریقین نے متازعہ زمین پر پولیس کی تعیناتی سے اتفاق کیا تھا جس کے بعد گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے پولیس اہلکار متنازع زمین پر تعینات تھے۔دونوں فریقین کی جانب سے تنازعہ کے حل کے لیے سابق صوبائی وزیر منظور پنہور کی سربراہی میں جرگہ بلانے پر بھی اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔جرگہ میں زرداری برادری کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اکبر جمالی جبکہ بھنڈ برادری کی جانب سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ کو اس فیصلے کے لیے امین مقرر کیا گیا تھا۔
عموماً سندھ میں جب کسی تنازعہ کے حل کے لیے جرگہ بلالیا جائے تو پھر فریقین جرگے کے فیصلے تک ایک دوسرے کے ساتھ تصادم سے گریز ہی کرتے ہیں مگر حالیہ واقعہ میں جرگہ پر متفق ہوجانے کے بعد فریقین میں تصادم ہوجانے سے جرگہ کے سربراہ منظور پنہور کی اہلیت پر بھی سنگین سوالات اُٹھتے ہیں کہ آخر وہ کیوں جرگہ کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد فریقین کو گفت و شنید کے ذریعے معاملہ حل کرنے کے عہد پر قائم نہ رکھ سکے؟ اس با بت منظور پنہور کا یہ کہنا کہ’’ ایک فریق معاملہ عدالت لے جانے پر بضد تھااور وہ یہ اس تنازعہ کو عدالت میں لے گیا‘‘۔ یہ دلیل اس لیے قبول نہیں کی جاسکتی کہ عدالت میں زیر سماعت بہت سے معاملات پر بھی جرگے منعقد ہوتے رہتے ہیں اور اگر جرگہ میں فریقین کے درمیان صلح ہوجائے تو عدالت میں باہمی رضامندی سے فریقین ایک دوسرے کے خلاف زیرسماعت مقدمات واپس بھی لے لیتے ہیں ۔
اچھی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کے ہلاک ہونے افراد کے ورثا کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور اُن کے مطالبہ پر مذکورہ واقعہ کے مرکزی ملزمان کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں ۔ جس کے بعد مقتولین کے ورثا نے قومی شاہراہ پر کئی دنوںسے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔لیکن مقتولین کے ورثا کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کو سندھ حکومت کا ’’انتظامی کارنامہ ‘‘ اس لیے نہیں قرار دیا جاسکتا کہ زرعی زمین کے تنازعہ میں جو قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے ، اُسے بروقت انتظامی اقدامات کرکے رونما ہونے سے باآسانی روکا بھی جاسکتاتھا۔بہر حال اَب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے کاندھوں پر یہ بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذکورہ واقعہ پر ایک ایسی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کروائیں ،جن پر کوئی مخالف فریق انگلی نہ اُٹھاسکے ۔یہ پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اس لیے بھی لازم ہے کہ چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات اور ڈیڑھ برس بعد قومی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے اور آئندہ انتخابات میں اگر پیپلزپارٹی ماضی کی طرح سندھ میں بھرپور عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کی خواہش رکھتی ہے تو پھر اسے اپنی کمزور ہوتی ہوئی ، سیاسی ساکھ کو بہتر بنانا ہوگا۔
کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ سانحہ نواب شاہ جیسے واقعات کے باعث سندھ بھر میں پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت کو شدید زک پہنچی ہے اور اس کی بھرپائی کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کوچند ایک ایسے مشکل فیصلے ضرور لینے ہوں گے تاکہ گزشتہ چند برسوںمیں سندھ کی عوام میں پیپلزپارٹی کے بارے میں جو منفی تاثر اُجاگر ہوا ہے ، اُس کی نفی ہوسکے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر