وجود

... loading ...

وجود

اصلاحات کی ضرورت

هفته 19 فروری 2022 اصلاحات کی ضرورت

ملک کے تمام شعبوںمیں خرابیاں ہیں جن سے ہر زی شعور آگاہ ہے اسی لیے جھٹلانا ممکن نہیں اگرخرابیوں کوجھٹلاناممکن نہیں تو پھر اصلاحات کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے ملک میں وسائل کی کمی نہیں مگراستعمال اور تقسیم کے مربوط طریقہ کار کی کمی ضرورہے اسی بنا پر وسائل نچلے طبقات تک نہیں پہنچتے اوروہ محرمیوں کا شکارہیں یہ محرومیاں اور مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں جس سے ریاست پر عام آدمی کے اعتماد میںکمی آئی ہے اگر سیاسی قیادت درست طریقے سے فرائض سرانجام دیتی ، وقت کے ساتھ اصلاحات پر کام ہوتا اور خرابیوں پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی تو افراتفری کی بجائے ملک میں امن وسکون ہوتا بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ سیاسی قیادت نے مسائل میں کمی لانے کی بجائے ذاتی مفادات پرہی توجہ مرکوز رکھی ہے جس سے پر چھوٹے چھوٹے مسائل بھی گھمبیر شکل اختیار کرنے سے نچلے اور کمزور طبقات مسائل کے بھنورمیں پھنستے گئے اور اُن کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا گیا جس سے عام آدمی کے نظامِ مملکت پر اعتمادمیں کمی آئی اور ہونے والے فیصلوں پر شک کی فضا بنتی گئی حالانکہ دنیا بھر کی ریاستیں بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات لا رہی ہیں مگر ہمارے ہاں اب بھی اِس حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا نہ ہی اِداروں نے ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دی ہے سیاسی قیادت نے بھی فرائض کی بجاآوری کی بجائے ایک دوسرے کو رگیدنے میں توانائیاں صرف کیں جس سے غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کے مواقع ملے۔
نظام ِانصاف پر عام آدمی کا اعتماد متزلل ہو تو سیاسی استحکام کا خواب بھی ٹوٹ جاتاہے لیکن آج تک اِس حوالے سے باعتماد طریقہ کار بنانے پر اتفاق نہیں ہو سکا امیر ، غریب اور طاقتور ،کمزور میں سخت تفریق ہوتی ہے کچھ عرصہ سے عدلیہ نے بالاتر اورطاقتور ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن یہ کہنا کہ سب اچھا ہوگیاہے درست نہیں جبکہ تک بلاتفریق انصاف نہیں ہو گا لوگوں کے شکو ک شبہات ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ آئین اور قانون سازی کا فورم پالیمان ہے اِس لیے خرابیوں کو برقراررکھنے میں بڑا حصہ سیاسی قیادت کوقرار دے سکتے ہیں جس نے محدود مفادات کے لیے کبھی اصلاحالات لانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اِس حوالے سے کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہے اپوزیشن پر عرصہ حیات تنگ ہونے سے عدالتی فیصلے بھی شکوک و شبہات کی نظر ہوئے ہیں اوراب اگر کسی سیاسی شخصیت کو سزا ہوتی ہے تو لوگ منصفانہ نہیں سمجھتے بلکہ کہیں نہ کہیں سے ہونے والی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں یہ شک کی فضا اکثریتی ازہان میںراسخ ہوچکی ہے عالمی اِدارے ہمارے عدالتی نظام کی درجہ پندی کرتے ہوئے نظامِ انصاف کو کم تر حثیت پر رکھتے ہیں مداخلت اگر نہیں بھی ہو تی پھر بھی ایک ہی قسم کے کیس پر مختلف عدالتوں سے الگ الگ ہونے والے فیصلوں نے نظامِ عدل کو سوالیہ نشان ضرور بنایاہے۔
اختیاراورغروروتکبر میں ٹریفک سارجنٹ کو کچل دیا جاتا ہے جس کی میڈیا کے ذریعے ویڈیو پورا ملک دیکھتا ہے پھر بھی ملزم باعزت بری ہوجاتا ہے اِ س طرح کے فیصلے قدرو منزلت میں اضافہ نہیں کرتے ۔ انڈرٹرائل امیر آدمی کوحوالات یا جیل میں رکھنے کی بجائے پرائیویٹ ہسپتال بنواکر رکھنے کی بھی گنجائش نکال لی جاتی ہے پھر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا بلکہ پولیس سمیت سیاسی اشرافیہ بارسوخ آدمی کی سہولت کار بننے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح کوئی صاحبِ اقتدار قتل کر دے تو پولیس ہاتھ ڈالنے کی بجائے پردہ پوشی کی کوشش کرتی ہے ایسے اطوار ساکھ بناتے نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے پھربھی جنھوںنے اصلاحات لاکر خرابیوںپر قابوپانا ہوتا ہے وہ سیاسی قیادت مسلسل غفلت کی مرتکب ہورہی ہے نیک نامی کمانے سے غفلت کا مظاہرہ کیا جائے گاتو پھر اقتدارسے محرومی پرلوگ سڑکوں پر نکلنے اور لاٹھیاں کھانے سے گریز ہی کرتے ہیں چاہے کسی کو غیر آئینی طریقے سے ہی کیوں نہ اقتدار سے بے دخل کیا جائے خرابیوں پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کرنے سے عام آدمی کو فائدہ ملے گا اور سیاسی قیادت کو بھی ثمرات مل سکتے ہیں کیونکہ اگر خرابیاں نہیں ہوں گی تواقتدار سے کسی کو غیر آئینی طریقے سے بے دخلی کے راستے بھی بند ہوجائیں گے۔
انصاف میں تاخیر انصاف نہیں بے انصافی ہوتی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی آزادانہ نقل و حمل کے متعلق ایک درخواست 2019 میں دائر کی گئی گزشتہ سماعت پرمنصفوں کی طرف سے اٹارنی جنرل کو وکلا سے ملاقات کرانے کی ہدایت کی گئی دس اکتوبر2021 کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحلت فرما گئے لیکن 2019 کو دائر ہونے والی درخواست کی سماعت رواں ماہ چوبیس فروری سے دوبارہ شروع ہورہی ہے جس کے لیے چیف جسٹس جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہوں میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے ظاہر ہے اب اگر بینچ آزادنہ نقل و حمل کی اجازت کا فیصلہ دے بھی دیتا ہے تو اپیل کنندہ کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا کیونکہ ڈاکٹر قدیر سماعت سے چار ماہ قبل ہی منوں مٹی تلے سو چکے ہیں اِس لیے حق یا خلاف ہونے والا کوئی فیصلہ اُنھیں متاثر نہیں کر سکتا بلکہ اللہ کے حضور سزاوجزاکے لیے پیش ہو چکے ہیں اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیاوی زندگی اجیرن بنانے والوں کاکبھی تعین ہو سکے گا ؟
کسی عدالتی فیصلے کے متعلق ہونے والی تاخیر پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ توہینِ عدالت لگ سکتی ہے مگر سیاسی قیادت سے تو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ وہ عوامی نمائندے ہیں اورانتخابات میں اُنھیں عوامی عدالت میں بھی پیش ہونا ہوتا ہے اقتدار کے دوران عوامی مسائل کے حل میں تاخیر کا باعث بننے والے نظام میں اصلاحات لانے میں کون سا امر مانع رہا عوام دریافت کر سکتی ہے اگرخرابیوں اور مسائل کا تعین کرتے ہوئے ضروری اصلاحات پر توجہ دیں تو اِس طرح نہ صرف اُن کی اپنی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ تیز رفتار انصاف کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے جب عالمی اِدارے ہمارے نظامِ انصاف کو ہدفِ تنقید بناتے اور رینکنگ میں سب سے نچلے درجے پر رکھتے ہیں تو اِس سے صرف نظامِ انصاف پر ہی سوالیہ نشان نہیں پیدانہیں ہوتے بلکہ ملک کی بدنامی کے ساتھ صاحبانِ اقتدار کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے جتنے بھی مہذب اور ترقیافتہ معاشرے ہیں وہاں نہ صرف انصاف جلد ہوتا ہے بلکہ امیر ،غریب اورکمزور و،طاقتور میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی بلکہ غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کی صورت میںبرسرِ اقتدار لوگوں کو بھی نہ صرف کٹہرے میں لایا جاتا ہے بلکہ جرم ثابت ہونے پر سزا بھی دی جاتی ہے لیکن کوئی بے گنا ہ چاہے کتنا ہی کمزور یا غریب کیوں نہ ہو کوئی طاقتور تختہ مشق نہیں بنا سکتا نہ ہی حکومتوں کی ایماپر فیصلے کرنے میں نظامِ انصاف تاخیر کرتا ہے انھی وجوہات کی بنا پرجمہوریت مستحکم اور سیاسی استحکام ہے اب ہماری سیاسی اشرفیہ کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وہ اصلاحات لاکر خرابیاں دور اور مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں یا اِداروں پر دبائو ڈال کر ملک میں سیاسی عدم ِ استحکام برقرار رکھنے اور غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کے لیے راستے کُھلے رکھنے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر