... loading ...
یوپی میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ ختم ہوچکی ہے۔یہاں پہلے مرحلہ میں ان سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے، جو بی جے پی کے لیے زندگی اور موت کا سوال بنی ہوئی ہیں۔یہاں بی جے پی نے اپنی ساری طاقت جھونک رکھی تھی۔اس کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلم ووٹ منتشر ہوجائیں اور وہ اس کا فائدہ اٹھائے۔بی جے پی نے 2017کے اسمبلی انتخابات میں یہاں فرقہ وارانہ صف بندی کرکے ووٹوں کی زبردست فصل اگائی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان سیٹوں پر بھی بی جے پی امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جو عرف عام میں ‘مسلم سیٹیں’ کہلاتی ہیں۔
2017کے انتخابات میں بی جے پی کی سب سے بڑے حصول یابی 2013 کا مظفر نگر فساد تھا، جس میں درجنوں بے گناہ ہلاک ہوئے تھے۔اس فساد نے بی جے پی کو مغربی یوپی جو غیرمعمولی کامیابی دلائی تھی، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر اس کامیابی کو دوہرانے کے لیے بار بار مظفرنگر کے ‘دنگوں’ کی دلخراش یادوں کوتازہ کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہی نہیں خود وزیرداخلہ امت شاہ،جن کے کاندھوں پر ملک میں امن وامان قایم رکھنے کی بنیادی ذمہ داری ہے، وہ بھی مظفر نگرفسادات کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فساد بی جے پی کے لیے ہمیشہ آکسیجن کاکام کرتا ہے۔ جہاں اس کا کوئی نام لیوا نہ ہو، وہاں بھی فساد برپا کرکے ووٹوں کی فصل اگائی جاسکتی ہے۔ آزادی کے بعد سے مسلسل یہی ہورہا ہے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت فسادات برپا کئے جاتے ہیں اور پھر ان کی آگ میں سیاسی روٹیاں سینکی جاتی ہیں۔
اس بار مغربی یوپی میں بی جے پی کو کسانوں کی زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ کسان تحریک کے نتیجے میں مغربی یوپی میں ہندو اور مسلمان شیروشکر ہوگئے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے ایک ہی اسٹیج سے’ہرہرمہادیو’ اور’نعرہ تکبیر’ کی صدائیں بلند کرائی تھیں۔ یہ ایسی صورتحال تھی جس نے بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین نکال دی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ کسانوں کے اتحاد کے نتیجے میں ہندومسلم یکجہتی کی جو فضا قایم ہوئی تھی، اس کا اثر برقرار ہے اور بی جے پی امیدواروں کو مغربی یوپی میں زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔بی جے پی نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور اپنی حالت درست کرنے کے لیے مظفر نگر کی دلخراش یادوں کو تازہ کرنے کی جان توڑکوشش کی۔ اس میں مزید تڑکہ لگانے کے لیے اس نے کیرانہ کے نام نہاد’پلائن’ کے مسئلہ کو بھی خوب ہوا دی۔ یہاں تک کہ امت شاہ نے آخری داؤ کھیلتے ہوئے جاٹوں اور مغلوں کی معرکہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جس طرح 650 سال پہلے جاٹوں نے مغلوں سے مورچہ لیا تھا، اسی طرح ہم بھی مورچہ لے رہے ہیں۔یہ ماحول کو خراب کرنے کی آخری کوشش تھی۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ یوگی اوروزیر داخلہ امت شاہ کا ہرداؤ خالی گیا۔کیونکہ مغربی یوپی کے کسانوں نے مذہبی شناخت سے زیادہ اپنے تجارتی نفع نقصان کو فوقیت دی اور بی جے پی کے ہر حربے کو ناکام بنادیا۔
مغربی یوپی میں بی جے پی کی انتہائی اشتعال انگیز انتخابی مہم کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ انتخابی فائدے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔ اسے مسلمانوں سے جو بیر ہے، اس کی تکمیل کے لیے وہ سماج میں بڑے سے بڑا انتشار پیدا کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو دیش دروہی، فسادی اور دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگاسکتی ہے۔حالانکہ بی جے پی کی یہ فرقہ وارنہ انتخابی مہم دستور اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے صریحاً منافی تھی، لیکن نہ تو نظم ونسق کی مشنری اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے ان سے کوئی سوال کیا اور نہ ہی ضابطہ شکنی کی کارروائی ہوئی۔مغربی یوپی میں کبھی کیرانہ کے امیدوار ناہید حسن کا موضوع اچھالا گیا، کبھی مظفر نگر کے دنگوں کی یاد اس انداز میں تازہ کی گئی کہ اس کے تمام ترمتاثرین ہندو تھے۔ حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مظفرنگر کے فساد میں 95فیصد جانی ومالی نقصان مسلمانوں کا ہوا تھا۔ 50سے زیادہ لوگ فسادیوں کا نشانہ بنے تھے اور اتنے ہی بچے راحت کیمپوں میں ناکافی انتظامات کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران ظالم اور مظلوم کا فرق مٹانے کی کوشش کی گئی۔
بی جے پی نے 2017 کے چناؤ میں مسلم ووٹ کو ناکارہ بنانے کی جو منصوبہ بندی کی تھی، اس میں اسے زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد 69 سے گھٹ کر 23رہ گئی۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت والے علاقوں میں بھی بی جے پی کا پرچم لہرایا۔2012کے چناؤ میں مسلمانوں کے اتحاد کا فائدہ یہ ہوا کہ یوپی اسمبلی کی تاریخ میں انھوں نے سب سے زیادہ تعداد میں حاضری درج کرائی۔1951کے بعد یو پی اسمبلی میں یہ مسلم ممبران کی سب سے بڑی تعداد تھی، جو پچھلے آٹھ چناؤ کے میں سب سے نچلی سطح یعنی 23 ممبران تک آگئی۔ اس سے پہلے صرف1991کے چناؤ میں جب اترپردیش میں ‘رام لہر’ چل رہی تھی مسلمانوں کی سب سے کم حاضری درج ہوئی تھی اور یہ تعداد 17ممبران تک محدود ہوگئی تھی، مگر اس کے بعد یوپی اسمبلی میں مسلم ممبران کی تعدا میں لگاتار ا ضافہ ہوا۔ 1993کے چناؤ میں 25 مسلم امیدوار جیتے، 1996میں 33 مسلم امیداوروں نے کامیابی درج کرائی جبکہ2002میں 47 اور2007میں 48 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔جبکہ 2017 میں یہ تعداد 69تک پہنچ گئی تھی، جو ایک ریکارڈ تھا۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس الیکشن میں مسلم امیدواروں کی کارکردگی کیسے رہے گی؟اگر 2017 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدوراوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تواس بار صورتحال کچھ بہتر نظر آتی ہے۔ حالانکہ مسلم ووٹوں کی سب سے بڑی دعویدار سماجوادی پارٹی نے اس بار مغربی یوپی میں آرایل ڈی سے اتحاد کرکے جو امیدوار کھڑے کئے ہیں، ان میں مسلمانوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کیرانہ کو چھوڑکرکسان بیلٹ کی سبھی سیٹوں پراس اتحاد نے غیر مسلم امیدواروں کو ترجیح دی ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ غیر مسلم امیدواروں کو مسلمان تو آنکھ بند کرکے ووٹ دے دیتے ہیں، جبکہ دوسری قوموں کے رائے دہندگان مسلم امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے سے کتراتے ہیں۔اسی نقطہ نظرسے سماجوادی پارٹی نے اس مرتبہ مسلمانوں کے غلبہ والی دیگر سیٹوں سے بھی غیرمسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ان میں میراپور، آگرہ مغرب، بڑاپور،بلند شہر، سکندرہ آ باد،چرتھاول، بجنور،لونی،پیلی بھیت، پٹیالی،بدایوں،کانپورکینٹ وغیرہ سیٹیں شامل ہیں۔ میرا پور وہ نشست ہے جہاں سے پچھلی بار سماجوادی پارٹی کے لیاقت علی محض193سیٹوں سے ہارے تھے۔ مگر اس بار میرا پور سے سماجوادی پارٹی نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر غیرمسلم امیدوار کھڑا کیا ہے۔
2017کے چناؤ میں سماجوادی پارٹی نے کانگریس سے اتحاد کرکے ابتدائی تین مرحلوں کی180 نشستوں میں سے 50نشستوں پر مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے، مگر سب سے کم مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ 2017کے چناؤ میں بی جے پی نے82 میں سے 62 ایسی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جہاں ایک تہائی رائے دہندگان مسلمان ہیں۔ مسلم ووٹوں میں بکھراؤ کے سبب ہی مظفرنگر، شاملی،سہارنپور،بریلی، بجنور،سردھنہ،خلیل آباد،ٹانڈہ، شراوستی اور مرادآباد(شہر) جیسی مسلم غلبہ والی سیٹوں پر بی جے پی نے ہاتھ صاف کیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2022کے اس چناؤ میں مسلم امیدواروں کا کیا حال رہے گا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ اگر مسلمانوں نے دانش مندی سے کام لیا تو وہ بہتر نتائج پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اگر انھوں نے اپنے ووٹ مختلف پارٹیوں میں تقسیم کردئیے تو پھر ان ووٹوں کی بربادی کو کوئی نہیں روک پائے گا۔ اس لیے مسلمان سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیں اور جذبات میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ یہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔