... loading ...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں!
تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر ہو چکے۔ اُنہوں نے وزراء کی کارکردگی کی فہرست ایک طمطراق سے جاری کی ہے، یہ ہالی ووڈ میں اداکاری جیسا ہے۔ اداکاری میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنا ارد گرد یہاں تک کہ خود کو بھی فراموش کرنا پڑتا ہے، اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں۔رونالڈ ریگن نے کبھی سوچا ہو کہ سیاست اداکاری ہی جیسا کام ہے۔اداکاری کے علاوہ ”توہم پرستی ” بھی ریگن کی پہچان تھی۔ ریگن کی زندگی میں بے پناہ دخیل اُن کی اہلیہ نینسی ”ستاروں کی چالوں” پر دھیان دیتی۔ اُس نے جون کوینگلے نامی ایک ماہر نجوم کی مستقل خدمات حاصل کررکھی تھیں۔ وہ اداکار امریکی صدر کا ”شیڈول” کسی بھی وقت تبدیل کرادیتی۔ نینسی کے کمرے میںایک رنگ دار کلینڈر ہمہ وقت رہتا، جو سعد اور نحس لمحات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا۔ نینسی اپنے کیلیفورنیا کے گھر میں ایک تعویذ رکھنے پر اِصرار کیا کرتی۔جوتے ایسی جگہ کبھی نہ رکھے جاتے،جہاں وہ سر سے اونچے رہیں۔ کپڑا ایک مرتبہ اُلٹا پہن لیا جاتا تو اسے اُتار کر دوبارہ پہننا بدشگونی سمجھا جاتا۔ یہ امریکی صد ر رونالڈ ریگن اور اُن کی اہلیہ نینسی کا حال تھا، دونوں ہی اداکاری کے پسِ منظر سے سیاست کے پیش منظر پر اُبھرے تھے۔ قلم موضوع کی راہ سے گمراہ ہوتا ہے، یہاں صرف نینسی کے ایک مشہور فقرے کی مدد درکارتھی :عورت ٹی بیگ کی طرح ہے، آپ کو اس کی طاقت کا اندازا نہیں ہوتا، جب تک گرم پانی میں نہ ہو”۔یہاں بات” عورت” کی نہیں، ٹی بیگ کی طاقت اور گرم پانی کی ہے۔وزراء بھی ٹی بیگ کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں اپنی طاقت دکھانے کے لیے گرم پانی درکار ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی خوبی یہ ہے کہ گرم پانی میں ٹی بیگ ملتے ہوئے صرف اُنہوں نے دیکھے۔ یہ منظر قوم کی آنکھوں سے محفوظ رہے، لہٰذا کسی کو کارکردگی کے یہ حسین مناظر دیکھنے کو نہیں ملے۔
ریگن دور کے ہی ایک امریکی اداکار کیون اسپیسی(Kevin Spacey)نے ایک موقع پر کہا تھا: سیاست اور اداکاری کا باہم گہرا تعلق ہے، دونوں کا کام قائل کرنا ہوتا ہے”۔ نینسی کو چھوڑیں!وزیراعظم عمران خان اور رونالڈ ریگن میں کافی مشترکات ہیں۔توہم پرستی اور اداکاری بھی جن میں شامل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے افراتفری اور آپادھاپی کے معاملے میں کارکردگی کی فہرست جاری کرنے کی دلیری ہی اُنہیں ریگن سے بھی ممتاز کرتی ہے۔ مخالفین ”دلیری” کو کسی اور لفظ کی تعبیر بھی دے سکتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ ”دیدہ دلیری” ہی خود وزیراعظم کی سب سے بڑی کارکردگی ہے۔ پھر بھی کسرِ نفسی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی کارکردگی کو فہرست میںچھٹے نمبر پر رکھا ہے، جبکہ یہ وزارت خود وزیراعظم کے پاس ہے۔ درحقیقت کارکردگی میں وزیراعظم خود پہلے نمبر پر ہے۔ جس طرح وہ ہر منگل کو کابینہ اجلاس سجاتے ہیں اور کرسی پر بیٹھے ایک ہی طرح کی تصویر جاری کرتے ہیں، اس میں بوریت کا نہ ہونا کوئی کم کام نہیں۔یہ تصویریں چھبیس سالہ اپوزیشن کی تھکن کا بھی اندازا لگانے میں معاون ہوتی ہیں۔ یادش بخیر! اپوزیشن کے ماہ وسال میں وزیراعظم یہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد صرف تین ماہ میں کرپشن کا خاتمہ کردیںگے۔ چند روز قبل عمران خان نے قوم کو یہ خوش خبری دی کہ وہ اقتدار کے پہلے ہی تین ماہ میں یہ وعدہ پورا کرچکے ہیں۔ یہ معرکہ آرا کام اُنہیں خود بھی ساڑھے تین سال بعد پتہ چلا، اگر یہ کام بڑا نہیں تھا تب بھی ساڑھے تین برس بعد اُنہیں ساڑھے تین برس پہلے سرانجام دیے گئے اس غیر معمولی کام کے یادآنے پر سراہا جانا چاہئے تھا، اور وہ اپنی کارکردگی کو اسی بنیاد پر اول نمبر پر رکھ سکتے تھے۔ بہر کیف آپ کو اندازا ہوا ہوگا کہ ”دیدہ دلیری” ہی وزیراعظم کی سب سے بڑی کارکردگی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے حُسنِ کارکردگی کی فہرست میں جگہ نہ بنانے والی وزارتِ اطلاعات مستحق تھی کہ وہ وزیراعظم کے بعد دوسرے نمبر ہوتی، اور یہ کوئی دو نمبری بھی نہ ہوتی۔ تحریک انصاف نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ وزیراطلاعات نے اس سوال کو ہی سُلٹا دیا، جب ایک موقع پر کہا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں تو کب کی دے چکے۔ یہ کوئی معمولی کارکردگی نہ تھی، ا س وعدے اور جملے کا بوجھ اُٹھانا کوئی معمولی کام نہیں۔ دراصل یہاں بھی پتہ چلتا ہے کہ ”دیدہ دلیری” ہی سب سے بڑی کارکردگی ہے ، اس میں وزیراطلاعات گاہے وزیراعظم سے بڑھ کر ثابت ہوتے ہیں۔ وزیر خارجہ اپنی ہی حکومت کی حُسنِ کارکردگی سے اتنے نالاں ہیں کہ اپنی ہی حکومت کو ایک شکایتی خط لکھ دیا۔ شاہ محمود قریشی کی کارکردگی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ وزارت ِ خارجہ میں سمائی دیتے ہیںوگرنہ وہ نچلے بیٹھنے والے کہاں ہیں۔ اُن کی نگاہ جس منصب پر جا کر ٹھہرتی ہے ، اُس کے وسوسوں سے خود کو بچائے رکھنے پر ہی اُن کی کارکردگی سب سے اعلیٰ قرار پانے کی مستحق ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے وزراء کے لیے حسن ِ کارکردگی کی فہرست کے اجراء کا اقدام ہی بجائے خود کارکردگی میں سب سے بڑی جگہ بنانے کے قابل ہے۔ حکمرانوں کو اُن کے کسی نہ کسی کام سے یاد کیا جاتا ہے، وزیراعظم عمران خان کو اور کچھ نہیں تو اسی ایک کام کی بنیاد پر یاد رکھا جاسکتا ہے۔گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں سیاسی ، سماجی اور معاشی شعبوں میں مسلسل ابتری کے باوجودعمران خان کو جو کچھ سوجھا ہے، وہ اُنہیں ممتاز بنانے کی ایک قدر کے طور پر سمجھنے کے قابل بناتا ہے۔افغانستان و عراق پر حملے اور مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنے کے باوجود سابق امریکی صدر بش کی جو حالت تھی، اُسے باب ووڈ ورڈنے اپنی ایک کتاب میں بے نقاب کیا تھا، کتاب کا نام ہی درپیش صورتِ حال پر بلیغ تبصرہ ہے: State of Denial یعنی ”حالت ِ انکار”۔ وزیراعظم عمران خان ایک حالتِ انکار میں ہے۔ اُ نہیں یہ یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ میچ ہارگئے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک کے بعد دوسرا اقدام ایسا اُٹھا رہے ہیں جو خود اُن کی حکومت کی ہنسی اڑاتا ہے اور اُن کے لیے اضافی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ وزراء کی فہرست ِکارکردگی درحقیقت ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا شاخسانہ بن رہی ہے۔ یہ خطرات سے دوچار حکومت کے لیے نئی مشکلات کی موجب ہے۔ وزیراعظم نے اقتدار کے ابتدائی ایام میں قوم کو بڑے دھوم دھڑکے سے یقین دلایا تھا کہ وہ ہر تین ماہ بعد وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔ ایسا ایک مرتبہ بھی نہ ہوسکا۔ اب وہ اس بوجھ کو ایک ایسی فہرست سے اُتار رہے ہیں جس کی قدر وقیمت اُس صفحے کی قیمت کے برابر بھی نہیں ، جس پر وہ چھپی ہے۔ وزیراعظم کے لیے کارکردگی کا لفظ شیخ کے اعمال جیسا ہے، جس کی وضاحت ماچس لکھنوی نے کی تھی:
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
بلاشبہ یہ شدید نرگسیت اور مسخ ذہن کے ساتھ نہایت سطحی اور نمائشی رویہ ہے۔ عمران خان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور ایم کیوایم سے مختلف کچھ بھی نیا نہیں کرسکے۔ اُن کے وابستگان بھی اسی طرح تعصب زدہ ہیں، جیسے دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان۔ پی پی،نون لیگ ، پی ٹی آئی سب نے ہی ایک جیسی مخلوق پیدا کی جو متحدہ کے نعرے کے عین مطابق ہے “چَریاہے مہاجر چَریا ہے ،الطاف کے پیچھے چَریاہے !
اسی رویے سے عمران خان کی فہرست ِ کارکردگی کی پزیرائی بھی اُن کے وابستگان کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم اس ماحول میں اچھی اداکاری کے اضافی نمبر سمیٹ سکتے ہیں۔ مگر مزیدار شاعر ماچس لکھنوی کا ایک شعر اور بھی ہے:
حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں...
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...
دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...