وجود

... loading ...

وجود

تحریک عدم اعتماد ، کھیل کہاں تک پہنچا

اتوار 13 فروری 2022 تحریک عدم اعتماد ، کھیل کہاں تک پہنچا

پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں خصو صاً مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جے یو آئی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میںعدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کر رہی ہیں اس کا با قاعدہ اعلان پی ڈی ایم کی جماعتوں کے اجلاس کے بعد 11 فروری 2022کوپی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے کردیا تھا انہوں نے بتایاکہ حکومت کی اتحادی جماعتو ں سے حمایت حاصل کرنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے ان کی گفتگو سے واضح ہو گیا تھاکہ وہ مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری نہیں کر سکے تھے اس مقصد کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میںکم از کم 172اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی ،اسی طرح پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے لیے 186اراکین تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہیںعمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں صرف چھ ارکان کی برتری حاصل ہے ان کی حکومت مسلم لیگ (ق)،ایم کیوایم،بلوچستان عوامی پارٹی اورجی ڈی اے کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اپوزیشن اس کوشش میں ہے کہ اتحادی جما عتو ں کو ساتھ ملاکرموجودہ حکومت کو اقتدار سے باہر کردیا جائے اگر اتحادی جما عتو ںمیں سے ایک یا دو جماعتیں بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہیںتو ایسی صورت میں عمران خان کی حکومت خطرے کا شکار ہو جائے گی اور حزب اختلاف کی جماعتیںتحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر نیا وزیر اعظم لے آئیں گی۔ متبادل وزیر اعظم کے لیے آصف زرداری،خورشید شاہ اور شہباز شریف کے نام میڈیا میںگردش کر رہے ہیں ،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں کو خفیہ رکھنا چاہتی ہیںیہی وجہ ہے کہ اخبارات اور ٹی وی کے نمائندوں کے سامنے وہ اپنی تیاریوں اورتحریک کی حما یت کے لیے مطلوبہ تعداد کے بارے میں بتانے سے گریزاں ہیں تحریک عدم اعتماد موجودہ حالات میںقومی اور پنجاب دونوں اسمبلیوں میں گنتی پوری کرنے کا کھیل ہے جو لین دین کے بغیر ممکن نہیں ہے حکومت کی اتحادی جماعتیں اسی صورت میں آئندہ کی حکومت کا حصہ بنیں گی جب انہیں یقین ہوگا کہ عدم اعتماد کے بعد انہیں حکومت میں زیادہ بہتر نمائندگی ملے گی۔ مسلم لیگ ق اپنا وزیر اعلیٰ لانے کا مطالبہ کر سکتی ہے جس کے لیے پرویز الٰہی کا نام لیا جارہا ہے ،ایم کیو ایم سندھ حکومت میں بہتر نمائندگی چاہے گی اور کراچی میں اپنا ایڈمنسٹریٹر لانے کا مطالبہ کر سکتی ہے اسی طرح مولافضل الرحمان اپنی جماعت کے لیے نائب وزیر اعظم کے عہدے کامطالبہ کر سکتے ہیںاس سلسے میں جہانگیر ترین کے حامی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس تحریک کے پس پردہ جہانگیر ترین کا اہم کردار ہے لہٰذا وہ بھی اپنے اراکین کے لیے وزارتوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کھیل تیا ر ہو چکا ہے تیز رفتاری سے کام جاری ہے ایک امکان یہ بھی ہے کہ 27 فروری کو یہ کایا پلٹ ہوگی اور بلاول بھٹو اسلام آباد میں ایک فاتحانہ جلوس لیکر داخل ہونگے دوسری صورت میں معاملات اس سے قبل یا مارچ میں بھی ممکن ہے پی ٹی آئی اور اسکے اتحادی اپنی پارلیمانی طاقت کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن کا وار خالی جائے گا اسی لیے اپوزیشن بھرپور تیاری کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہتی ہے جہانگیر ترین کے کھل کر میدان میں آنے کے بعد عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے امکانات بڑھ جائیں گے عدم اعتماد کے لیے اندرون خانہ تیاریوں میں ایک بڑی رکاوٹ آئندہ آنے والی حکومت میں عہدوں کی تقسیم ہے آصف زرداری کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی صورت میںنائب وزیراعظم کے عہدے پر کون ہوگا،کابینہ کے اراکین کون ہونگے یہی صورت پنجاب میں ہوسکتی ہے پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد کابینہ کی تشکیل پیچیدہ مسئلہ ہوگی دوسری جانب مرکز میں نئے وزیر اعظم آ صف زرداری یا کسی اور رکن قومی اسمبلی کے منتخب ہونے کے اگلے مرحلے میں مسلم لیگ ن نے اعتماد کا ووٹ نہ دیا تو کیاہوگا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی مسلم لیگ ن نواز شریف کو واپس لانے اور آئندہ انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے واپس آنے کی کوشش کرے گی یہ ایسے سوالات ہیں جو پیپلز پارٹی کے لیے تشویش کا باعث ہونگے پیپلز پارٹی کو اس بات کا احساس ہے نواز شریف فوری انتخابات چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ن کے تمام تر اختیارات بھی انہی کے پاس ہیں۔
دوسری پوزیشن مریم نواز کی ہے لہٰذا نواز شریف ایسے حالات پیدا کرنا چاہیں گے کہ جلد انتخابات کے نتیجے میں بھاری کامیابی کے بعد کم از کم مرکز ،پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی بھر پور ی گرفت ہو ،قومی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں وسط مدتی انتخابات ہونگے اور مسلم لیگ ن اس میں کا میابی کے لیے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لائے گی اس لیے پیپلزپارٹی آئندہ کے لیے مکمل ضمانت کے بغیر کسی قسم کی مہم جوئی میں آسانی سے شریک نہیں ہوگی مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما شا ہد خاقان عباسی یہ کہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نیا وزیر اعظم منتخب نہیں ہو سکے گا جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اس بیان کا مقصد پیپلز پارٹی کو یہ باور کرانا بھی ہو سکتا ہے کہ عدم اعتماد مسلم لیگ کی شرائط پر ہی ہوگی اس لیے پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے عہدے کا مطالبہ نہ کر ے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی جماعتیں اس مرحلے پر پیپلز پارٹی پر دبائو ڈالنا چاہتی ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے لیے آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے پرویز الٰہی کا نام واپس لیں آصف زرداری کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم اور بلوچستان کے ارکین اسمبلی کو ساتھ ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن اگر اسمبلیاں توڑنے کی بات کرے گی تو عدم اعتماد تحریک کا سارا منصوبہ ابتدا ہی میں دم توڑ دے گا ملک کی مقتد ر قوتوں کو کوئی مبہم منصوبہ اس لیے پسند نہیں ہوگا کہ اس سے انتشار اور افراتفری پیدا ہوگی وہ فی الحال بظاہر اس کھیل سے دور رہنا چاہتی ہیں اپوزیشن کی جماعتیں آئندہ کے لیے اگر کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے لائیںگی تو ہر سطح پر اس کی قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں گے سابق صدر آصف زرداری کو مرکزی کردار دیے بغیر ایک واضح لائحہ عمل مشکل نظر آتاہے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الر حمان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عدم اعتماد اور اس کے بعد کے مراحل کس طرح طے ہونگے پیپلز پارٹی کوکس طرح مطمئن کیا جائے گا پاکستانی سیاست میں آنے والے دن دھماکہ خیز ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروف شدہ


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر