... loading ...
پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں خصو صاً مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جے یو آئی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میںعدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کر رہی ہیں اس کا با قاعدہ اعلان پی ڈی ایم کی جماعتوں کے اجلاس کے بعد 11 فروری 2022کوپی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے کردیا تھا انہوں نے بتایاکہ حکومت کی اتحادی جماعتو ں سے حمایت حاصل کرنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے ان کی گفتگو سے واضح ہو گیا تھاکہ وہ مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری نہیں کر سکے تھے اس مقصد کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میںکم از کم 172اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی ،اسی طرح پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کے لیے 186اراکین تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہیںعمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں صرف چھ ارکان کی برتری حاصل ہے ان کی حکومت مسلم لیگ (ق)،ایم کیوایم،بلوچستان عوامی پارٹی اورجی ڈی اے کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اپوزیشن اس کوشش میں ہے کہ اتحادی جما عتو ں کو ساتھ ملاکرموجودہ حکومت کو اقتدار سے باہر کردیا جائے اگر اتحادی جما عتو ںمیں سے ایک یا دو جماعتیں بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہیںتو ایسی صورت میں عمران خان کی حکومت خطرے کا شکار ہو جائے گی اور حزب اختلاف کی جماعتیںتحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر نیا وزیر اعظم لے آئیں گی۔ متبادل وزیر اعظم کے لیے آصف زرداری،خورشید شاہ اور شہباز شریف کے نام میڈیا میںگردش کر رہے ہیں ،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں کو خفیہ رکھنا چاہتی ہیںیہی وجہ ہے کہ اخبارات اور ٹی وی کے نمائندوں کے سامنے وہ اپنی تیاریوں اورتحریک کی حما یت کے لیے مطلوبہ تعداد کے بارے میں بتانے سے گریزاں ہیں تحریک عدم اعتماد موجودہ حالات میںقومی اور پنجاب دونوں اسمبلیوں میں گنتی پوری کرنے کا کھیل ہے جو لین دین کے بغیر ممکن نہیں ہے حکومت کی اتحادی جماعتیں اسی صورت میں آئندہ کی حکومت کا حصہ بنیں گی جب انہیں یقین ہوگا کہ عدم اعتماد کے بعد انہیں حکومت میں زیادہ بہتر نمائندگی ملے گی۔ مسلم لیگ ق اپنا وزیر اعلیٰ لانے کا مطالبہ کر سکتی ہے جس کے لیے پرویز الٰہی کا نام لیا جارہا ہے ،ایم کیو ایم سندھ حکومت میں بہتر نمائندگی چاہے گی اور کراچی میں اپنا ایڈمنسٹریٹر لانے کا مطالبہ کر سکتی ہے اسی طرح مولافضل الرحمان اپنی جماعت کے لیے نائب وزیر اعظم کے عہدے کامطالبہ کر سکتے ہیںاس سلسے میں جہانگیر ترین کے حامی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس تحریک کے پس پردہ جہانگیر ترین کا اہم کردار ہے لہٰذا وہ بھی اپنے اراکین کے لیے وزارتوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کھیل تیا ر ہو چکا ہے تیز رفتاری سے کام جاری ہے ایک امکان یہ بھی ہے کہ 27 فروری کو یہ کایا پلٹ ہوگی اور بلاول بھٹو اسلام آباد میں ایک فاتحانہ جلوس لیکر داخل ہونگے دوسری صورت میں معاملات اس سے قبل یا مارچ میں بھی ممکن ہے پی ٹی آئی اور اسکے اتحادی اپنی پارلیمانی طاقت کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن کا وار خالی جائے گا اسی لیے اپوزیشن بھرپور تیاری کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہتی ہے جہانگیر ترین کے کھل کر میدان میں آنے کے بعد عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے امکانات بڑھ جائیں گے عدم اعتماد کے لیے اندرون خانہ تیاریوں میں ایک بڑی رکاوٹ آئندہ آنے والی حکومت میں عہدوں کی تقسیم ہے آصف زرداری کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی صورت میںنائب وزیراعظم کے عہدے پر کون ہوگا،کابینہ کے اراکین کون ہونگے یہی صورت پنجاب میں ہوسکتی ہے پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد کابینہ کی تشکیل پیچیدہ مسئلہ ہوگی دوسری جانب مرکز میں نئے وزیر اعظم آ صف زرداری یا کسی اور رکن قومی اسمبلی کے منتخب ہونے کے اگلے مرحلے میں مسلم لیگ ن نے اعتماد کا ووٹ نہ دیا تو کیاہوگا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی مسلم لیگ ن نواز شریف کو واپس لانے اور آئندہ انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے واپس آنے کی کوشش کرے گی یہ ایسے سوالات ہیں جو پیپلز پارٹی کے لیے تشویش کا باعث ہونگے پیپلز پارٹی کو اس بات کا احساس ہے نواز شریف فوری انتخابات چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ن کے تمام تر اختیارات بھی انہی کے پاس ہیں۔
دوسری پوزیشن مریم نواز کی ہے لہٰذا نواز شریف ایسے حالات پیدا کرنا چاہیں گے کہ جلد انتخابات کے نتیجے میں بھاری کامیابی کے بعد کم از کم مرکز ،پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی بھر پور ی گرفت ہو ،قومی اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں وسط مدتی انتخابات ہونگے اور مسلم لیگ ن اس میں کا میابی کے لیے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لائے گی اس لیے پیپلزپارٹی آئندہ کے لیے مکمل ضمانت کے بغیر کسی قسم کی مہم جوئی میں آسانی سے شریک نہیں ہوگی مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما شا ہد خاقان عباسی یہ کہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نیا وزیر اعظم منتخب نہیں ہو سکے گا جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اس بیان کا مقصد پیپلز پارٹی کو یہ باور کرانا بھی ہو سکتا ہے کہ عدم اعتماد مسلم لیگ کی شرائط پر ہی ہوگی اس لیے پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے عہدے کا مطالبہ نہ کر ے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی جماعتیں اس مرحلے پر پیپلز پارٹی پر دبائو ڈالنا چاہتی ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے لیے آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے پرویز الٰہی کا نام واپس لیں آصف زرداری کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم اور بلوچستان کے ارکین اسمبلی کو ساتھ ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن اگر اسمبلیاں توڑنے کی بات کرے گی تو عدم اعتماد تحریک کا سارا منصوبہ ابتدا ہی میں دم توڑ دے گا ملک کی مقتد ر قوتوں کو کوئی مبہم منصوبہ اس لیے پسند نہیں ہوگا کہ اس سے انتشار اور افراتفری پیدا ہوگی وہ فی الحال بظاہر اس کھیل سے دور رہنا چاہتی ہیں اپوزیشن کی جماعتیں آئندہ کے لیے اگر کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے لائیںگی تو ہر سطح پر اس کی قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں گے سابق صدر آصف زرداری کو مرکزی کردار دیے بغیر ایک واضح لائحہ عمل مشکل نظر آتاہے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مولانا فضل الر حمان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عدم اعتماد اور اس کے بعد کے مراحل کس طرح طے ہونگے پیپلز پارٹی کوکس طرح مطمئن کیا جائے گا پاکستانی سیاست میں آنے والے دن دھماکہ خیز ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروف شدہ