... loading ...
کبھی آ پ نے سوچاہے پاکستان کیا ہے ؟ نہیں تو آج ذرا غور کریں پاکستان کچھ لوگوں کے لیے مفادات کا سودا ہے جن کو صرف اپنے معاملات سے غرض ہے۔ کسی کے لیے یہ ملک شہرت یا دولت کا ذریعہ ہے جن کے پیٹ پھٹنے کے قریب ہیں پھر بھی وہ اسے گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں اور ان کی ہوس ختم ہی نہیں ہورہی۔ کسی کے لیے یہ ملک محرومیوں کی لمبی داستان ہے جوسسکتے ارمانوںکے ساتھ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں جن پر زندگی تنگ کردی گئی ہے ۔ اس ملک نے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا کیاہے لیکن پاکستان کو کسی نے کچھ نہیں دیا بلکہ اس کے لیے کبھی سوچا تک نہیں یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے یہ جو بڑے بڑے افسر،سرمایہ دار،جاگیردار،وزیر مشیر ہمیں نظر آتے ہیں جن کی گردنیں اتنی موٹی ہیں کہ کوشش کے باوجود مڑنہیں پاتیں پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو بنئے سے محنت مزدوری کی اجرت لینے کے لیے گھنٹوں قطارمیں کھڑے رہتے الحمد اللہ آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں ،یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں ہزاروں مائوں،بہنوں بیٹیوں نے اس پاک دھرتی کے حصول کے لیے اپنی عصمت قربان کردی،سینکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندوئوں،سکھوں نے اپنی رکھیل بنا ڈالا جن میںدرجنوں آ ج بھی زندہ ہوں گی پاکستان زندہ باد کا نعر ہ لگانا اتنا بڑا جرم بن گیا تھا، ظالموں نے بے شمار مائوں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیا ۔ یہ پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیاء کے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی اپنے آپ کو پنجابی کہنے والے سکھوں نے پنجابی قوم پر ہی سب سے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑڈالے انہوںنے ماں بولی کا بھی خیال نہ کیا کاش انڈیا سے پاکستان آنے والی اس خون میں ڈوبی ریل گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جاتا جس میں کٹے پھٹے اپنے ہی لہو میں نہائے زخمیوں، بے گناہ مسلمانوںکی لاشوں اور زخموں سے چیختی نوجوان لڑکیوں، مائوں سے چھاتی سے چمٹے معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جن کا کوئی جرم نہ تھا جن کو ناحق ماردیا گیا قومی المیہ یہ ہے کہ جن قوتوںنے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا وہ سازش، دھونس اور جبر سے اس ملک کے وارث بن بیٹھے وہ آج بھی ہم سے پاکستان بنانے کے جرم کا انتقام لے رہے ہیں بس انداز بدل گیا ان کا ذہن آج بھی 1947ء جیساہے ہماری سمجھ میں بات نہیں آرہی، یہی پاکستان کے دشمن کبھی ڈیم نہیں بننے دیتے،کبھی حکومتوںکو عدم سیاسی استحکام سے دوچارکردیتے ہیں ،کبھی معاشی طورپر کمزور کرنے کی سازشیں کرتے ر ہتے ہیں۔
یہی لوگ اپنے مفادات کے لیے حکومتوںکو بلیک میل کرتے ہیں اورہمارے ناعاقبت حکمران ہرقیمت پر اقتدار میں رہنے کی خاطر ان سے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں جس سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کسی کو پاکستان کی فکرنہیں ان بھیانک چہروں نے 22کروڑ عوام کو خوشیوں کو یرغمال بنایا ہواہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہر محب ِو طن پاکستانی ان کے نام اور مکروہ چہروںکو بخوبی جانتا اور پہچانتاہے یہ اس وقت بھی اقلیت میں تھے آج بھی اقلیت میں ہیں اور اقلیت میں لوگ ہمیشہ منظم ہوتے ہیں ان لوگوںنے پاکستان کے سارے سسٹم کو یرغمال بنارکھا ہے پاکستان یہ دشمن مذہب، صحافت، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں حکومت جمہوری ہو یا ڈکٹیٹروںکی کبھی یہ لوگ ملکی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہجنے د یتے ان مکروہ چہروںنے غربت کو پاکستانیوںکے لیے بدنصیبی بنا دیاہے تمام محب وطن سیاستدانوں کو یہی گذارش ہے اب یہ بلیک میلنگ بند ہونی چاہیے آپ تھوڑی سی قربانی دے لیں حالانکہ سب سے بڑی قربانی قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے دی تھی قائد اعظم ؒ نے پاکستان کو زندگی کا مشن بنایا اور آپ کا مقصد ِ حیات پیسہ ۔۔پیسہ اور فقط پیسہ ہے کچھ تو خدا کا خوف کھائیں قائد اعظمؒ نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا کہ یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو کرپشن ہو، لیڈر شپ کو مثالی ہونا چاہیے ، لیڈر پہلے خود مثال بنتا ہے پھر لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یادرکھوپاکستان کسی نے ہمیں تحفے میں نہیں دیا اس کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوںکو شہیدکردیا گیا کئی کئی روز ان کی بے گورو کفن لاشیں کھلے آسمان تلے پڑی رہیں،ہندو ،سکھ بلوائی ہزاروں مسلمان جوان لڑکیوںکو اٹھاکرلے گئے،ہزاروںکی عصمت دری کی گئی پاکستان محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں اس کے حصول کے لیے جو قربانیاں دی گئیں تھیں آج کے ان نوجوانوںکو اندازہ نہیں جو14اگست کو جشن ِ آزادی مناتے ہوئے انڈین گانوںپر مزے سے ناچتے پھرتے ہیں یا وہ بچے جو گلیوں،سڑکوں پر موٹر سائیکل سے سانسر اتارکر غل غپاڑہ کرتے پھرتے ہیں پھر اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوںکی حفا ظت کے لیے قربانیوںکی ضرورت ہے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے قائد اعظمؒ نے اپنی صحت تک کی پرواہ نہیں کی انگریز سے اپنی بیماری کو چھپائے رکھا۔ یہ ان کا جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے تعلیم ہی ملکوں کی ترقی کا راستہ ہے بد قسمتی سے ملک میں معیاری تعلیم کے لیے سکولوں میں درکار وسائل ہی میسر نہیں اس کے لیے ہم سب کو ترجیحی بنیادوںپر کام کرنے کی ضرورت ہے حکمرانوں اوربااختیار لوگوں کو اس کے لیے حکمت ِ عملی ترتیب دینا ہوگی ہمارا اگر دعوے ٰ ہے کہ ہم میں اب شعور آ گیا ہے کہ اپنی ذات کے لیے نہیں ملک کے لیے کچھ کرنا ہے تو اس کے لیے عملاً کچھ کرکے دکھائیں پاکستان کے اپنے آبی ذخائر اور پانی کے حق کا تحفظ کرتا ہے کیونکہ پانی کسی فیکٹری میں نہیں بنایاجا سکتا پانی کے معاملے میںبعض عناصر قوم کو گمراہ کررہے ہیں اور دانستہ اور غیر دانستہ طور پر ملک کو واپس تصادم کی طرف لے جا نے کے’’ گناہ‘‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ریاست کو ایسی کسی بھی کوشش کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی غورکیا جائے تو یہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے شرپسند عناصر اور غیرملکی دشمن قوتوں سے نبرد آزما ہیں، شدت پسندی اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ختم کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کی کوششوں جاری رکھنا ہوںگی امن، ترقی اور استحکام قانون کی پاسداری سے ہی ممکن ہے اگر پانی کا مسئلہ فوری حل نہ ہوا تو پاکستان بنجر بن جائے گا لوگوں کو یہاں سے ہجرت کرنا پڑسکتی ہے۔پانی کی وجہ سے لوگوں کو زندگی سے محروم نہیں ہونے دیں گے کیونکہ پانی حیات ہے اور زندگی کا وجود پانی ہی سے ہے۔ خدارا پاکستانی بن کر سوچیں یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی ہزاروں مائوں،بہنوں بیٹیوں نے اپنی عصمت قربان کی تھی مائوں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ دیا گیا یہ جو پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیا کے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی تھی۔ مہنگائی ، بے روزگاری ،غربت اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔نصف صدی بیشتر جنوبی ایشیا ء کے مسلمانوںنے انگریز، ہندو ،کانگرسی، احراری اورانکے حواریوں کو پاکستان بناکر شکست دی تھی وہ لوگ اس شکست کو آج تک نہیں بھولے اس لیے ان کی ریشہ دوانیاں اورسازشیں مسلسل جاری ہیں کیونکہ ان لوگوں نے پاکستان کو صدق ِ دل سے تسلیم نہیں کیا بانی ٔپاکستان قائد ِ اعظم ؒنے احراری ،کانگرسی مولویوں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوںکے عزائم کو ناکام بنادیا تھا دیگرپاکستان کے مخالفین اپنی اس عبرتناک شکست کو آج تک نہیں بھولے جب بھی 14اگست آتاہے ان کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں قائد ِ اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والے ،پاکستان کو ناپاکستان کا طعنہ دینے والے یا پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہ ہونے والے آج بھی ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہیں ان کی جماعتیں الگ الگ لیکن ایجنڈا ایک ہے یہ عناصر آج بھی ہم سے آزادی کی قیمت وصول کررہے ہیں یہ لوگ آج بھی 14اگست کو جشن ِ آزادی نہیں مناتے بلکہ اعلانیہ کہتے پھرتے ہیں میں 14اگست کو جشن ِ آزادی نہیں منائوں گا آ پ غور کریں تو محسوس ہوگا یہ عناصر پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں یہ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دے رہے جس کے باعث پاکستان میں خوشک سالی بڑھ رہی ہے کھیت کھلیان بنجر ہورہے ہیں خودکش حملوں،بم دھماکوں، عدم سیاسی استحکام، مہنگائی ، بے روزگاری ،غربت اور طبقاتی کشمکش کی اصل بنیاد یہی ہے ان کے عزائم ناکام بنانا ہمارا فرض ہے جس طرح قائد ِ اعظمؒ نے ان پاکستان دشمن مکرو ہ چہروں کو شکست ِ فاش دی کر پاکستان بنایا آج ہم نے ان کو پھر ناکام بناناہے انہیں اپنے عزم سے عبرتناک شکست دینی ہے کیا آپ اس کے لیے تیارہیں؟ پاکستان کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے ہر محب وطن 14اگست کو اللہ کے حضور2نوافل شکرانہ اداکریںاور جشن ِ آزادی کا کیک کاٹتے وقت تحریک ِ پاکستان کے اکابرین، ہزاروں گمنام شہداء اورغازیوںکوخراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ایصال ِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کااہتمام کریں پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے تمام دھڑے اخلاقی وملی جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیام ِ پاکستان اوربابائے قوم حضرت قائد ِ اعظمؒ کے کسی مخالف سے کسی قسم کا کوئی سیاسی و انتخابی اتحاد نہ کریں یہی حب الوطنی کا تقاضاہے اور پاکستان کے مسائل کا حل بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔