... loading ...
گزشتہ چند ہفتو ں سے روس اور یوکرین جنگ کے عین دہانے پر کھڑے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی بداعتمادی اور کشیدگی کے خاتمہ کے لیے عالمی برادری نے بروقت اور دیرپا کردار ادا نہیں کیا تو روس اور یوکرین کے مابین کسی بھی لمحے باقاعدہ جنگ کا آغاز بھی ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ خطہ جنگ کے شعلوں کی نذر ہوتا ہے تو اس کے اثرات صرف اِن دوممالک کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے ۔بلکہ ساری دنیا اِس اندوہناک جنگ کی تپش کو محسوس کرے گی۔خاص طورپر یورپی ممالک کے لیے روس اور یوکرین کی متوقع جنگ شدید معاشی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک یوکرین اور روس کے تنازعہ پر دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ۔ بعض یورپی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ روس ایک بڑی عسکری طاقت ہے اور یوکرین کے لیے اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے یوکرین کو امریکا اور نیٹو ممالک کے اتحاد پر تکیہ کرنے کے بجائے براہ راست روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بات چیت کر کے اپنے مسئلہ کا کوئی پرامن اور قابل قبول حل کرتلاش کرلینا چاہیئے۔یہ حکمت عملی جہاں یوکرین کی سرحد سے یقینی جنگ کو ٹال سکتی ہے ،وہیں یوکرینی عوام کے لیے نئے معاشی مواقع پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
دوسری جانب بعض یورپی ممالک جیسے جرمنی اور فرانس بظاہر اس سارے معاملے پر روس کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور بیانات کی حد تک روس سے مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ وہ یوکرین کی سرحد پرسے اپنی افواج کو فوراً واپس بلوالے ۔لیکن درحقیقت کوئی بھی یورپی ملک روس کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا۔کیونکہ اگر روس کی ناراضی مول لی تو مستقبل میں انہیں تیل گیس نہیں ملے گا۔اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ یوکرین کی حکومت نے چند ہفتے قبل جرمنی کی حکومت کو درخواست ارسال کی تھی کہ’’ وہ انہیں روسی افواج سے نبٹنے کے لیے ایک لاکھ ہیلمٹ، اور سیفٹی جیکٹس بطور امداد فوری فراہم کرے ‘‘ ۔ اس کے جواب میں جرمنی کے نمائندے نے خط لکھا کہ’’ جرمنی آپ کو پانچ ہزار ہیلمٹ روانہ کر رہا ہے‘‘۔ اس کے جواب میں یوکرینی نمائندے نے خط لکھا کہ’’ اس کے ساتھ پانچ ہزار تکئے بھی بھجوا دیں‘‘۔یعنی ایک لاکھ ہیلمٹ اور سیفٹی جیکٹس کی درخواست کے جواب میںجرمنی کی جانب سے صرف پانچ ہزار ہیلمٹ مہیا کرنایوکرینی عوام اَب اپنی توہین نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں؟۔
یاد رہے کہ یہ وہی جرمنی ہے ،جو کل تک یوکرین کا سب سے بڑا حلیف سمجھا جاتاتھا۔لیکن آج اپنے معاشی مفادات کے پیش نظر وہ یوکرین کی امداد کرنے سے مکمل طور پر انکاری دکھائی دیتاہے۔دراصل بین الاقوامی سیاست میں دوستی اور تعلقات صرف مفادات کے تحت قائم کیے جاتے ہیں ۔ چونکہ جرمنی سمیت ہر یورپی ملک کے زیادہ تر معاشی مفادات مکمل طورپر روس کے ساتھ جڑ چکے ہیں ۔ اس لیے کوئی بھی یورپی ملک یوکرین کی حمایت پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ سوائے ایک ملک امریکا کے۔جی ہاں ! ابھی تک امریکی صدر جوبائیڈن نے روس کے مقابلے میں یوکرین کی ہرطرح سے امداد کرنے کا اعلان کیا ہے۔نیز امریکی صدر جو بائیڈن کے سب سے سینیئر فوجی افسر اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل میلی نے روس کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ یوکرین کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر روسی افواج کی تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ اس حملے کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے اور یوکرین پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔امریکا خطے میں نیٹو کو مضبوط کرنے کے لیے جلد ہی مشرقی یورپ میں مزید فوجیں بھیجے گا‘‘۔
لیکن امریکا کی جانب سے بھی ابھی تک کئی سوالات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ امریکی فوجی مشرقی یورپ میں کب پہنچیں گے؟اور امریکی فوجی کس مقام پر تعینات ہوں گے؟ کیا امریکا یوکرین میں امریکی فوجیں اُتارنے کا ارادہ رکھتا ہے؟۔بہرحال امریکی جنرل کے بیان کے بعد روس نے بھی نیٹو فوجی اتحاد کی توسیع اور اس سے متعلقہ سکیورٹی امور کے بارے میں اپنے خدشات کی ایک تحریری فہرست عالمی ذرائع ابلاغ پر جاری کردی ہے۔ اس فہرست میں یوکرین اور دیگر ممالک کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے امکان کو رد کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ دُوسری جانب امریکا میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ’’ یوکرین کا مسئلہ یورپ اور نیٹو کا مسئلہ ہے امریکا کواس میں ٹانگ اَڑانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ اپنے بیان کے ذریعے ٹرمپ امریکی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہے کہ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں امریکا کو بیرونی جنگوں سے نکالنے کے لیے جو محنت کی تھی ، جوبائیڈن اُن کی اُس محنت پر پانی پھیرنا چاہتاہے اور یوکرین تنازعہ کے ذریعے امریکی عوام کے وسائل کو ایک بار پھر سے بیرونی جنگ میں جھونکنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اگرچہ امریکی رائے عامہ کسی بھی بیرونی جنگ میں امریکی مداخلت کے سخت خلاف ہے مگر اس کے باوجود جوبائیڈن انتظامیہ یوکرین تنازعہ میں ملوث ہونے سے شاید ہی خود کو بچا سکے۔ بظاہر امریکا ایک سے زائد بار یہ اعلان کرچکا ہے کہ اَب اُس کا دشمن صرف چین ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس کو بھی امریکا بطور ایک طاقت ور حریف کے ہی دیکھتاہے۔ خاص طور پر اُس وقت جب چین اور روس امریکی پالیسیوں کے خلاف مکمل طور پر ایک پیچ پر نظر آتے ہوں ۔ اس لیے جو سیاسی تجزیہ کار یہ سوچتے ہیں کہ یوکرین اور روس کے درمیان اگر باقاعدہ جنگ ہوتی ہے تو امریکا اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ ایک بہت بڑی خام خیالی ہوسکتی ہے۔ ہماری دانست میں جوبائیڈن یوکرین میں روس کے خلاف ایک اور بڑی سرد جنگ شروع کرنے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ امریکا پالیسی سازوں کے نزدیک روس کی طاقت میں اضافہ دراصل چین کی قوت میں اضافہ کے مترادف ہی ہے۔ بلکہ بعض تجزیہ کاروں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جس وقت امریکا یوکرین پر لشکر کشی کا مرتکب ہوگا، عین اُسی وقت چین تائیوان پر عسکری کارروائی کرسکتاہے۔ اس رائے کو اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ تائیوان بین الاقوامی قانون کی رو سے چین کا ایک حصہ ہے اور تائیوان بھی اس وقت مکمل طور پر چینی افواج کے گھیرے میں ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے مختلف رپورٹس کے مطابق اس وقت ٹینکوں، توپوں اور اسلحے سے لیس تقریبا ایک لاکھ سے زائد روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر تعینات ہیں،ان میں سے کچھ فوجی دستے ایسے بھی ہیں جو 4000 میل دور مشرقی روس سے آئے ہیں۔ یوکرین کے دعوی کے مطابق، 106000 روسی فوجیوں کے ساتھ 21000 بحریہ اور فضائیہ کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ جبکہ یوکرین نے بھی اپنی تمام تر فوج سرحد پر اگلے مورچوں پر منتقل کی ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی خفیہ اطلاعات کے توسط سے دعوی کیا ہے کہ ’’ 60 روسی جنگی گروپ یوکرین کی سرحد پر موجود ہیں‘‘۔ اگر برطانوی وزیراعظم کے دعوی کو من و عن درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ روس نے اپنی کل فوج کا تقریباً ایک تہائی یوکرین کی سرحد پر تعینات کردی ہے۔جبکہ بیلاروس میں روس کے کئی ہزار فوجی بھیجے گئے ہیں جن کا مقصد مشترکہ عسکری مشقوں میں حصہ لینا بتایا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی تعداد 10 سے 20 فروری کے درمیان بڑھ جائے گی۔بیلاروس کے رہنما ایلگزینڈر لوشنکو روسی صدر ولادمیر پوتن کے حمایتی سمجھے جاتے ہیں۔ یوکرین کا دارالحکومت بیلاروس کی سرحد سے 100 میل سے کم فاصلے پر ہے۔
صرف یہ ہی نہیں روس دنیا بھر میں بحری مشقیں اسی ماہ سے شروع کر رہا ہے جو تقریباً فروری کے اختتام تک جاری رہیں گی۔ ان میں 140 جنگی بحری جہاز اور سپورٹ کشتیاں، 60 طیارے، اور تقریباً 10000 فوجی اہلکار شامل ہوں گے۔جنگی ٹینک، افرادی قوت، اور بکتر بند گاڑیوں کو لے جانے کے قابل چھ روسی بحری جہاز انگلش چینل عبور کر کے عسکری مشقوں کے لیے بحیرہِ روم جا رہے ہیں۔تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کی منزل بحریہِ اسود ہے یا یوکرین کا ساحل۔علاوہ ازیں روایتی روسی فوجیوں کے ساتھ ساتھ خیال کیا جاتا ہے کہ 15000 روسی علیحدگی پسند یوکرین کے لوہانسک اور ڈونیٹسک علاقوں میں بھی موجود ہیں، جو کسی بھی جنگی صورت حال میں یوکرین کی فوج کے خلاف نبرد آزما دکھائی دیں گے۔شاید اسی لیے یوکرینی صدر نے بالکل درست کہا ہے کہ یوکرین کو اصل خطرہ روسی فوج سے کم اور داخلی طور پر زیادہ ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ روس نے جو ہتھیار یوکرین کی سرحد پر جمع کئے ہیں ان میں تمام ہتھیار جدید ہیں۔ دُوسری جانب امریکا نے جو ہتھیار یوکرین کو دیئے ہیں وہ بھی اپنی نوعیت کے جدید ترین ہتھیار ہیں۔ اس طرح دیگر ممالک جو ہتھیار یوکرینی حکومت کو دے رہے ہیں وہ بھی ہرلحاظ سے جدید ہتھیار ہیں۔غالب امکان ہے کہ یوکرین کی جنگ میں ان تمام ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ ہوگی اور بعداَز جنگ ان ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کی جائے گی۔واضح رہے کہ آدھی دُنیا اپنے لیے ہتھیار خریدنے کے لیے دو ٹریلین ڈالرز سے زائد کا بجٹ رکھتی ہے۔ امریکا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈّی ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ اب روس اس کا حریف بن کر میدان میں آ گیا ہے۔ گزشتہ دس بارہ برسوں سے روسی سائنس دانوں اور ماہرین کو صدر پیوٹن نے جدید سے جدید تر ہتھیاروں کی تیاری کے مشن پر لگایا ہوا تھا۔ اب روس بھی اپنے ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کرنا چاہتاہے اور یہ بات تو ہم سب بخوبی جانتے ہیں ہتھیاروں کی مارکیٹنگ جنگ کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر ہو ہی نہیں سکتی ۔ اگر یہ رائے درست ہے تو پھر دنیا کی کون سی ایسی طاقت ہے جو یوکرین اور روس کے درمیان ہونے والی جنگ کو ٹال سکے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔